July 16, 2010

گاربیج ٹرک

گاربیج ٹرک  کا کام گندگی جمع کرنا ہوتا ہے اسے جہاں سے جتنی گندگی ملے اور اٹھا لیتا ہے , گاربیج ٹرک صبح سویرے اٹھتا ہے ، گلی  گلی محلے محلے گھومتا ہے وہاں موجود کوڑا کرکٹ کی ڈگیوں سے گند اٹھاتا ہے ،  اپنے اوپر لادتا ہے اور اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے ، اور شام تک جب وہ اپنی مخصوص کردہ آخری جگہ سے گندگی اٹھاتا ہے تو اس کے سر پر  ایک گندگی کا پہاڑ جتنا بوجھ جمع ہو چکا ہوتا ہے۔۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی یہی حالت ہے ، کہ پورا دن جہاں سے جس کے قریب سے گزرتے ہیں اس کی گندگی اٹھا کر اپنے سر لاد لیتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو کسی ٹیکسی یا وین والے سے منہ ماری کر لی اور پہلی ڈگی سے گندگی کا ڈھیر اٹھا لیا ۔ دفتر گئے تو باس نے میٹنگ کے لیے بلا لیا ، گھنٹہ بھر باس کےقصے ، کہانیا ں ، کارنامے اور افسانے سننے کے بعد ، باس کی کچھ گٹیا باتوں کو ذہن میں بٹھا لیا اور مزید گندگی سر پر لاد لی ۔ اور پھر پورا دن یہی سلسلہ چل پڑا ، کبھی یہاں  سے گندگی اٹھا رہے تو کبھی وہاں سے۔۔  بازار ہو یا بل جمع کروانا ہو ، کسی کا کام کرنا ہو یا کسی سے کام کروانا ہر کام میں ٹینشن کی گندگی اپنے سر سوار کر لی ، ، شام تک سر پر دن بھر کی ٹینشن کا پہاڑ لاد لیا۔ 
 ۔                اور  جس طرح گاربیج ٹرک جو بھی گندگی اٹھاتا ہے وہ اس کی اپنی نہیں ہوتی اسی طرح  یہ لوگ دوسروں کی ٹینشن کو اپنے سر پر سوار کر لیتے ہیں ، لیکن گاربیج ٹرک اور انسان میں ایک فرق ہوتا ہے ، گاربیج ٹرک شام کو ساری گندگی بلدیہ کی مخصوص کردہ جگہ پر پھیینک کر آ جاتا ہے ، لیکن لوگ یہ گندگی اپنے گھروں کو لے کر آ جاتے ہیں ، اور  گھر آ کر یہی گندگی غصے چڑچڑے پن اور عدم برداشت کی صورت میں اپنے گھر کے افراد پر گراتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ  تو اسی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کے مریض تک بن جاتے ہیں ۔ زرا سی بات پر بلڈ پریشر ہائی  ہو جاتا ، ظاہر پورے شہر کی گندگی سر پر سوار کریں گے تو بلڈ پریشر نے اوپر ہی جانا ہے۔
اس لیے چھوٹا سا مشورہ ہے کہ بندے بنیں گاربیج ٹرک نہیں ۔۔


July 4, 2010

او کاٹا۔۔۔۔

جیسے ہی گرمی کا موسم آتا ہے ، اک زرا بھی دھوپ میں جاٰوں تو آنکھون میں سرخی آ جاتی ہے ، گھر والے ، دوست احباب سبھی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ہداہت کرتے ہیں ، میں دوا استعمال بھی کرتا ہوں جب سرخی بہت زیادہ ہو جائے لیکن عام طور پر اس کو الرجی کا نام دے کر ٹال دیتا ہوں کہ یہ ہر گرمیوں میں آنی ہی  ہو تی  ہے ۔لیکن در حقیقت مجھے اس انکھوں  کی سرخی سے پیار ہے ، اس میں مجھے اپنے بچپن اور اپنا شوق نظر آتا ہے ، یہ وہ تحفہ جو مجھے پاکستان کی جون جولائی کی کڑکتی دوپہر کی جلسا دینے والی دھوپ میں سورج کی انکھون میں انکھین ڈال کر گھنٹوں پتنگ اڑانے کی بدولت ملا ہے ، اور ایسا قیمتی تحفہ کون  ضائع کرنا چائے گا ، اور اب بھی کبھی انگلی کٹ جائے تو مجھے درد کی وہ لزت  کا احساس  ہوتا ہے جو  پتنگ کی ڈور  سے انگلی  کٹ جانے سے ملا کرتا تھا
     میرا بچپن  ایک سرکاری رہائشی کالونی میں گزرا یہ گھر والد صاجب کو انکی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا ، یہاں ہر محلے میں ۳۰ کے قریب گھر  تھے آمنے سامنے اور ہر گھر کے دو داخلی دروازے   تھے ، ایک گلی کی طرف اور دوسرا  سڑک کی طرف کھلتا تھا  آمنے سامنے والے گھر کی گلی کے  دروازے آمنے سامنے ہی کھلتے تھے  اور باقی دو اطراف میں دیوار کھڑی کر دی گئی تھی ، کیونکہ گلی کی طرف سے صرف  عورتیں آتی جاتی تھیں اور شام کو عورتیں اور بچے  ویاں بیٹھ کر دن بھر کی باتیں کیا کرتے تھےاور مرڈ حضرات کسی پلاٹ میںاکھٹے ہو   کر خوش گھپیاں ے تھے ، ہنسی  خوشی اور بہت پیار کا ماحول تھا ایک گھر کی خوشی پورے  سے    پورے محلے میںجشن اور ایک گھر میں غم سے پورا محلہ سوگوار ہو جاتا ،  جو وہ گلی چھوڑنے کے بعد کہیں دیکھنے کو نہیں ملا باقی سب محلے بھی اسی طرز پر بنے ہوئے تھے اور قریب قریب ہی تھے  اور بین محلہ ہم اہنگی بھی دیدنی تھی۔ اور سارے گھر سنگل سٹوری تھے اور ایک طرف والی چھتیں اپس میں بلکل ملی ہوئی تھیں گویا ایک گھر کی چھت ہو اور یہ ہی ہماری پتنگ بازی کا میدان جنگ بھی تھا۔۔۔
جیسے ہی ہوش سنبھآلا جس پتنگ باز کا نام سنا وہ " لیفٹی بھآئی " تھآ  جو ہمارے محلے کے پچھلے محلے میں رہتے تھے ، لاہور کے ہونے کی وجہ سے انھوں نے کالونی میں پتنگ بازی کے نت نئے انداز اپنائے جو ان کی عالم  گیر شھرت کا باعث بنے ، جیسے توکل اڑانا ، چھک مار کے پتنگ کاٹنا ، نئی نئی ڈور متعارف کروانا۔ اسی وجہ سے وہ ہمارے آئیڈیل بن گئے۔
لیکن جیسے ہی پتنگ بازی کی خواہش کا اظہار کیا ابا جی نے  پابندی لگا دی  سو ابا جی سے چھپ چھپ کر پتنگ بازی کا آغاز کیا ، اس کام میں میرا پارٹنر میرا دوست اکبر جو میرے گھر کےسامنے رہتا تھا جس کو ہم گگو کہہ کر بلاتے تھے بنا وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھآ بنا، پہلا مرحلہ دھاگہ سے ڈور سوتنا تھی اس کے لیے ہم نے بکر سے رابطہ کیا بکر کا پورا نام ابوبکر تھآ لیکن وہ بکر کے نام سے جانا جاتا تھآ ، وہ ایک فری لانسر قسم کا پتنگ باز تھآ جس نے اپنی زندگی پتنگ بازی اور پتنگ بازوں کے لیے وْفف کی تھی اور وہ بلامعاضہ لوگوں کو ڈور سوت کر دیتا تھآ، سو پہلے ہم نے جیب اور خرچ اور سبزی لانے والے پیسوں میں سے پیسے بچا کر کچھ رقم جمع کی پھربکر کے پاس گئے ، لیکن رقم اتنی تھی جس سے بمشکل دھاگہ آ سکتا تھآ،لیکن بکر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے ایک دن دو اور لوگوں کی ڈور سوتنا تھی اس دن بلا لیا ، ان کی ڈور سوتنے کے بعد جو محلول بچا اس کو ملا کر اور جو کمی تھی وہ پانی کے زریعے پوری کر کے ہمیں ڈور سوت دی
ہمیں ڈور مل گئی ہم بکر بھائی بکر بھائی کہتے نہ تھکتے تھےڈور آے کے بعد ڈور کو ابا جی سے بچانا تھا اس کے لیے سٹّور جہاں ابا جی کا جانا بہت کم ہوتا تھا وہاں امی جی کی ملی بھگت سے ہم نے ایک خفیہ جگہ بنائی اور وہاں اپنی پتنگ اور ڈور رکھنے لگے۔
اب پتنگ اڑانے کا یہ طے ہوا کہ جیسے ہی ابا جی دفتر سے واپس آ کر کھانا کھآ کر   سو جائیں گے ہم چپکے سے چھت پر جا کر پتنگ اڑائیں گے انا جی دوپہر ۳ بجے سویا کرتے تھے سو ہر روز ہم چھت پر پتنگ اڑانے جاتے لیکن اس میں ہمیں بہت محتاط ہونا پڑتا تھا کہ ہمارے قدموں کی آواز سے ان کی یا ساتھ والے گھروں میں کسی اور کے والد کی انکھ نہ کھل جائے کیونکہ نتیجہ برابر ہوتا تھا وہ بھی سب کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی ڈانٹا کرتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ ننگے پاوں پتنگ اڑائی جائے جو کہ دوپہر میں گرم چھت پر ازیت ناک کام تھا بہرحال جنوں اور شوق کچھ نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی کبھی ابا جی کی انکھ کھل جاتی یا وہ پانی پینے کے لیے اٹھتے اور ہمیں بستر پر نہ پا کر چھت پہ دیکھ لیتے اور ڈنڈوں سے ہماری پٹآئی کرتے ، توبہ کرنے کے بعد اور کل سے پتنگ نہ آڑانے کا اب جی کے سامنے عہد کرنے بعد اگلے دن بھی ہماری یہی ترتیب ہوتی۔ ابا جی نے ہماری ڈور اور پتنگ بھی ضبط کیں اور دن کے پیسے بھی بند کیے کئی بار لیکن ہم بہت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔
پہلے پہل تو پتنگ لیتے رہے لیکن پھر احساس ہوا کہ پتنگ کافی مہنگی ہیں اور اس طرح زیادہ دن ہماری جیب برداشت نہیں کر پاِئے گی، تو ہمیں کاکا اور فاجہ برادران کے بارے میں پتا چلا ، یہ دونوں بھآئی کٹی ہوئہی پتنگ لوٹنے کے ماہر تھے ان کے پاس دو بڑے بڑے بانس تھے جن کے سروں پر بارہ سنگے کے سینگوں جیسے جھآڑی لگی تھی ان کے اس ہتھیار کو ہم "اڑانگڑا"  کہتے تھے  یہ کٹی ہوئی پتنگ کو ہوا ہی میں اپنے اڑانگرے پر لپیٹ لیتے تھے ، ہر کٹی ہوئی پتنگ کے پہچھے ایک فوج ہوتی تھی  جو اس کو لوٹنے کے لیے بھآگ رہی ہوتی تھی بحرحال کاکا اور فاجہ کا ایک ہی اصول تھآ یا تو لوٹ لو یا بھآڑ ڈالو پتنگ کو ۔۔ ان سے ہمیں انتہائی سستے داموں پتنگیں ملنا شروع ہو گئیں
اب رہا مسٰلہ ڈور کا تو اس کے لیے ہم نے مانی سے رابطہ کیا مانی کا کام لوگوں کی پتنگوں پر کاٹی دالنا ، کآٹی ڈالنا یہ ہوتا تھا کہ وہ ڈور کے اگےپتھر باندھ کر چھت پر جاتا اور جس کی پتنگ نیچی اڑ رہی ہوتی وہ پتھر اس کی ڈور پر پھینک کر پتنگ سمیت کھینچ لیتا اور ساتھ میں اچھی خآصی ڈور بھی کینچ لیتا اور جس کی پتنگ کٹ جاتی اور اس کی باْْقی ڈور نیچے کی طرف آتی تو مانی وہ دوسرے سرے سے پکڑ کرکھینچ لیتا ہوں اکژ اوقات کئی کئی میٹر ڈور آ جاتی اس کے پاس، ہم اس سے اچھی والی ڈور لے کر اپنی دور کے اگے باندھ لیتے اور یوں اگرچہ ہماری ڈور رنگ برنگی ہو جاتی لیکن بہت کارامد ہو جاتی اور اس کی مدد سے جب ہم نے لوگوں کی پتنگیں کاٹنا شروع کیں تو لوگوں نے چھوٹی عمر میں ہی ہمیں پائے کا پتنگ باز گرداننا شروع کر دیا
جب ابا جی گھر پر نہ ہوتے تھے وہ دن ہمارے لیے جشن کا دن ہوتا تھآ خاص طور پر جب ابا جی کچھ دن کے لیے گاوں جاتے تھے ہر مہینے ، ہم باآواز بلند پتنگ اڑایا کرتے تھے جیسے ہی کسی سے پیچ ڈلتا ہر طرف سے ہدایات انا شروع ہو جاتیں کوئی کہتا ، "ڈھیل چھوڑ" ، کہیں سے آواز آتی "او پھیری دی" اور کوئی کہتا "کھچھن کھچائی" کر دے ،عرض ایک کمینٹری شروع ہوتی، پیچ لڑانے والوں کے ارد گرد ایک جمگھٹہ بن جاتا۔ اور جیسے ہی کسی کی پتنگ کٹتی ، پتنگ کاٹنے والی پارٹی آسمان سر پر آٹھا لیتی طرح طرح کے فقرے سننے کو ملتے "اووووووووووو گِئسسسسسس" ، "نال ہی لائیسسسسسس" ، "تند کر دیتیسسسس" ، "او تچ ہی کیتیسسسسسس"، ا"اوووو ڈور ہی لائیسسسسسس" ، "اوووو کٹ کے رکھ دیتسسسس،
کچھ لوگوں نے تو باجے رکھے ہوئے تھے جیسے ہی پتنگ کاٹتے باجا بجاتے،
اور پھر جب رات کو کھآنا کھآنے کے بعد ابا جی رات کو اپنے پاس بلاتے اور انگلیاں دیکھآ کرتے تھے کہ ڈور کے کٹ لگے یا نہیں اور میں اپنے ڈور کے کٹ چھپانے کے لیے ان پر گوند لگا کیا کرتا تھآ اور جب دیکھتے تو مسکرا کر کہتے کہ لگتا ہے کہ اج پتنگ نہیں اڑائی اور میں ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ میرا گوند لگانے والا ہربہ کامیاب جا رہا ہے۔۔کتنا نا سمجھ تھآ میں۔۔۔۔۔۔۔