December 29, 2011

ماہ و سال

لو جی یہ سال بھی گززر گیا ہے ۔ اپنی ٹو ڈو لسٹ جو سال کے شروع میں بنائی تھی اس کو کھولا تو پتہ لگا کہ جو کام اس سال پورے کرنے کی ٹھانی تھی جوں کے توں اپنی جگہ پہ موجود ہیں۔ ان کو مکمل تو کیا ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ ہاں البتہ  کچھ تبدیلیاں دو ہزار دس کی لسٹ میں ضرور ہو گئیں ہیں وہ کام جو 2010 کی ٹو ڈو لسٹ میں اپنی طرف سے پورے کر چکا تھا وہ دوبارہ سے منہ کھول کر سوالیہ نشان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔پچھلے کچھ سالوں کی ٹو ڈو لسٹ کھولی تو دیکھا کہ قریب ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں میری ٹو ڈو لسٹ میں کسی کو ایک سال پورا کر دیتا ہوں اور کسی کو اگلے سال اور پھر دوبارہ کسی سال کھول کر نئے سرے سے انی کاموں کا اندراج کر لیتا ہوں اور ایک ہی چکر میں گھومے جا رہا ہوں ۔ شاید کنویں کا مینڈک یہی ہوتا ہے۔
اب سوچ رہا ہوں کہ اگلے سال کی ٹو ڈو لسٹ بنانی ہی نہیں ہے میرے خیال سے ٹو ڈو لسٹ سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا سوائے اسکے کہ ہر تین مہینے بعد کسی رات آپ بھڑک کر اپنی ٹّوڈو لسٹ کھول بیٹیھیں اور خود کو گھنٹہ دو گھنٹہ کوسنے اور برا بھلا کہہ کر پھر لمبی تان کر سو جائیں۔ کسی سال سے میں ہم کیا حاصل کرتے ہیں اس کا تعین کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اپنے ماہ و سال بھی کبھی اپنی گرفت سے نکلے دکھائی دیتے ہیں گویا ہم انہیں نہیں وہ ماہ و سال ہمیں گزار رہے ہیں۔ ہمیں گزرتے سالوں کا شمار نہیں رہتا اور ان کے گزرنے کی تصدیق کے لیے ہم مختلف ریفرنس رکھ لیتے ہیں ہر کسی کا ہر عمر میں اپنا ہی ایک ریفرنس ہوتا ہے۔ میرے لیے سب سے آسان زمانہ طالب علمی تھا ہر سال ایک نئی کلاس ، ہر سال میری  بدلتی جماعت میرے  لیے نئے سال کی خوشخبری ہوتی تھی اور سال بھر کا خلاصہ تین مہینے کی چھٹیاں ، گائوں جانا ، سکول کے ٹرپ کی داستان ، اپنے سکول کا گیمز پیریڈ، سالانہ گیمز اور سکول کے وہ فنکشنز جن میں حصہ لیا ہوتا وہ تھے۔پھر گزرتے وقت کے ساتھ خلاصہ ختم اور صرف سال کے گزرنے کا ریفرنس رہ گیا ۔ اور اب تو اس کا احساس بھی مدہم ہو گیا ہے۔
 اپنے ایک دوست سے پوچھا تو وہ اپنے سالوں کا ریفرنس اپنے بیٹے کی نئی جماعت کو رکھ چکا ہے جب اس کا بیٹا اگلی جماعت میں جاتا ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ ایک سال گزر گیا ۔ میرے خیال سے تو اسکو  اپنے بیٹے کا احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ پاس ہو جاتا ہے ورنہ میرے جیسا زہیں برخودار  ہوتا تو ایک جماعت میں تین سال تو کم سے کم لگاتا۔ اور ان  حضرت کا ایک سال تین سالوں کے برابر ہوتا ، کوئی اپنے ریٹائرمنٹ کے سال گن رہا تو کوئی اپنی پروموشن کے ۔پردیس میں رہنے والے واپس گھر آنے کو اپنا ایک سال سمجھتے ہیں چاہے وہ ایک سال بعد آئیں یا تین سال بعد ، کوئی چہرے کی جھریاں شمار کرتا ہے تو کوئی بالون مین اتری چاندی۔ غرض ہر کسی نے ایسا ہی کوئی نہ کوئی کھوکھلا سہار رکھا ہوا ہے ان سالوں کے شمار کا ۔۔
  مجھے کبھی کسی سے ایسا جواب نہیں ملا جس کو سن کر میں نے سوچا ہو کہ ہاں یہ سال اس آدمی کا تھا اور اس نے سال کو گزرتے ہوئے محسوس کیا ۔ ہر کوئی اپنے سال کا اثاثہ  بتانے سے قاصر نظر آتا ہے۔

December 12, 2011

بکری والی ٹکر

ایک شیر کا بچہ شیروں کے گروہ سے علیحدہ ہو کر کھو گیا ، چلتا پھرتا وہ بکری کے ریوڑ میں شامل ہو گیا اور انہی کے ساتھ پل کر بڑا ہونے لگا انہی کی طرح چال ڈھال اور آواز بھی اختیار کر لی، ایک دفعہ بھیڑیوں نے بکریوں کے ریوڑ کو گھیر لیا  یہ دیکھ کر شیر کو بہت غصہ آیا جب بھیڑیوں نے بکریوں پر حملہ کیا تو شیر کا غصہ شدید ہو گیا اور اس نے دھاڑ کر شیروں والی آواز نکالی ، آواز سنتے ہی بھیڑیے سہم گئے شیر دھاڑتا اور غضب میں تیزی سے بھیڑئیے کی طرف بڑھنے لگا ۔ قریب پہنچ کر شیر نے بھیڑئیے کو  زور سے بکری کی طرح ٹکر مار دی
نوٹ:- بچپن میں یہ کارٹون سٹوری دیکھی تھی اور  اس کا اینڈ یعنی بکری والی ٹکر (وہ بھی بغیر سینگ کے) تب سے "ان فار گیٹیبل "  ہے اور جب سے جاب سٹارٹ کی ہے میں خود بھی یہی کر رہا ہوں۔  

November 10, 2011

کردار

رات کی تاریکی میں سڑک کے کنارے کھمبے پر لگے بلب کی تیز پیلی روشنی میں  اس کے سائے کا قد اس کے اصل قد سے کئی گنا بڑھ چکا تھا لیکن جیسے ہی وہ روشنی سے دور ہوتا گیا اس کے سائے کا قد گھٹتا گیا حتی کہ اندھیرے میں پہنچ کر اس کے قد کا سایا ہی نہ رہا۔

November 9, 2011

تیرا دل تو ہے فلم آشنا

ہاسٹل میں ہمارے وارڈن صاحب حو کہ اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی تھے ان سے کافی علیک سلیک ہو گئی اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ جب سٹڈی آور میں وہ کمروں کا چکر لگانے آیا کرتے تو میں لمبی تان کر سو رہا ہوتا لیکن بلکل کمرے کے دروازے کے سامنے میز پر ایک شاعری کی کتاب رکھ دیا کرتا وہ دروازہ کھول کر مجھے سویا دیکھتے اور کتاب اٹھا کر لے جاتے آگلے دن کتاب واپس لے آتے ۔ میں اپنی دانست میں ان کو یہ رشوت دیا کرتا ، پھر جب کبھی جاگا ہوتا تو کافی دیر ان کے ساتھ گپ چپ ہوتی ۔ باقی دوستوں نے جب دیکھا تو وہ کہتے کہ روز ہی محفل جما لیا کرو سر کے ساتھ کہ اسی بہانے سٹڈی آورز نکل جایا کریں گے بطور رشقت وہ کینٹین میں میری سیوا کیا کرتے کیونکہ سٹڈی آورز میں جو پڑھائی نہیں کر رہا ہوتا تھا وہ جرمانہ ادا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ  سر مشتاق سے کافی دوستی ہو گئی اور ان کے وارڈن لاج میں جا کرخوب محفل جمتی جہاں اور بھی اساتزہ اور سینئر سٹوڈنٹس آئے ہوتے 
کچھ عرصے بعد کالج میں ایک تقریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں سنجیدہ تقاریر کے ساتھ ساتھ مزاحیہ تقاریر بھی تھیں۔ اور میں نے کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یونیورسٹی کے ایک ایسے ہی مقابلے میں پہلے نمبر پر آنے والی مزاحیہ تقریر کا مسودہ حاصل کیا ہوا تھا سو میں پہلے ہی تیار بیٹھا تھا ۔ اس کا عنوان تھا 
"تیرا دل توہے فلم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں"  
تقریر کا وقت آیا  ججز میں سر مشتاق ہی بیٹھے تھے تقریر کے اختتام پر پہلا انعام ملا سب نے خوب سراہا  ، مجھے انتظار تھا شام کا کہ سر مشتاق سے ملوں شام ہوتے ہی ۔۔
شام کو میں وارڈن لاج میں گیا سر مشتاق اکیلے ہی تھے مجھے دیکھتے ہی وہ غصے سے لال پہلے ہو گئے کہنے لگے تمھاری ہمت کیسے ہوئی اقبال کے مصرعے کا مزاق آرانے کی ، تمھاری نسل صرف اجداد کا مزاق آڑانا جانتی ہے ، ان لوگوں کو جنھیں تمھارا رہبر ہونا چاہیے تم کیوں ان کو مسخرہ بنانا چاہتے ہو۔ اپنے آنے والی نسل کو کیا بتانا چاہتے ہو کہ اس ملک کی تاریخ میں صرف جوکر گززرے ہیں یا یہ سکھانا چاہتے ہو ان کو اپنے بڑوں کی ہر بات کو مزاح کا رنگ دے کر اس سے تفریح لیتے پھرو۔یہی رجحان ہے جو معاشروں میں کینسر کی طرح پھیلتا ہے اور پھر ہر طرف بے حسی پھییل جاتی ہے۔
کچھ لمحے تو مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے یہ سب باتیں میری سمجھ سے بہت بالاتر تھیں  اور مجھے تو یہ تک نہ پتہ تھا کہ میں نے اقبال کے مصرعے کو بدلا ہے میں نے تو فقط کاپی پیسٹ کیا تھا اس وقت تو میں واپس آ گیا ۔ بعد میں احساس ہوا کہ سر کو تکلیف پہنچی ہے غور کرنے پر پتہ چلا کہ تقریر میں ایک دو جملے مزید بھی ایسے تھا  مگر بہر مخفی انداز میں استعمال ہوئے تھے کہ مجھے بھی اندازہ نہ ہو سکا-
سر نے کبھی کسی سے سخت لہجے میں بات نہیں کی  تھی اور ان کا غصہ ہونا عجیب بات تھی اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میں کئی بار سر کے پاس گیا مگر انہوں نے مجھ سے بات نہیں کی نہ دوبارہ میرے کمرے میں کبھی آئے
حتی کہ کالج کے اخری روز بھی نہیں ملے ۔
اس بات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اقبال کو پڑھوں اگرچہ اقبال کو سمجھنا میرے بس کی بات نہیں تھی لیکن سر مشتاق نے اتنا ضرور سمجھا دیا کہ اقبال ایک سوچ کا نام ہے جو ہر صحت مند اور مثبت زہن میں پیدا ہوتی رہے گی۔


July 18, 2011

بلا فلسفوف- کم بیک پوسٹ

بہت دن ہو گئے دماغ میں فلسفیاتی موجوں کی دھما چوکڑی مچتے سو آج سوچا کہ ان کو آج کسی طرح سر سے اتار پھینکوں۔ مگر کچھ سمجھ نی آ رہی کہ کروں کیا ۔ پہلے سوچا کہ نائی کے پاس جا کر سر پر استرا پھرا لوں کہ بالوں کے  وزن کی وجہ سے تو کہیں یہ آتش فشانی خیالات نہیں آتے رہتے لیکن فرق اس سے بھی نہیں پڑنا یہ تو کمپنی فالٹ لگتا ہے مجھے اور ویسے بھی مردے کے بال کترنے سے مردے کا تابوت کونسا ہلکا ہو جانا ہے۔ الٹا محلے کے بچوں کو ایک نئی تفریح مل جائے گی۔ ویسے کسی ست بھرائی کو بھی  چھیڑا جا سکتا ہے  لیکن اس میں فلسفے کے ساتھ ساتھ سر جانے کا بھی اندیشہ ہے ۔ ہاں یہ کہ میری جاگنگ آج کل زوروں پر ہے،ساون ہے اور فضا میں نمی بہت ہے سو بھاگتے ہوئے وہ حالت ہو جاتی ہے کہ ابھی گرا کہ ابھی گرا مگر ہمیشہ سے سپورٹس گرائونڈ میں جا کر ایک پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہوں جس کی آج تک سمجھ نی لگی ، عام حالات میں تو یکسر مختلف ہوتا ہوں، مگر اتنا پسینہ بہنے کے باوجود بھی دماغ کی شریانوں سے فلسوف نہیں بہتا ،اوہ کیا یاد آ گیا ۔ پچھلے تین مہینے سے جاگنگ کر رہا ہوں ہفتے میں دو یا تین بار  ہی جا پاتا ہوں۔ پچھلے دنوںوزن کرایا تو بہتر-72 کلو تھا   بڑا خوش ہوا کہ کافی کم ہو گیا ہے ، کل  ایک اور چاچے کی مشین پر ٹھہرا تو وہ بولا چھتر 76 ہے بس  سارا جوش جاتا رہا، حالانکہ تین ماہ سے پیپسی تک نی پی کسی کو پیتا دیکھتا ہوں قہ آنے لگتی ہے، کھانا کھاتے وقت ہر نوالہ سے پہلے سوچتا ہوں کہ اس سے کتنا وزن بڑھ جانا ہے ، اور پھر جب اپنی جاگنگ کی حالت یاد آتی تو نوالہ حلق سے نیچے ہی نہیں اترتا - ویسے جوش کو قائم رکھنے کے لیے مشورہ ہے کہ غلط مشین پر مستقل مزاجی سے وزن کرایا کریں اور مشین روز روز مت بدلیں  ۔
جاگنگ سے کچھ جملے پیش ہیں آپکی خدمت میں جو مجھے دوستوں بلخصوص اویس سے سننے پڑتے ہیں جب میں ان کو جاگنگ کی کارگزاری سناتا ہوں۔

.........
"تو ہمیشہ ذندگی کی آخری دوڑ سمجھ کر کیوں بھاگتا ہے"
"ترس ہی کھا لیا کر تھوڑا اپنی حالت پر "
"تو کسی دن ٹریک کے آس پاس کسی  شجرکاری مہم  کے کھدے میں پڑا ملے گا"
"ایدھی کی ایمبولینس کو فون کر کے جایا کر بھاگنے"
" چوتھا چکر تو تیرے تابوت کو لیکر تیرا بھائی لگوائے گا تیری آخری وصیت کی تکمیل  کے طور پر "
دو مزید جو بتاتے شرم آ رہی ہے:(
" اوئے تو کتے کی طرح  کیوں بھاگتا ہے"
"تو کتے کی موت مرے گا بھاگتے ہوئے کسی دن"


July 15, 2011

یقین

کسی شہر میں بارش نہ ہونے کے باعث بہت خشک سالی و قحط تھا  ،شدید گرمی بھوک  اور پیاس سے اموات ہونے لگیں شہر کے  لوگوں نے شہر سے باہر ایک کھلے میدان میں جمع ہونے کا  فیصلہ کیا  کہ جہاں مشترکہ عبادت کی جائے تاکہ خدا آن پر رحم کرے اور آسمان سے بارش برسائے، جس سے قحط سالی دور کرے اور شدید گرمی کا خاتمہ ہو۔شہر کا ہر فرد  امیرو  غریب ،مزہبی اور سیاسی رہنما  مقررہ وقت پر متعین شدہ جگہ کی طرف روانہ ہو گیا ، وہ خدا سے بارش مانگنے جا رہے تھے۔ شدید گرمی کی وجہ سے سبھی  ہلکا بھلکا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر میدان کی طرف روانہ تھے جبکہ ایک نوجوان بارش کامکمل بندوبست کیئے ، برساتی  اوڑھے ، ہاتھ میں چھتری لیے ان کے ساتھ رواں تھا

July 11, 2011

سمت

وہ ترچھے زاویئے پر تعمیر کیے گئے ایک چھوٹے سے  کمرے میں رہائش پزیر تھا یہ کمرہ مستطیل یا مربع کے بجائے ایک پیرالالوگرام کی شکل آختیار کیئے ہوئے تھا۔کمرے کا کوئی بیرونی دروازہ نہ ہونے کے باعث کمرے میں رہتے ہوئے باہر کا نظآرہ کرنے کا واحد زریعہ ایک چھ بٹا چار کی کھڑکی تھی۔ وہ روزانہ  کمرے کی کھڑکی میں آ کر مشرق کی طرف سمت کر کے باہر کا نظارہ کرتا ، لیکن کمرے کے ترچھے زاویئے پر ہونے کی بناء پر وہ کمرے کے لحاظ سے سیدھا کھڑا ہوتا تو اس کو مشرق اور باہر کی دنیا ایک رخ پر نظر آتا  اور اگر وہ مشرق کی طرف سیدھا ٹھہرتا  تو اس کو آپنا وجود کمرے کے لحاظ سے ٹیڑھا نظر آتا۔وہ بیک وقت اپنی سمت دونوں لحاظ سے سیدھی کرنےکی کوشش کرتا رہا جو ممکن نہ تھا   ، وہ  بے سمعتی کا شکار ہو گیا  

July 6, 2011

جون کلوزنگ پارٹ-۱

اکتیس مئی آخری دن تھا  ، میز پر پڑی سبھی کمپنیوں کی بیلنس شیٹ میں آخری رقم صفر تھی ۔ ان میں ایسی کمپنیاں  "اے" گروپ بھی تھی جس کا بزنس اربوں میں ہوا  اور "وائے" گروپ بھی جس نے بمشکل چند لاکھ کا ہی کاروبار کیا مگر قدر مشترک دونوں کا اختتامی بیلنس صفر تھا ، یہی حال ساری  کمپینوں کی بیلنس شیٹس کا تھا۔اگرچہ ہر ایک کی ٹرانزیکشن ہسٹری بہت مخلتف تھی اور کسی نے کروڑوں کی منتقلی یومیہ ہوئی تو کوئی کئی کئی روز کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں کر پائی  مگر ڈیبٹ اور کریڈٹ دونوں کا متوازن انداز میں چلتا رہا۔ بڑی کمپنی کی کریڈٹ کی حد اگر بہت زیادہ تھی تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے بہت  زیادہ رہا   جبکہ چھوٹی کمپنیوں کا کریڈٹ کم نکلا  تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے کم  نکلا ۔ تو آخر میں جبکہ سب کا بیلنس صفر ہوا اور ان کی ڈیبٹ اور کریڈٹ ہندسوں کے گراف میں سب ہی کی لائینیں اپنی اپنی جگہ  بہت متوازن نظر آ ئیں ، کسی بھی لائن میں حیرت انگیز تغیر نہیں واضح ہوا، ہر لائن کی روانگی بحیثیت مجموعی چھوٹی موٹی  اونچ نیچ کے ساتھ متوازن ہی نظر آئی ، سب کچھ ایک میزان میں چلتا نظر آیا ، فرق محظ سلیب کا ظاہر ہوا نیٹ ایفیکٹ کچھ بھی نہ تھا۔

July 4, 2011

تین منٹ

دوسرا ٹیکنیکل فائول کرنے پر ایک کھلاڑی کو تین منٹ کے لیے باہر کر دیا گیا ۔  اب تین منٹ تک اس کے بغیر باقی چار کھلاڑیوں کو باسکٹ بال جیسے برق رفتار کھیل میں  خود کو کھیل میں  رکھنا تھا۔ جو بھی کھلاڑی باہر چلا جاتا ہے وہ محض تین منٹ کے لیے جاتا ہے اس کے بعد وہ خود یا اس کا متبادل مل جاتا ہے۔ اس لیے تین منٹ کا  کا پلان بنانا ہوتا ہے نہ کہ اگلی پوری گیم کا ۔ کیونکہ  پانچویں کھلاڑی نے واپس ضرور آنا ہوتا ہے۔  صرف تین منٹ کا مختصر عرصہ اس کے بغیر گزارنا ہوتا ہے۔ ان تین منٹ میں باقی مانندہ چار کھلاڑیوں کو پانچویں کھلاڑی  کی زمہ داری تقسیم کر کے اپنے کندھے پر لینی ہوتی ہے۔ لیکن اس انداز سے سر انجام دینی ہوتی ہے کہ وہ اس مختصر سے وقفے میں خود کو تھکا نہ دیں کہ باقی کی گیم ہی نہ کر سکیں  اور نہ ہی اتنے لا تعلق ہو جائیں پانچویں کھلاڑی کی زمہ داری سے کہ مخلاف ٹیم اس کا بھرپور فائدہ آٹھا لے۔ ایسے میں چار کھلاڑیوں کو موٹیویشن کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک کھلاڑی کو اپنے قد سے اٹھ کر کھیلنا پڑتا ہے اور وہ گارڈ  کہلاتا ہے باسکت بال میں ۔ ایسے کڑے وقت میں جو بھی اپنی زات سے باہر نکل کر کھیلتا ہے گارڈ ہی کہلاتا ہے۔ وہ کھیل کی رفتار کو سست کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باقی نہ تھکیں ۔ اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا ہے ، اور باقی چار کو متحد رکھتا ہے کہ ایسے میں باقی چاروں میں  باہمی ہم اہنگی کا فقدان نظر آ سکتا ہے کہ ان کے درمیان کی ایک کڑی پانی جگہ سے ہل چکی ہوتی ہے ۔ اور جو ٹیم یہ تین منٹ کا وقفہ پانچویں کھلاڑی کے بغیر بطریق احسن انجام دے دیتی ہے وہ کبھی 
مقابلے کی دوڑ سے باہر نہیں ہوتی۔
  کھیل کا اہم اصول یہ ہے کہ جو بھی جاتا ہے محض تین منٹ کے لیے جاتا ہے اور اس کے بعد وہ یا  اسکا متبادل مل جاتا ہے ۔ایسے میں گارڈ کو  اپنے قد سے نکل کر کھیلنا ہوتا ہے اور باقیوں کو وقتی طور پر اضافی زمہ داری لینی  ہوتی ہے چاہے باسکٹ بال  سامنے ہو یا نہ ہو۔

July 3, 2011

پر

آجکل ساون کا موسم ہے ساون میں زمیں کے اندر سے عجیب عجیب مخلوقات نکل آتی ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کے پر نکل آئے ہیں ۔  آج میں  بال ترزشوانےحجام کے پاس گیا تو اس سیلوں میں کچھ پتنگے گھس آئے۔ حجام نے پہلے تو ہاتھوں سے ان کو دور کرنے کی کو شش کی ، کچھ تو سمجھ گئے باقی دوبارہ واپس آ کر تنگ  کرنے لگے ، دوسری بار جب حجام تنگ ہوا تو اس نے جو سامنے بیٹھتے تھے زرا بھر کو ان کے پروں پر پانی کے قطرے ٹپکا دیئے ان کے پر بھاری ہو گئے اور وہ قوت پرواز سے محروم ہو گئے لیکن جب پانی ان کے پروں میں سے رس گیا تو دوبارہ اڑنے لگے اب جب وہ حجام کے آس پاس منڈلانے لگے تو اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اور  جو پتنگا پل بھر کے لیے بیٹھتا حجام  کمال محارت سے کینچی سے اس کے پر کاٹ دیتا تین چار پتنگوں کے جب پر اس نے کاٹ دیئے تو حیرت انگیز طور پر اس کے بعد کوئی پتنگا وہاں نہیں منڈلایا۔
ختم  شد

June 28, 2011

عقلبند

کہتے ہیں کہ ایک چڑا تھا بہت پھرتیلا  اور تیز ترار۔ اس کی سیانف  ( سیانتوپی یا عقلمندی کی اعلی و ارفع فارم، لفظ سیانا سے نکلا ہے)  بہت مشہور تھی۔ ایک دن وہ اپنے دونوں پائوں آسمان کی طرف کر کے زمین پر لیٹ گیا  اور  جب آس پاس سے باقی سب نے چڑے کی یہ حرکت دیکھی تو پوچھا کہ یہ کیا کر کرہے ہو تو وہ بولا  جو میں جانتا ہوں وہ تم لوگ نہیں جان سکتے یہ آسمان کسی بھی وقت گرنے والا ہے میں نے اپنے پائوں اوپر اس لیے کیئے ہیں کہ  جب آسمان زمین پر گرے تو میں اس کو دونوں پائوں پر سنبھال سکوں اور دنیا کو تباہی و بربادی سے بچا سکوں۔ اب کوئی عقلبند ہوتا اور سمجھاتا  چڑے کو کہ کسی عقلمند کے ۔۔۔بس کی تو بات نہیں تھی یہ

June 21, 2011

سحر

ہم میں سے  سبھی لوگ کسی نہ کسی سحر کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں دانستہ یا غیر دانستہ۔ وہ سحر کسی کے خیال کا  ہو یا کسی کے جمال کا ۔ یا کبھی تنہائی میں اپنا ہی  خود ساختہ سحر  جس کا حصار اپنے گرد بن لیتے ہیں اور پھر وہی ہماری دنیا بن جاتی ہے ہمارا تخیل اس حصار سے باہر نہیں جا پاتا ہم اس کے سوا کچھ دیکھ پاتے ہیں کچھ نہ ہی سمجھ پاتے کچھ۔ اسی حصآر میں ہم اپنے سپنے سجاتے ہیں ہر چیز سے ہمارا تعلق اسی حصار کے ماتحت  ہو جاتا ہے ۔یہ حصار خود فریبی بھی ہو سکتی ہی اور راہ فرار بھی کہ آپ دنیا کی حقیقتوں سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں ۔اور اس حصار کے پردے میں دنیا ہمارے سامنے سے چھپ جاتی ہے۔ لیکن  کسی بھی سحر کی ابتداء حقیقت سے ہی منسوب ہوتی ہے آہستہ آہستہ جب ہم اس کے حصار میں پوری طرح قید ہو جاتے ہیں اور اس کے غلام بن جاتے ہیں تو پھر اس  سے دوری کے تصور سے ہی خوف آنے لگتا ہے۔ لیکن ہر جادو کا توڑ ہے وقت ۔ اور وقت یہ حصار توڑ دیتا ہے اس سحر سے نکلنے کے بعد ایک نئی دنیا ہوتی ہمارے سامنے جو در حقیقت اصل دنیا ہے جو ہمیشہ ہی موجود تھی بس فقط ہم نے ہی  آپنی انکھوں پہ  پٹی باندھ کر اس کو خود سے دور کر لیا تھا۔
ایسے حصاروں میں ہم ہر چیز اپنی مرضی کی سوچتے ہیں اور کرتے ہیں جو کہ حقیقت میں ہوتی نہیں کبھی مگر ہم تصور پہ سب کچھ کر جاتے ہیں اور اس سے پوری طرح محظوظ ہوتے ہرتے ہیں۔ اس لیے جب حقیقت میں واپس آتے ہیں تو بہت مشکل ہوتا ہے خود کو اسی نئی دنیا میں  ڈھآلنا ۔ تب ہم واپس اسی سپنے کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ گزر چکا ہوتا ہے 
اور دنیا سے ہم لا تعلق ہونا چاہتے ہیں جو ہر لمحہ ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہےایسے میں ہمارے جسم اور سوچ کا تعلق آپس میں کمزور ہو جاتا ہے سوچ کہیں اور ہوتی ہے اور جسم کہیں اور۔دو کشتیوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ ہم زہنی طور پر ابھی تک اسی سحر سے منسلک ہوتے ہیں جس کا فرضی وجود بھی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اور بجائے ہم حقیقی دنیا مین لوٹنے کے ساری عمر خود فریبی میں گزار دینے کو ترجیح دیتے ہیں
ہماری سوچ یا تو اس حصار کے جو ہم سے کھو چکا ہوتا ہے اس کے دلفریب لمحے اپنی زہن میں سجا کر  اپنی زندگی اسی کے گرد سجا لیتی ہے تو ہم جہاں بھی چلے جائیں جو کچھ بھی مل جائے ہمارا سرمایہ وہی لمحات رہتے ہیں اس کے بعد جو بھی ملتا ہے وہ ہمارے لیے بلکل وقعت یا معنی نہیں رکھتا یا دوسری صورت میں اس حصار کے ٹوٹنے کی تلخی کے لمحات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور ہمیشہ اس کے غم میں نڈھال رہتے ہیں پھر ہمارے لیے کچھ بھی خوشگوار نہیں رہتا ۔ ہر آنے والی خوشی کو ہم اس غم کی چادر میں لپیٹ کر چہرے پر ازلی ماتم سجا لیتے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر جادو ، ہر سحر ، ہر خوشی ، ہر غم  کی حقیقت یہ ہے کہ اس نے نہیں رہنا

May 10, 2011

کر لو گل

گھر میں کل کسی سے گفتگو ہو رہی  تھی تو انہوں نے زندگی  کو ایک  نعمت کہا  اور اس کے مثبت پہلوئوں پر بات شروع کر دی  انداز گفتگو قدرے مختلف لگا لیکن زہن سے خیال کو رد کر دیا  کہ یہ تو معمول کی گفتگو کا حصہ ہو گا ۔ لیکن جب یہی موضوع طوالت اختیار کر گیا تو دل میں سوچا کہ ایسی کوئی کتاب تو گھر میں آئی نہیں نئی جس میں فلسفہ حیات  کے بارے میں پڑھ کر یہ باتیں اخز کی گئیں ہوں پھر کیا وجہ ہے اس قصے کی۔  چار نا چار سنتا رہا جب بات اسی موضوع پر ب دستور جاری رہی اور باقاعدہ لیکچر کی شکل اختیار کر گئی تو سوچ میں پڑھ گیا کہ اخر معاملہ کیا ہے لیکن  پھر بھی سمجھنے سے قاصر۔ میں نے کافی دیر کے بعد آہستگی سے پوچھا کہ تمہید تو خوب باندھ دی اب تمثیل بھی بیان کر دی جائے لیکن بجائے  سوال کا جواب ملنے کے گفتگو کا رخ ایک ایک سو اسی ڈگری کا پلٹا کھا کر خودکشی پر جا پہنچا  اور پھر خود کشی کے انفرادی ، معاشرتی اور مزہبی  نقصانات کنوانے کے بعد مجھے سے پوچھا گیا کہ دو دن پہلے میں جو عجیب شکل کی رسی خرید کر لایا ہوں وہ کس مْقصد کے لیے لائی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی میری وہ پوسٹ "آج" جس میں چوبیس گھنٹے میں موت کا حوالہ دیا گیا  اپنے متعلق سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو سارا معاملہ واضح ہوا۔ تو میں نے ہنس کر کہا کہ غلطی سے خودکشی سے پہلے ہی  وہ پوسٹ بپبلش کر دی ورنہ بعد میں کرنی چاہیے تھی اور سیے وہ   وہ انگریزی فلموں کا آلہ قتل نما چیز میں رسی کودنے کی ایکسرسائز کے لیے لایا ہوں۔
تب ان کو احساس ہوا کہ وہ غلط ہو گئے کچھ بہرحال۔۔ کر لو گل۔۔
لیکن یہ کیا میرے گھر میں بلاگ کا ربط کیسے پتہ چلا ، میرے گھر والے فقط اتنا جانتے ہیں کہ میں اردو ٹائپ کرتا ہوں بلاگ کا تو کبھی بتایا ہی نہیں ۔ خاص طور پر ربط کا تو کسی کو نہیں پتا ۔ یعنی میری غیر موجودگی میں میرے لیپ ٹاپ کی بغیر وارنٹ تلاشی لی جاتی رہتی ہے اور وہاں سے ہاتھ لگا یہ ۔ اور یہ آخری بات تھی جو میں چاہتا تھا  کہ میرے گھر والوں کو میرے بلاگ کا پتہ چلے  کہ مجھے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا پڑے کہ گھر والے کیا کہیں گیں ہمارا ہونہار پتر آدھا نفسیاتی مریض ہے :ڈ: ڈ۔ نہ جی فیر ایسے بلاگ کا کیا ککھ فائدہ ہونا ہے ۔ کر لو گل۔۔
بات منہ سے نکلی تو کوٹھے پر تو پہنچانی ہی چاہیے اب   میں ان کمنٹ فروشوں سے بھی بڑا تنگ ہوں ۔ یاد رہے کمنٹ فروش کہہ رہا تبصرہ نگا ر نہیں۔ کمنٹ فروش وہ بلاگر ہیں جو اس مقصد کے لیے کمنٹ کرتے ہیں کہ وہ بھی بلاگر ہیں تو دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہے ہوتے ہیں ، یا جوابی کمنٹ کی آس میں کمنٹ کرتے ہیں یا تعلق و دوستی کی بناء پر کمنٹ کرتے ہیں۔ تحریر ہر نہیں، جبکہ تبصرہ نگار وہ ہوتا ہے جو بلاگر نہ ہو صرف تحریر کو پڑھ کر کمنٹ کرے ، پورے بلاگستان میں ایک ہی تبصرہ نگار ہے وہ ہے انانی موس لیکن لوگوں کو اس کے تبصرے کچھ پسند ہی نہیں آتے ۔ لیکن بندہ اچھا ہے   وہ جو بھی ہے۔بس زرا  پیار سے پیش آنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ فقط۔۔۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی کمنٹ فروشوں کی تو مجھے سمجھ نی آتی کہ اپنے بلاگ پر میں نے چھتیس کے فونٹ میں بلا امتیاز لکھوایا ہوا ہے لیکن جو کمنٹ کرنے آتا ہے وہ امتیاز ، شاہ جی ، یا بلے جو سارے میرے نام رہے ہیں کبھی نہ کبھی ان سے  پہچانا جاتا رہا ہوں وہ استعمال کرتے رہتے ہیں بلکہ کچھ  تبصرے تو میں نے ڈیلیٹ ہی کر دیئے کہ ان میں وہ نک استعمال کیا گیا جو تین چار لوگوں کے علاوہ کوئی جانتا ہی نہیں  اور میرا بلاگ اتنے رومانوی نام کا متحمل نہیں ہو سکتا  تھا،  کر لو گل،
جس کے بلاگ پر کمنٹ کرتا ہوں وہ بھی بلا امتیاز کے نام سے لیکن جواب میں انہی ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے ، یعنی کمنٹَ بلا امتیاز کرتا ہے جواب شاہ جی وصول کرتا ہے، جناب اپنی اپنی قبر ہے دونوں کی ۔ کر لو گل
پہلے اس کا مورد الزام فیس بک کو ٹھہراتا تھا لیکن اب تو اس کو چھوڑے ہوئے بھی مدت ہی بیت گئی ہے۔۔ پر طرز بلاگراں ہے کہ بدلتا ہی نہیں ۔۔کر لو گل۔
بلاگ کا نام بدلنے کی کوشش کری جا سکتی ہے ویسے ۔ یا انگزیزی والے بلاگ کی طرح ایک گمنام بلاگ بنا لوں کہ فیر کہہ کر دکھائے کوئی مجھے شاہ جی یا بلا  یا امتیاز یا   تاز ۔ کر لو گل


May 4, 2011

فارسی کلام

فارسی کا شوق پیدا ہوئے تو کافی عرصہ ہو چکا ہے لیکن اپنی روایتی  سستی اور ازلی سہل پسندی کی وجہ سے ابھی تک فارسی کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہو سکی۔ البتہ کبھی کبھی گولڑہ شریف جانا ہوتا ہے ایک حلقہ احباب میں جن کو فارسی پہ کافی عبور حاصل ہے اور وہ رومی و حافظ جیسے   شعراء کو بکثرت پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ سو ایسی محفل کے ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ کر تشنگی کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 
اس حلقے سے شناسا کرنے والا ایک دیرینہ دوست عاکف تھا کچھ دن پہلے اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے ایک کلام سنوایا اور سمجھایا بھی جو بہت زیادہ پسند آیا اسی لیے آپ حضرات کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں
اس کلام کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو زبانی یاد کرنا بہت مشکل ہے ، بہت کم لوگ اس کو یاد کر سکے ہیں  باوجود بہت کوشش کے۔ دو   زبان میں لکنت رکھنے والے افراد جن میں ایک ایک بوڑھا اور دوسرا نوجوان تھا ان کے انداز گفتگو  پہ ہے یہ کلام۔
فارسی سے لگائو رکھنے والوں کے لیے بلا شبہ ایک گوہر ہے۔ پیر نصیر الدین شاہ کا کلام ہے یہ۔

April 27, 2011

آج

موت کی بھی عجیب حقیقت ہے ہر  جاندارکو علم ہےکہ اس کو موت آنی ہے لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ اس کو کب آنی ہے۔ ساعت موت کا علم اگر ہو جائے تو انسا ن سب کچھ بھول کر کنارہ کش ہو جائے لیکن  یہ لاعلمی ہی کئی لوگوں کو اس گھمنڈ میں مبتلاکر دیتی ہے کہ شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ جیئیں گے ۔
کل ایک کتاب پڑھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اگر مجھے یہ علم ہو جائے کہ میں چوبیس گھنٹے بعد  مر جائوں گا تو  میں کیسےجیئوں وہ جوبیس گھنٹے۔ اپنی زات کو جسےمیں نےزہنی اور نفسیاتی تجربہ گاہ بنا رکھا اس کو چوبیس  گھنٹے کی موت کا عندیہ دیا لیکن خود کو یہ احساس دلانا بہت مشکل نظر آیا ۔ موت جو کہ اگلے ہی لمحے آ سکتی ہے میں خود کو یہ یقین نہ دلا سکا کہ میں چوبیس گھنٹے بعد مر جائوں گا اور یہ آخری چوبیس گھنٹے ہیں میری زندگی کے۔   خود کو احساس دلانے کی کوشش لگا تار کئی گھنٹے کرتا رہا لیکن وہ کیفیت  اور احساس پیدا ہی نہ ہو سکا جانے کس چیز کا یہ دھوکا تھا کہ میں گماں کیے بیٹھے تھا کہ  میں تو بہت جیئوں گا ابھی۔
ہار کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اگر میں یہ سوچ لوں کہ میری پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں زندگی کے تومیرےلیے  دنیا کیسے بدلے میرے گماں میں ، میں فرض کر لوں ۔ ہاں اگر میں یہ سوچ لوں ایسا۔
اگر میں ایسا سوچ لوں توکیا عجب تازگی کا احساس ہوکہ  میری زندگی میں آنے والا کل نہ رہے اس کل سےجڑےاندیشے خوف اور سوال نہ رہیں۔  جو اپنے کل کو سنوارنے کے لیے میں اپنا آج گنوا رہا ہوں وہ نہ گنوائوں۔
 پھر جو میں یہ سوچوں تو میں اپنے گزرے ہوئے کل سے پیچھا چھڑا لوں اس کی تلخیاں ، ستم اور محرومیاں بھلا دوں ، اپنی زات پہ لگے ماضی کے زخم ہی مٹا دوں کہ اتنا وقت ہی ہو کس کے پاس اس سب کے لیے، یہ تو بے کار لوگوں کا پیشہ سمجھوں۔
جو میں یہ سوچوں تو پھر دل  سے حسد کینہ و نفرت کی ساری کالک مٹا دوں ،  اس دل کو دھو کر آئینہ بنا دوں۔  سراپا محبت بن جائوں ، جن کو میں پوجتا رہا ہوں صدیوّ ں، اپنی انا کے ان بتوں کو  نست و نابود کردوں انکا نام ہو نشان مٹآ دوں، روح سے پھوٹے وہ روشنی میری روح سے کہ ہر سمت اجالا ہو جائے۔ جہاں بھی جائوں محبت ہی محبت ہو جائے۔

جو میں یہ سوچوں تو دیکھوں اپنے ارد گرد  تو سامنے اپنا والد  نظر آئے ، سالوں کی محبت جس کو میں کبھی  الفاظ نہ دے پایا ہمیشہ آنے والے وقت پہ ٹالتا رہا ، اس کے سامنے کروں یوں بیان کہ سماں میرے اوراسکے آنسوئوں سے جل تھل ہو جائے۔ منظر جو بدلےتو  اپنی ماں دیکھوں وہ بار ملازمت جو میں نے اس کے پائوں میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اٹھایا تھا ، جس نے فقط مجھے اس سے دور ہی کیا تھا ۔ اس بار کو پھینکوں اور ماں کے قدموں سر رکھ کر اپنی آخری نیند سو جائوں۔۔ پھر جو آٹھوں تو سامنے پائوں  اپنے بہن بھائیوں کو  اپنا ہستی تک سمیٹ کر ان کے حوالے کر دوں۔ ان کے غموں کے بدلے اپنی خوشیاں بیچوں، ، باہر جو نکلوں اپنے سارے یار ،انکے ساتھ مل کر  میلہ سجا دوں ۔ وہ کھیل کھیلوں کہ جھوم اٹھیں فضائیں ، اپنے پیاروں کے قہقوں کو گھٹائوں کا ترانہ کر دوں
اک ایک ساعت جیئوں ، اک اک پل جیئوں ، ہر پل میں ہزار رنگ جیئوں  بے فکر معاش و افلاس جیئوں۔ زمان  و مکان سے آزاد جیئوں  ، راحت و آسائش سے بے مراد جیئوں ۔ ایسے جیئوں کہ جینے کا حق ادا کردوں۔ 

اور پھر جب  میں سوچوں کہ ہوں میری پاس فقط چند  آخری گھڑیاں اس ڈھلتے دن کی ، تو میں اپنے رب کے حضور خود کو اس شدت جزبات و انکساری سے  پیش کروں۔ پھر وہ بندگی ،حاضری و حضوری ہو  اس خالق دو جہاں کے سامنے  کہ فرزشتے بھی جان جائیں کیون آدم کو خلفہ بنا کر زمیں پہ بھیجا گیا ۔ جب  پڑھوں نماز تو ایسی کہ معراج ہو جائے  اور  پھر جب رکھوں سر سجدے میں تو عرش کے فرش بھی کریں  فخر اور اس  سجدے میں ہی قیامت ہو جائے۔

پھر  جو میں اگر سوچوں کہ زندگی کا ہر روز آج ہے تو زندگی کتنی سہل ہو جائے

April 20, 2011

میری ڈائیری کا ورق مورخہ بیس اپریل ۲۰۱۱

آج صبح ہوئی تو باوجود اتوار نہ ہونے  کے دفتر نہیں جانا تھا  لیکن کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی چھٹی کی خوشی تو سکول میں ہوا کرتی تھی بلکہ ہر خوشی بچپن میں ہی ہوا کرتی تھی اس عمر میں تو فقط رکھ رکھائو کے لیے ہی مسکراتے ہیں لوگ۔
چھٹی اس لیے کہ  پچھلے دنوں امی جی کی طبیعت خراب ہوئی تو ان کا چیک اپ کروایا تھا دل کا مسئلہ لگ رہا تھآ لیکن اللہ نے کرم کیا اور ایسا مسئلہ نہیں تھآ لیکن ہمارے چچا جی جو کے سنٹرل ہسپتال میں ہیڈ ہیں انہوں نے کہا کہ وہاں ایک بہت اچھی لیڈی ڈاکٹر ہیں جن سے مشورہ ضروری تو اس لیے  چھٹی کی صبح نو بجے  امی جی کو لے کر ہسپتال روانہ ہو گیا۔۔ اور حسب عادت ایک غلط یو ٹرن لیا جس کی وجہ سے کافی گھوم کر آنا پڑا جس پر امی جی سے ڈانٹ بھی پڑی جس کا زائقہ ان کے بنے ہوئے صبح والے پراٹھے سے بھی لزید لگا ، دل تو چاہا کہ دو تین ہزارمزید غلط یو ٹرن لوں لیکن نظر امی  جی کے چپل پر پڑی تو باز رہا۔۔
ہسپتال پہنچا تو چچا جی کے پاس گیا انہوں نے ایک نائب  قاصد کو ہمارے ساتھ معمعور کر دیا  جہاں عام حالات میں لوگ ڈھونڈے سے نہیں ملتے وہاں ایک بندہ آپکی خصوصی خدمت و رہبری پر تعینات کر  دیا جائے۔ اونچی شان ہے کرسی کی۔ وہ لیکر سارے مراحل سے ہمیں پار کرواتا رہا  جب آخری مرحلے پر یعنی  سنیئر لیڈی ڈاکٹر کے پاس پہنچے تو دروازے کے باہر  وہ بولا یہاں سے آگے جاتے سب کے پر جل جاتے ہیں یہاں لائن میں لگ کر ہی چیک اپ کروانا پڑے گا میڈم بہت سخت ہیں اصولوں کی۔
باری کے انتظآر میں لوگوں کی آراء پتہ چلیں میڈم کے بارے میں کہ پچپن سال کی ہیں ، شادی نہیں کی انہوں نے ، دو ہسپتالوں کی ہیڈ ہیں ، بہت سخت ہیں ، بہت مغرور ہیں کسی کو کچھ نہیں سمجھتی وغیرہ وغیرہ۔ 
خیر جب  ہماری باری آئی اور اندر گئے تو ہماری تواضع انہوں نے اس جملے سے کی کہ  : پہلے پرائیویٹ کلینکس میں پھرتے رہا کریں آخر میں آ جایا کریں یہاں سب کچھ بگاڑ کر" میں نے کچھ کہنا چاہا لیکن ابھی آدھا جملہ ہی بول پایا تھا کہ انہوں نے ہتھیلی دکھا دی ۔ بظاہر ہتھیلی پہ کچھ لکھا نہیں تھا صرف لکیریں تھیں لیکن مجھے اس میں "منہ بند رکھو" لکھا دکھآئی دیا۔۔
میں نے رپورٹس سامنے رکھیں تو کہنے لگیں کہ میرے پاس وقت نہیں یہ پلندہ دیکھنے کا ان کے ساتھ اسسٹ بھی ایک اچھی ڈاکٹر ہی کر رہی تھیں  ان کو بھی جھاڑ پلائی کسی وجہ سے۔ بہرحال بہ انہوں نے جلدی جلدی سب کام کیا کیونکہ بہت مریض ہوتے ہیں انکے پاس۔ اور کہا جا سکتے ہیں وہاں سے نکلتے ہوئے مجھے میڈم بہت اچھی لگیں جانے کیوں ۔ سب  کی آراء غلط لگی ۔ اور تھیں بھی بہت اچھی  اور اچھے لوگ ہمیں قبول نہیں۔ وہ اتنی پروفیشنل تھی کہ ایکو ٹیسٹ خود لیتی تھی اب تک ، جو باقی نرسوں کے سپرد کر دیتی ہیں۔۔
وہاں سے واپسی پر میں نے امی جی کو بتایا کہ میڈم اکیلی ہیں اور انکی تنخواہ پانچ سے چھ لاکھ ہے تو امی جی بولیں بہت کم ہے  میں نے یک دم امی جی کی طرف دیکھا  تو حیرت کا شدید جھٹکہ لگا ، سپیڈ بریکر کی وجہ سے جو میں دوسری طرف دیکھنے کی وجہ سے دیکھ نہیں پایا تھا 
انہوں نے کہا کہ بہت کم ہے یہ سب کچھ ، جس نے اپنی زندگی میں گھر نہ بسایا ہو شادی نہ کی ہو ، بچے نہ ہوں جسکے اور ساری عمر مریضوں کے درمیان گزار دی ہو اسکے لیے یہ بہت کم ہے ۔۔
میں نے سوچا واقعی یہ مائیں کسی اور ہی مٹی کی بنی ہوتی ہیں کوئی الگ ہی سانچہ رکھا ہے اللہ نے ان کو بنانے کے لیے۔ ا اور وہ رب کیسا ہو گا جس نے انکو بنایا ہے۔۔ 
 واپسی  گھر پہنچا تھوڑی دیر بعد عصر کا وقت جو اب جاب کے دوران کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے نصیب ہوا اس وقت بچے محلے میں کرکٹ کھیل رہے تھے ان کے ساتھ شامل ہوا  اسامہ نے نمبر لگانے تھے ہر لائن پر نمبر لگا کر اس کے سامنے باری لکھی اور باریوں کے اوپر بیٹ رکھ دیا ۔  سب نے لائن پر انگلی رکھنی تھی اور جس کے لائن کے بیٹ کے نیچے جو نمبر ملنا تھا وہ اس کا بیٹنگ آرڈر ہوتا سب وہاں گئے تو یہ کیا  اسامہ نے خود ہی نمبر رکھ کر سب سے پہلے خود ہی انگلی رکھ لی  آج مجھے سمجھ آئی کہ اسامہ کی ہمیشہ پہلی باری کیسے آتی تھی۔ میں نے احتجاج  کیا اور اسامہ کو آخری نمبر لینے پر مبجور کیا اور خود اس کا نمبر لے کیا جو پہلا تھا لیکن قسمت کہ پہلی بال پر آئوٹ ہو گیا   بچے زندگی سے بھرپور پوتے ہیں اور ان کے ساتھ رہ کر زندگی کا احساس ہوتا ہے  جو لوگ زندگی سے اکتاہٹ کا شکار ہوں وہ بچوں کو کھیلتے دیکھنے کا  مشاہدہ کریں  تو وہ زندگی کی طرف لوٹ آئیں
مغرب کے بعد پتہ چلا کہ ایک دوست ناراض ہو چکے ہیں  سو انکو منانا تھا ضروری ، کچھ رشتے ایسی بنیاد پر بنے ہوتے ہیں کہ ان کو خفا نہیں کیا جا سکتا
سو عزت نفس سائیڈ پر رکھ کر انکو منانا پڑا  اور پھر بنا اپنی غلطی کے  خیر غلطی کر کے تو ہر کوئی مناتا ہے میں نے اسے بنا غلطی کیے ہی منا لیا  کہ کچھ نسبتیں ماورائے انسانی ہوتی ہیں، ساتھ ہی یاد آیا کہ ایک ایکسل شیٹ بھی ہے میری جس میں تمام ناراض لوگوں کی فہرست ہے جو مجھ سے ناراض ہیں
اس پر نظر دوڑائی تو وجہ کے خانے میں سب جگہ یہی لکھا تھا کہ میں نے انکے کام نہیں کیے تھے
معلوم نہیں کہ دوستی ہوتی ہے تو اس کے بعد کام کیوں آ جاتے ہیں دوستی کے بیچ اور جب کام آ جاتے ہیں تو پھر دوستی  کیوں چلی جاتی ہے یہ دونوں الگ الگ کیوں نہیں رہ سکتے اور کون اب سلجھائے یہ گتھیاں میں نے یہ ایکسل فائل ہی ڈیلیٹ کر دینی ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔


سونے کا وقت ہو چکا کل تو جانا ہی ہے دفتر پھر ۔۔ شب بخیر

April 14, 2011

منیجر

  منیجرز کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں جیسے بلئی منیجر ، پوائنٹر منیجر ، شیفرڈ منیجر ،اسیشن منیجر لیکن اج کل جو قسم عام ہے وہ ہے لوسی منیجر ۔۔ اپنی خصلتوں کی بناء پر اداروں میں سب سے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔لوسی منیجر کی خصوصیت ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے آگے سے گزرنے دیتا ہے نہ پیچھے سے۔۔ کچھ بھی نہ جاننے کی باوجود خّود کو تکنیکی ماہر ، عالم فاضل، ،دور اندیش ظاہر کرنے کی  کوشش کرتے ہیں ،یہ افسران بالا اور  ماتحتوں کے درمیان نالہ لئی یعنی گندے نالے کا کام دیتے ہیں ۔  جو کوئی چھوٹا موٹا پل بنا بھی ہو تو وہ یہ خود گرا دیتے ہیں۔ اور پھر دونوں طرف اپنی زات کی گندگی اچھالتا رہتے ہیں۔ بصورت دیگر ان کی گندگی سب کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے۔
۔ گویا گدھے ہوتے ہوئے شیر کی کھال پہنن کر انکا انداز اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن  ان کے کھر ہر جگہ انکی اصلیت ظاہر کر دیتے ہیں۔

ان کو بہت وفادار گردانا جاتا ہے ، یہ صبح مینجمنٹ کو شکل دکھا کر سارا دن بھر اپنی زوجہ محترمہ کی  رمائشی لسٹیں پوری کرتے رہتے ہیں اور شام کو دوبارہ دفتر پہنچ کر اپنی وفاداری ثابت کرتے ہیں۔ کہ وہ تو اپنا  دین ایمان و شریعت تو اپنے باس کی کہی ہوئی بات کو سمجھتے ہیں۔ اور کام کا اصول تو بابائے قوم بھی انہی سے سیکھ کر گیا ہو گویا۔ویسے ایک وفادار پالتو جانور بھی یہی کرتا ہے اوائل شب میں رکھوالی کرتا ہے جیسے ہی مالک سو جاتا ہے وہ  دوسرے محلوں میں پرائی موئنثوں کے پیچھے پوری رات آوارہ گردی کرتا رہتا ہے اور صبح صادق کے قریب واپس گھر کے پاس آ کر دوبارہ رکھوالی شروع کر دیتا ہے۔ یعنی یہ عادت  لوسی منیجر نے اسی جانور سے مستعار لی ہوتی ہے گویا۔
تکنیکی طور پر کم علم ہونے کی وجہ سے یہ کام  بلکل نہیں سمجھتے  اور دور کھڑے ہو کر شور مچاتے رہتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ایک تکنیکی پتھر ان کے رسید کیا جائے تو چوئوں کی ایک چینخ کے ساتھ خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔
ان کی اگر افسران بالا کے سامنے گفتگو سنی جائے اور اس میں سے"جی جی" ، جی سر" اور "یس سر" نکال دیئے جائیں تو پیچھے حروف اضافت ہی رہ جاتے ہیں۔   اور دوران سماعت  ان کا  سر ایسے عمودی زاویے پہ حرکت کرتا ہے کہ گویا فسران بالا  کی باتیں  انکے دل و دماغ پہ  زعفران سے نقش ہو رہی ہوں۔ انکھیں اور زبان ایسے ظاہر ہو رہی ہوتی ہیں کہ ایک معروف چاپائے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔۔
لیکن یہ لوسی منیجر بھی تو ہمارے ہی محلے دار ، علاقے کے اور جاننے والے      ہوتے ہیں لیکن لوگ ان کا حوالہ دیتے ہوئے کتوں کا زکر کرتے ہیں جس پہ مجھے  ہمیشہ بہت افسوس ہوتا ہے۔۔ بہت بری بات ہے ایسا نہیں کرتے ان کی بھی عزت نفس ہوتی ہے آخر۔۔ کیا ہوچھا  کن کی ؟؟ جی انہی کی ۔۔ تھنک پازیٹیو ۔۔


نوٹ:-
میں نے یہ تمام خصوصیات اپنے منیجر کو زہن میں رکھ کر لکھی ہیں جن کے منیجرز میں اضافی خصوصیات ہیں وہ درج کریں ان کونام کے ساتھ  پوسٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ 

March 22, 2011

روندو

بچپن میں محلے میں مختلف کھیل کھیلا کرتے تھے گلی ڈنڈا ، کنچے ، پتنگ بازی اور کرکٹ۔ کھیل جو بھی ہوتا ان میں ایک کردار مشترک ہوتا تھا وہ تھا "روندو" کا۔ ہر کھیل میں کھلاڑی تو بدل جاتا تھا لیکن  روندو کردار لازمی ہوتا تھا۔ روندو کا کام کھیل میں خچ ڈالنا ہوتا تھا ۔۔ بات بے بات رو پڑنا ۔ اپنی ہار روندو سے برداشت نہیں ہوتی تھی اگر کرکٹ میں وہ پہلی بال پر آئوٹ ہو جاتا تو رولا ڈال دیتا کہ وہ تیار نہیں تھا یا ٹرائی بال تھی ۔ اگرچہ اگلی بال پر پھر آئوٹ ہو جاتا۔ کنچے غلط پھینک دیتا تو کہتا کہ میرے ہاتھ سے پھسل گئے تھے دوبارہ باری دو۔ پتنگ کٹ کر جاتی تو  جو لوٹ لیتا اس کے گھر کے سامنے رونا شروع کہ ٹوٹ کر آئی ہے واپس کرو۔ اگر کبھی  کھیل کے دوران وہ ٹھیک کھیل رہا ہوتا تو چلتا رہتا جیسے ہی اس کا کھیل ختم اپنی وکٹیں اٹھا کر گھر دوڑ پرتا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی اس کو پھینٹی لگاتا اور سب سے زلیل ہوتا لیکن اگلے روز پہلے سے بھی  زیادہ  ڈھیٹ بن کر لوٹتا۔۔

آسٹریلیا کی کرکٹ سے بڑا روندو کوئی بھی نہیں۔ پاکستان کے میچ کے خلاف جب  جب آسٹریلیا ہار رہا تھا تو اسٹریلیا کے آفیشل روندو ۔ چپل کے منہ والے کمنٹیٹر این چیپل نے اپنی روندیاں ڈال دیں۔  کھیل میں تو اس کا بس چل نہیں سکا سو وہ اپنی روندیاں کمٹری باکس میں ہی ڈالتا رہا۔ میچ کے بعد اس نے شاہد آفریدی کے رویے  کو    "ایڈوٹک" کہا اور  قومی ٹیم کے کپتان کو غیر زمہ دار کہا اور کہا کہ شاہد آفریدی کو ٹیم کا کپتان ہونا ہی نہیں چاہیے یعنی اب  وہ بتائے گا کہ کپتان کس کو ہونا چاہیے تھا۔ اور کہا کہ جس طرح وہ وکٹ لینے کے بعد خوشی مناتا ہے وہ باقی کھلاڑیوں پر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتا ہے  اور باقی ٹیم  سے الگ خوشی مناتا ہے اسنے ان الفاظ میں مخاطب کیا
self-obsessed starman individual celebration
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ساری دنیا اب خائف ہے کہ اس ٹیم کو جس کو دس دن پہلے تک کپتان نہیں مل رہا تھا کوئی نظم و ضبط نہیں تھا ۔ اس کے دو فرنٹ لائن فاسٹ بائولر  اور  ایک کپتان اور اوپنر پر پابندی لگا دی گئی کیسے  یک دم ایسی پرفارمنس کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ اور  ہمیشہ کی طرح پاکستان کو ایک بار پھر دوسرے معاملات میں الجھا کر انکی توجہ کھیل سے ہٹانا ہے۔۔
میرا اس چپل کے منہ والے این چپل سے یہ سوال ہے کہ اگر افریدی اتنا آیڈآٹک پے تو تیرے جنٹلمین پونٹنگ کی ٹیم اس آڈیآٹک ٹیم سے ہار کیسے گئی اور وہ  ایسی ٹیم سے ہارنے پر استاد کی در شاباش کے سات اضافت لگا کر تیری جنٹلمیں ٹیم پر 
" ۔ " لخ در شاباش
اور دوسری بات یہ کہ  شین وارن آئوٹ کر کے بعد جو  دیوانہ وار چلایا کرتا تھا وہ  این چیپل کو یاد نہیں۔ اس کا انداز تو رومن گلیڈیٹرز جیسا تھا جو رنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد جوش فتح میں غرایا کرتے تھے۔
اور کرکٹ میں گالم گلوچ اور نسلی تعصب کے جملے  لانے والے ہی آسٹریلیائی ہیں۔
جب میدان میں آسٹریلوی کھلاڑی گالیاں دیتے ہیں تو این چیپل کا تبصرہ ہوتا ہے کہ
i love this agression from the aussuies
تو اب سب پر لازم ہے کہ جو بھی کرکٹ کے میدان میں گالی  دے ساتھ چیپل کو ضرور بل ضرور دو گالیاں دے کیونکہ " ہی لوزز دس اگریشن"۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم بیڈ لوزز ہے بلکہ یگلی اور بلوڈی لوزز ہے
لیکن نمک حلالی کی عمدہ مثال تو وسیم اکرم   اور رمیض راجہ نے قائم کی  جنھون نے اپنے ملک کے لیے  کوئی سٹینڈ ہی نہیں لیا  مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ہم کھاتے اپنا ، کماتے اپنا ، پہنتے اپنا ہیں پھر بھی اس گوری چمڑی سے کیوں اتنے مغلوب ہیں۔  ان سے اچھا تو ویسٹ انڈیز کا این بشپ ہی رہا  جس نے علیم ڈار کو بھرپور سراہا کہ علیم ڈآر کا ایک بھی فیصلہ ڈی آر آیس سے واپس نہیں کیا گیا۔۔لیکن راجہ اور اکرم کو این ٹوفل سے آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا،
البتہ کر ا نفو پہ ایک اچھا بلاگ دیکھنے کو ملا اس موضوع پر ایک پاکستانی بلاگر کی طرف سے جس کا لنک یہ ہے
http://blogs.espncricinfo.com/pakspin/archives/2011/03/storm_in_an_idiot_cup.php
ایک جگہ پڑھنے کو ملا کہ شاہد افریدی کی طرف سے اس بیان کا ردعمل بھی آیا ہے جس کی حقیقت سے پوری طرح آگاہی تو نہیں لیکن لنک یہ ہے
http://www.cricketwithballs.com/2011/03/21/shahid-afridi-accuses-ian-chappell-of-causing-cancer/

March 18, 2011

واردات ۔گاڑی نمبر آئی سی ٹی : ۱۲۳

نوٹ : یہاں کرداروں کے فرضی  نام استعمالے گئے ہیں ، کمزور دماغ لوگ مت پڑھیں ۔۔۔۔۔

 کل (مورخہ سولہ مارچ بوقت چار بج کر پانچ منٹ سہ پہر) جب چھٹی کے وقت  میں دفتر کے گیٹ سے باہر نکلا اور پارکنگ کی طرف  جا رہا تھا کہ رستے میں عمیر مل گیا ، میں اور عمیر ایک ہی گاڑی  میں آتے ہیں۔ اور ہمارے علاوہ چار مزید لوگوں کو وہ گاڑی  پک اینڈ ڈراپ دیتی ہے۔۔ عمیر نے مجھ سے کہا کہ آج کسی کو پھانستے ہیں بہت دن ہوئے کسی سے کچھ کھائے ہوئے ، میں نے کہا کہ آسان ہدف تو احمد ہے ہماری گاڑی کا ممبر کسی نہ کسی بات پر اسکو پھانس کر بلی اس کے سر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن وہ بولا کہ احمد  اب بہت سیانا ہو گیا ہے اور اس سے جب بھی کچھ کھلانے کا کہو وہ امجد کا نام لیتا ہے کہ اس کے سر بہت سی پینلٹیاں رہتی ہیں پہلے وہ کھلائے تب میں کھلائوں گا اور امجد سے پیسے نکلوانا جوئے شیر بر لانے کے مترادف ہے بہرحال ہم دونوں منصوبے  پر سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ احمد کی قسمت کہ وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا اور اس کے سر ہم نے پینلٹی ڈال دی ۔ لیکن وہ اپنی اسی گردان پر بضد ہو گیا کہ پہلے امجد  پیینلٹی دے تب میں دوں گا۔ وہ کسی طور پر مان نہیں رہا تھا  تو میں نے احمد کو کہا کہ جتنے تم دو گے امجد اس کے ڈبل دے گا ، امجد نے مجھے گھورا تو اسکو آہستہ سے کہا کہ تم کو میں باقی سب سے کنٹریبیوٹ کروا کر دے دوں گا۔ ابھی احمد کے سامنے تم پیسے دے دو کہ احمد کی تسلی ہو جائے اس پر امجد مان گیا ۔ ساتھ ہی عمیر کو مسیج کیا کہ امجد سے بڑی مشکل سے پیسے نکلوائے ہیں اسکو واپس نہیں کرنے ۔ وہ بھی سمجھ گیا ۔ خیر پانچ سو احمد سے لیے اور  اس کے ڈبل یعنی ہزار امجد سے اور احمد کو ساتھ لے کر میں اور عمیر آڈر دینے چلے گئے رستے میں احساس ہوا کہ پیسے کچھ کم ہیں تو میں نے احمد کا دیا ہوا ہزار کا پورا نوٹ رکھ لیا اور اسکو کہا دیکھو  تم اور امجد دونوں مل کر ٹریٹ دے رہے ہو تو انصاف ہونا چاہیے اور تم دونوں برابر پیسے دو۔ اور اس کو ہزار پر قائل   کر لیا۔ آڈر دیا جو اٹھارہ سو تک بنا ، وہ گاڑی میں کھآیا پیا اور چل پڑے اب امجد دیکھ رہا تھا کہ ہم پیسے دیں گے لیکن وہ ہم نے دینے تھے نہ دیئے اور وہ احمد کے سامنے بول نہیں سکتا تھا وقتی طور پر سو چپ رہا۔  اور رستے میں ہی احمد نے کہا کہ آج سے دیر سے آنے والے ہر بندے پر سو روپے جرمانہ ہو گا جس پر سب مان گئے اور سب اپنے اپنے گھروں کے پاس اتر گئے ۔

 آج (مورخہ  سترہ مارچ بوقت چار بجے سہ پہر) واپسی پر گاڑی میں احمد نہیں تھا اور امجد اور جاوید   گاڑی میں لیٹ آئے۔ جاوید کل موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس سے سو روپے جرمانہ لیا جب امجد سے جرمانہ مانگا تو احمد کی غیر موجودگی میں وہ اپنی رقم کا تقاضا کرنے لگا کہ میری رقم واپس کرو جو اضافی تھی تو عمیر بولا کہ بل زیادہ بنا تھا  تو ہم دونوں نے اس میں اپنے پاس سے پیسے ملائے تھے  یہ جھوٹ اس لیے کہ امجد سے پیسے نکلوائے جا سکیں امجد بولا کتنا بل بنا تھا تو عمیر نے بڑھا چڑھا کر  تیئیس سو تک پہنچا دیا ۔ اور کہا کہ باقی پیسے ہم نے ڈالے ہیں۔ لیکن امجد ماننے والا کب تھا وہ بولا کہ تیئس سو میں سے احمد کے پانچ سو نکال دو تو   پیچھے اٹھارہ سو کو تین پر تقسیم کرو ۔۔اور چھ سو بنتے ہیں تو وہ بولا کہ میں نے ہزار دیئے تھے مجھے دو دو سو تم دونوں واپس کرو۔۔ تب میںنے کہا کہ تم نے پانچ سو دیئے تھے اور احمد نے ہزار دیئے تھے امجد نے شور مچا دیئا کہ نہیں اس نے ہزار دیئے تھے اور احمد نے پانچ سو ۔ اور ہمیں کہا کہ وہ اس پر شرط لگانے کو تیار ہو گیا ۔  شرط ہارنے پر عمیر ہزار دے گا ورنہ  امجد۔ میں نے کہا تھیک ہے ابھی موبائل کے سپیکر پر احمد کو فون کرتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اس نے کتنے پیسے دیئے تھے کل۔ اور صرف یہی بات پوچھیں گے اگر اس نے کہا کہ ہزار تو امجد ہزار روپے دے گا ورنہ عمیر دے گا۔ میں فون ملایا اور احمد سے پوچھآ تو احمد نے کہا کہ اس نے کل ہزار روپے دیئے تھے۔ یہ سن کر امجد کے اوسان خطا ہو گئے۔ پہلے تو ماننے  کو ہی تیار نہ ہوا پہ بات بلکہ خود کنفیوز ہو گیا۔۔ ہمارے موبائل میں بھیجے گئے ایس ایم ایس چیک کرنے لگا۔ چار و ناچار اس کو مزید ہزار روپے دینے پڑے ۔ اور گاڑی سے اترتے وقت تک یہی کہتا رہا  تم لوگوں نے کوئی ڈرامہ کیا ہے۔ اور اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ بے چارہ حیران و پریشان ہمیں دیکھ رہا تھا،  اور اس پوری واردات کے دوران میرا اور عمیر کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔۔

سبق:  کسی سے پیسے نکلوانا بہت اوکھا کام ہے۔

March 16, 2011

دل سا کمینہ

دل سا کمینہ بھی شاید ہی کبھی  کوئی ہوا ہو گا ۔ یہ جو ایک ڈرامہ رچائے تو سو مکاروں کی عیاری پہ بھاری۔  اور اس کی ایک اٹھکیلی  ہزار لفنگوں کی مشترکہ  لفگ گیریوں سے بھی آگے۔  وحشی ایسا کہ جنگل کے  درندے بھی اس سے پناہ مانگیں۔
کسی بات پر اڑ جائے تو شیطان کو صراط مستقیم پہ لانا آسان لیکن اس کو سمجھانا  مشکل۔۔ادائیں جب دکھائے تو ایسی کی جنت کی حوریں بھی   لائن میں لگ  لگ کر  اس سے ٹپس لیں۔ اور اگر کوئی حسینہ جو پل بھر کو اس کو لفٹ کرا دے تو   کسی ڈڈو کی طرح اچھل اچھل کر سینہ پھٹا کر باہر نکلنے کو دوڑے۔ ڈھڑکے ایسے جیسے ازدھا پھڑکے۔ اور جب کوئی حسینہ اس کو سرخ جھنڈی کرا دے تو اس کی باں باں ایک زمانہ سنے۔ حالت ایسی بنا لے کی مجنوں بھی دیکھے تو ایک تسلی کی تھپکی اور دس روپے کا نوٹ تھما کر  ہی جائے۔۔
من کا ایسا میسنا کہ اپنی سونے کی چمچ کو چھوڑ کر دوسروں کی ڈسپوزیبل پلاسٹک   کی چمچ کو دیکھ کر للچائے۔ الہڑ پن اس کا ایسا کہ ہر چیز سے چند دنوں میں ہی بیزار ہو جائَے۔ جس چیز کے لیے ایک روز ادھم مچا ئے تیسرے روز  اس کے لیے بے معنی ہو جائے اور پھر نیا فرمائشی پروگرام شروع۔ کبھی کبھی تو میرا جی چاہتا ہے کہ ایک خنچر سے اپنا سینہ چاک کر کے اس مرن جوگے کو باہر نکال لوں ۔ اور اس کو ایک قلم اور اسٹامپ پیپر تھما کر کہوں  "بیٹا یہاں پہ ان سب  چیزوں کی فہرست بنا  جو تجھے پسند اور نا پسند ہیں اور نیچے اپنا انگوٹھا لگا اور اج کے بعد تو نے ایک بھی ایسی چیز کی ضد کی جو اس فہرست میں نہ ہوئی یا کسی ایسی چیز سے منہ بنایا جو اس فہرست کی ناپسندیدہ چہزوں میں شامل نہیں تو میں نے تیری ایسی لترول کرنی ہے کہ  تجھے اپنی نانی یاد آجانی ہے۔۔
لیکن یہ ہڈی  سدھرنے والی ہی کب ہے ۔کبھی تو سوچتا ہوں کہ اس کو اپنی ساری منقولہ اور غیر منقولہ شریانوں سے عاق کر دوں۔ کسی دریا میں بھیینک دوں یا کسی  صحرا میں دبا آئوں لیکن کیا کروں جی جیسا بھی ہے دل تو آخر اپنا ہے نا۔۔

March 2, 2011

انجمن ستائش باہمی

ہری پور کی فضا کافی ادبی ہے ۔وہاں کئی نامی گرامی شعراء  گزرے ہیں اور انہی کی محنت کی بدولت یہاں کچھ ادبی حلقے اور فورم کام کر رہے ہیں۔۔
 فی الوقت وہاں دو حلقے بن چکے ہیں۔ ایک جوان و درمیانی عمر سے تعلق رکھنے  شعراء ہیں جو اس بات کے قائل ہیں  کہ جس شعر میں وہ  یعنی محبوب نہیں وہ شعر ہی نہیں اور جس غزل میں محبوب کی زلفوں ، ہونٹوں ، گفتار اور شباب  کا زکر نہیں وہ سرے سے غزل ہی نہیں دوسرے گروہ میں بزرگ شعراء ہیں جو کہ  غم حالات  ، دوراں اور معاشرتی اصلاح ہی  کو اپنا منشور بنا  بیٹھے ہیں اور نوجوان نسل کے اشعار کو ان کا  بچپنا سمجھتے ہیں۔ان دونوں گروہوں کی چپقلش چلتی رہتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو  انجمن ستائش باہمی کے نام سے پکارتے ہیں۔
 انجمن ستائش باہمی  یعنی  اپنے ہی گروہ کے ارکان کی تعریف میں قصیدے پڑھتے رہنے والے ۔ 
اس کا عملی مظاہرہ  ہری پور میں ہونے والے مشاعروں میں خوب دیکھنے کو ملتا  
جہاں دونوں حلقے ایک ساتھ ساتھ بیٹھ جاتی ہیں۔ اور جس کا شاعر سٹیج پر کلام سنانے جاتا   تو وہ گلا صاف کرنے کے لیے کھنکار بھی دے تو فضا واہ واہ کی آواز سے گونج اٹھتی ہے  اس کے لوگ داد دے دے کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔  لیکن جیسے ہی دوسرے گروہ کا شاعر آئے تو ان کو گویا  سانپ  سونگ گیا ہو لیکن دوسری طرف بزرگ شعراء اپنی جوانی کو یاد کر کر کے داد میں جوان شعراء سے بھی بازی لے  جانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اگرچہ اس میں داد کی آواز کم اور کھآنسنے کی زیادہ ہوتی ہے آخر میں ایسے مزاحیہ شعراء  کو بلایا جاتا ہے جن کو دونوں حلقے دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ اور آخر میں دونوں انجمنیں گل مل جاتی ہیں۔۔دوران مشاعرہ بھی بزرگ شعراء  نوجونواں کے اشعار پر زیر لب مسکراتے ہیں اور نوجوان بھی  ان کے اشعار پر سر تسلیم خم کر لیتے ہیں اگرچہ ظاہری   طور پر جو بھی ہو دونوں حلقے اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر بہتر کام کر رہے ہیں ،عمر رسیدہ شعراء کو یاد ہے کہ انہوں نے بھی جوانی میں ایسی ہی  شاعری کی تھی  اور نوجوانوں کو  بھی اندازہ ہے کہ کل کو   انہیں بھی یہی شاعری کرنی ہے جو اج کے بزرگ شعراء کر رہے ہیں 

بلاگستان کا حال بھی کچھ عجیب ہے۔ یہاں دو انجمنیں بن گئی ہیں ،اس میں بھی دو گروہ بن چکے ہیں بلکہ  یوں کہا جائے کہ  زبردستی بنا دیئے گئے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
دونوں حلقے ایک دوسرے کو ادبی ادبی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
حال یہ ہے کہ کسی بلاگ پر اس کی تعریف کر دی جائَے تو دوسرا حلقہ فتوے لگا دیتا ہے کہ یہ مخالف گروہ کا رکن ہے  اور ہاں جی اور جی ہاں کے سوا کچھ نہیں آتا اسکو،، اور اگر کسی بات سے اختلاف کر لیا جائے تو  حلقہ احباب بلاگ  زبردستی اس کو دشمن کا ایجنٹ  ثابت کر کے دوسرے گروہ کی صفوں میں  ٹھہرا کر ہی دم لیتے ہیں۔  بحث برائے بحث ، حجت برائے حجت، فساد برائے فساد اور کبھی تو جایلیت برائے جایلیت کی  ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اور  جو کچھ لوگ اپنی تئیں کچھ اصلاح یا درست بات کی کوشش بھی کرتے ہیں ان کی آوازیں بھی اسی فتنہ کا حصہ بن جاتی ہیں اور  وہ آواز اپنا معنی و مقصد ہی کھو بیٹھتی ہے۔ اس لیے فتنے کے دور میں وہی عقلمند گردانا جاتا ہے جو خاموشی  اختیار کر لے

حسن اختلاف کا حسن اگر کھو جائے تو اختلاف بہت بھیانک شکل  اختیار کر لیتا ہے

February 1, 2011

دعا

ابھی میری اپنے دوست سے بات ہو رہی تھی تو وہ اپنی جاب کے بارے میں بتا رہا تھا تو اس کی ترقی کا سن کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس کو دعا دی کہ
" ۔" اللہ تجھے اور ترقی دے آمین 
تو اس نے جوابی طورپر مجھے دعا دی کہ 
"اللہ تیری دماغی حالت درست کرے " 
پہلے تو مجھے بہت ہنسی آئی لیکن ساتھ ہی احساس بھی ہوا کہ مجھے واقعی اس دعا کی بہت ضرورت بھی ہے۔

January 23, 2011

سڑک

اکثر جب زہن بہت الجھ جاتا ہے  مسائل الجھے ہوئے دھاگوں کی طرح دماغ  کی شریانوں  سے چمٹ جاتاے ہیں  اور ان کا   کوئی   سرا نہیں ملتا کہ اپنے زہن کو اس سے آزاد کروا سکوں ۔ زندگی  کسی بھٹکی ہوئی روح  کی طرح  دیواروں سے ٹکریں مارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے   

January 13, 2011

Mid Night پاگل پن

بچے  آگ کو بھی پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلیے نہیں کہ وہ ناسمجھ ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ بہادر ہوتے ہیں۔
 ، ہم اپنے اندر خٔوف پالتے رہتے ہیں  اور یہ خوف ہمیں اندر سے کمزور اور 
کھوکھلا بنا دیتے ہیں۔ طرح طرح کے خٔوف بلخصوص
  ہم اپنے کل کو بچانے کے لیے اپنا آج دائو پر لگا" fear of tommorow"
دیتے ہیں ۔ وہ کل جو دیکھا بھی نہیں اس کے لیے اپنا آج جو ہمارے ہاتھ میں ہے وہ  گنوا دیتے ہیں۔

January 10, 2011

سفر نامہ - دودي پت سر

رات کے پچھلے پہر ہم چار دوست اپنے ہوٹل کے کمرے ميں موجود تھے، منصوبہ کے مطابق ہم نے  ساتھ لے جانے والي ضروری اشياء کي فہرست بنائي اور صبح سويرے 7 بجے کيمپنگ کے ليے ناران سے جھیل دودی پت سر روانہ ہونا تھا اپنے منصوبہ کا لائحہ عمل تيار کرنے کے بعد ہم سو گئے