کسی شہر میں بارش نہ ہونے کے باعث بہت خشک سالی و قحط تھا ،شدید گرمی بھوک اور پیاس سے اموات ہونے لگیں شہر کے لوگوں نے شہر سے باہر ایک کھلے میدان میں جمع ہونے کا فیصلہ کیا کہ جہاں مشترکہ عبادت کی جائے تاکہ خدا آن پر رحم کرے اور آسمان سے بارش برسائے، جس سے قحط سالی دور کرے اور شدید گرمی کا خاتمہ ہو۔شہر کا ہر فرد امیرو غریب ،مزہبی اور سیاسی رہنما مقررہ وقت پر متعین شدہ جگہ کی طرف روانہ ہو گیا ، وہ خدا سے بارش مانگنے جا رہے تھے۔ شدید گرمی کی وجہ سے سبھی ہلکا بھلکا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر میدان کی طرف روانہ تھے جبکہ ایک نوجوان بارش کامکمل بندوبست کیئے ، برساتی اوڑھے ، ہاتھ میں چھتری لیے ان کے ساتھ رواں تھا
اسے ہی خدا اور خدا کی قدرت پر "یقین", "ایمان" اور "اعتبار" کہتے ہیں۔۔۔
ReplyDeleteعمران اقبال کی بات سے اتفاق کرتا ہوں
ReplyDeleteاگر مجھے درست ياد ہے تو ايوب خان کی حکمرانی کے شروع کا دور تھا ۔ بارش نہيں ہو رہی تھی ۔ نمازِ استسقاء کا اعلان ہوا ۔ ايک جماعت مسلم ہائی سکول ۔ اصغر مال راولپنڈی کے ساتھ ميدان ميں [يہ ميدان اب نہيں ہے عمارات بن چکی ہيں] اور دوسری ٹوپی ر٥کھ [اب نام ايوب پارک] ميں ۔ يہ دونوں جگہيں اُس وقت کے راولپنڈی شہر سے باہر مخالف سمت ميں تھيں ۔ ايوب خان نے ٹوپی رکھ ميں نماز پڑھی ۔ سب لوگ پيدل چل کر نماز کيلئے پہنچے ۔ دوگانہ پڑھا گيا اور دعا شروع ہوئی ۔ دعا ہوتی رہی حتٰی کہ بادل آنے شروع ہوئے اور اللہ کے فضل سے سب لوگ بھيگتے ہوئے گھروں کو واپس آئے مگر سب مطمئن اور بشاش تھے ۔ سُبحان اللہ
ReplyDeleteاللہ تبارک تعالی سے دعا مانگنے میں اعتقاد تو ایسا ہی ہونا چاہیئے مسلمان کا ۔ رحمتیں سمیٹنے کے لئے بالکل تیار ہو جیسے ۔
ReplyDeleteیقین ، ایمان، توکل جو بھی نام دیں یہ رب کی ذات سے جوڑ جائیں تو ان کی لاج رب خود رکھتا ہے۔
ReplyDelete