وہ ترچھے زاویئے پر تعمیر کیے گئے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پزیر تھا یہ کمرہ مستطیل یا مربع کے بجائے ایک پیرالالوگرام کی شکل آختیار کیئے ہوئے تھا۔کمرے کا کوئی بیرونی دروازہ نہ ہونے کے باعث کمرے میں رہتے ہوئے باہر کا نظآرہ کرنے کا واحد زریعہ ایک چھ بٹا چار کی کھڑکی تھی۔ وہ روزانہ کمرے کی کھڑکی میں آ کر مشرق کی طرف سمت کر کے باہر کا نظارہ کرتا ، لیکن کمرے کے ترچھے زاویئے پر ہونے کی بناء پر وہ کمرے کے لحاظ سے سیدھا کھڑا ہوتا تو اس کو مشرق اور باہر کی دنیا ایک رخ پر نظر آتا اور اگر وہ مشرق کی طرف سیدھا ٹھہرتا تو اس کو آپنا وجود کمرے کے لحاظ سے ٹیڑھا نظر آتا۔وہ بیک وقت اپنی سمت دونوں لحاظ سے سیدھی کرنےکی کوشش کرتا رہا جو ممکن نہ تھا ، وہ بے سمعتی کا شکار ہو گیا
بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مغرب کیطرف کمر کرکے کھڑا ہے
ReplyDeleteبہت خوب، دراصل ہم نے جب تک اپنی سمت کودرست ناں کیاتوملک ترقی کی طرف نہیں جاسکتاہےاورہمارےحکمرانوں کی سمت توبس دولت اوراقتدارکی طرف ہی ہے
ReplyDeleteاس ترچھے زاوئیے کی سوچ میں کاٹ کا عنصر موجود ہے ممکن ہو تو بات کو آگے بڑھائیں۔ مزید میں بلاگ پر لوٹ آیا ہوں تاخیر کی تفصیل بلاگ پر تحریر کی صورت لکھی ہے خوش رہیئے۔
ReplyDeleteبنا اجازت کے گوگل پلس پر آپکی تحریر پوسٹ کر دی ہے، پر کیا کروں اس تحریر نے مجھے خود سے ہمکلام ہونے پر مجبور کر دیا ہے، یوں لگتا ہے کہ یہ میں خود ہوں۔
ReplyDeleteآپ کے نام کے ساتھ پبلش کیا ہے امید ہے آپ خفا نہیں ہوں گے۔
شکریہ