December 19, 2010

زہنی استعداد و انسانی نفسیات

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو  سکتا کہ انسان کا دماغ اس کے جسم میں مرکزی   حیثیت رکھتا ہے ، اور انسان کے ہر عمل میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ  انسان کا دماغ بھی محظ ایک عضو ہے باقی اعضاء کی طرح اور باقی اعضاء کو برابری حیثیت حاصل ہے،

October 21, 2010

نجیب الطرفین

اچھے بھلے  انسان ہوا کرتے تھے مسلمان ہوا کرتے تھے۔ چلے آئے برصغیر کی طرف تو لوگوں نے ہاتھ چومنا شروع کر دیے اول اوائل والے تو گزار گئے ریاضت وعبادت میں۔بعد والے پھر ہم سٹھیا گئے ۔ خّود کو اونچا سمجھنے لگے  اور دوسروں کو کمتر۔۔گویا باقی سب کمی کمین ہوں۔

September 8, 2010

قومی شعور


زرداری کھپے ، پاکستان کھپے، پی پی پی ائے گی روٹی کپڑا مکان لائے گی ۔زندہ ہے بی بی زندہ بلکہ ابھی تو بھٹو بھی زندہ   ۔تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شیر آ گیا شیر چھا گیا,قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمھآرے ساتھ ہیں۔

August 23, 2010

فیضآنُ شاہ

لو جی میرا دوست جس کو میں نے انٹرویو کی تیاری کروائی تھی  فیضان
شاہ کے توسط وہ فیل ہو گیا ہے  میں نے آج تک جتنے لوگوں کو پڑھایا ہے،ان میں سے کوئی ایک بھی مائی کا لال یا مائی کی لالی ایسی نہیں کہ پاس ہوئے ہوں میرا نتیجہ ۱۰۰ فیصد رہا ہے اس معاملے میں,

August 19, 2010

کبھی دیر نہیں ہوتی

خلاف معمول ہم چار دوست  سنجیدہ تھے اور سنجیدگی میں پریشانی کا عنصر بھی نمایاں تھآ ، ہماری نشست پشاور کے مشہور ہوٹل خیبر چرسی تکہ پہ تھی جو کہ عین اسلامیہ کالج پشاور کی مخالف سمت میں ہے کھآنے کے انتظآر میں تھے عام حالات میں تو ہماری محفل قہقوں سے بھرپور ہوتی لیکن یہ مستقبل کے اندیشے تھے جو ہم پہ اس لمحہ غالب تھَےہم اسلامیہ کالج سے اپنی انٹرمیڈیت کی ٹرانسکرپٹ لینے آئے تھَے ، ،اسلامیہ کالج سابقہ سرحداور موجودہ خیبر پختونخواہ کی سب سے بڑی اور مشہور درسگاہ ہے ، یہ درسگاہ مختلف حوالوں سے بہت ممتاز حیثیت رکھتی ہے، چاہے اس کی وجہ اس کی دلکش عمارت ہو، خیبر پختون خواہ کی قدیم ترین درسگاہ ہو، یا اس کا اونچا میرٹ ، یا وہ سو روپے کا نوٹ جس پہ اس کی تصویر ہے یا قائداعظم کا اس سے تعلق کہ وہ اپنی وراثت کا ایک حصہ اس درسگاہ کو دے کر آئے تھے اس کے سبھی حوالے اس کی عظمت کا باعث تھے اور پھر اسی جداگانہ پن اور احساس فخر سے اس کے طلباء بھی سرشار رہتے تھے۔ یہ درسگاہ طلباء کو خواب دکھانا جانتی اور پھر ان کو اپنے خوابوں کے پیچھے دیوانہ وار بھگانا بھی۔اور شاید یہ اسی درسگاہ کی پرواز تھی کہ جس نے ہمارے پر جلا دیےتھےشاید کہیں اور ہوتے تو ہمیں اپنے نمبر بہت بہتر لگتے لیکن اپنے اونچے خوابوں کے سامنے ہمیں اپنےنمبر کہیں کم دکھآئی دیے ، سو ہمارے چہرے مایوس تھے اور ہم مستقبل کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے ہمارے برابر میں کچھ لوگ بیٹھَے تھَے ، ہمارے بلکل قریب ہونے کی وجہ سے ہماری باتیں سن رہے تھے ان میں سے ایک ہم سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں ، ہم سننا تو نہیں چاہتے تھے پر وہ اتنے پیار سے بولے کہ چاہتے ہوئے بھی اور عمر کا لحاظ کرتے ہوئے ہم ان کی بات سننے لگے اگے ان کی بات انہی کی زبانی سنیئے
   میں نے میٹرک دوسری ڈویژن میں کیا ، ایف اے میں تین سال لگائے،اور تین ہی سال میں بی-اے بھی تیسری  ڈویژن میں عام سے مظآمیں ہی  کر پایا، گھر والوں کو مجھ سے کچھ خآص امید نہ تھی سو انہوں نے مستقبل کے متعلق پوچھنا ہی نہیں کہ کیا کرنا چاہتے ہو، پہلے تو گھر پڑا رہا لیکن کچھ دن کے بعد اکتاہٹ ہونے لگی تو ایک دوست سے بات ہوئی اس کے نتیجے میں نے گھر آ کر بتایا کہ میں سی-اے کرنا چاہتا ہوں،پہلے تو بہت ہنسے اور یہی سمجھے کہ میں مزاق کر رہا ہوں لیکن جب میں نے ان کو یقین دلایا کہ میں سنجیدہ ہوں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے لگے، کہنے لگے اب آخری عمر میں سی-اے کرو گے ، عرض والد سے لیکر بھائی بہن سبھی نے مجھے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ، جب گھر سے مایوسی ہوئی تو محلے میں دوستوں کو بتایا وہ بھی مزاق اڑانے لگے حتی کہ محلے کہ بزرگ آ آ کر مجھے سمجھانے لگے  ہر کوئی وقت اور عمر کے تعنے دیتا ،حد تو یہ ہو گئی کہ محلے کا ایک نشئی جس کوا پنا ہوش نہ تھا اور ہر وقت ایک درخت کے نیچے مدہوش پڑا رہتا تھآ وہ بھی مجھے سمجھآنے لگا نہ معلوم یہ کسی دوست کی شرارت تھی یہ اس کی ہمدردی۔۔۔ بحرہال مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں کوئی غلط کام کر بیٹھا ہوں سو اپنی تئین شرمندہ ہونے لگا اور معافی مانگنے کا سوچنے لگا لیکن تب احساس ہوا کہ میں چوری ڈکیٹی یا قتل تو نہیں کرنے جا رہا پھر اتنی مخالفت کیوں تو بس ٹھآن لی کہ اب کر کے دکھآنا ہے جب سی-اے میں داخلہ لیا تو نہ ٹھیک سے معمولی حساب کتاب آتا تھا اور نہ ہی انگریزی پڑھ سکتا تھآ کیونکہ بی-اے تو بوٹی کے زریعے کیا تھآ، لیکن آج میں ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہوں۔
  اس کے بعد وہ بولے کہ انسان کو کبھی دیر نہیں ہوتی وہ کبھی لیٹ نہیں ہوتا جس دن اور جس وقت وہ کسی کام کو کرنے کا اٹل ارادہ کر لیتا ہے وہی وقت اس کام کو کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔اور  وقت کے ساتھ بھاگتے بھاگتے اکثر لوگ لڑکھرا جاتے ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو دوبارہ سے نئے حوصلے سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہیں ۔ورنہ تو لوگ اپنے ضائع شدہ وقت کے احساس زیاں میں اپنی پوری عمریں بےکار گزار دیتے ہیںہم اکثر صرف یہ کہہ کر کہ اب بہت دیر ہو گئی اور اب کچھ نہیں ہو سکتا کہہ کر زندگی میں بہت کچھ کھودیتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح میری اس تمہید کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے میرا دوست۔۔ ابھی دوبئی سے واپس آیا ہے ۔واپس آنے کی وجہ ، نوکری میں مسائل اور کچھ جدباتی غلطیاں  ہیں وہاں تین سال اس نے بینک میں سیلز کی نوکری کی اور یہاں سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری لیکر گیا تھآ  سو ادھا تیتر ، آدھا بٹیر بن کے لوٹآ ہے۔ اس سے جب بات ہوئی تو اس کو جب کہا کہ وہ واپس کمپیوٹر سائنس میں آئے تو اس نے بھی یہی بات کہی کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے تو یہ کہانی زہن میں گھوم گئی،پہلے اس کو پاکستان میں رہنے پر اور پھر واپس کمپیوٹڑ سائنس میں آنے پر آمادہ کیا ، ابھی اس کا ایک اچھی  جگہ انٹرویو کروایا ہے اور خّود تیاری بھی کروائی ہے، کل اسکا انٹڑویو ہے وہاں مجھے معلوم ہے کہ یہ اس کے لیے نہایت ایم ہے لیکن یہ میرے لیے بھی بہت اہم ہے کہ میں کم سے کم ایک ایسی مثآل دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو باہر سے آکر واپس اپنے ملک میں ابتدائی سالوں میں ہی سیٹل ہوا ہو کیونکہ یہاں تو ہر کوئی یہاں سے بھآگ جانے کا ہی مشورہ دیتا ہے۔۔اور میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں بھآگ جانا اور چھوڑ کر چلے جانا کہاں کا اپشن ہے ، لڑنے کے لیے یہی جگہ ہے کہ یہاں حالات نامسائب ہیں اور بھآگ جانے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے۔۔لو جی میں پھر جزباتی ہو گیا اور میرے بھآشن شروع ہونے والے اور میرے دوست ویسے بھی کہتے ہیں کہ میرے پاس ہر وقت کے لیے ایک کہانی اور ایک مثال تیار یوتی ہے اس لیے پہلے ہی بھآگ رہا۔۔ بہرحال میرے دوست کے لیے دعا کیجنَے گا۔۔

August 12, 2010

میں میں


روایات میں ملتا ہے کہ اللہ نے جتنے بھی نبی اور پیغمبر بھیجے ان میں سے اکثر نے نبوت سے پہلے یا نبوت کے ابتدائی دور میں بکریاں چرائیں ، علماء اس کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں کہ بکری وہ واحد پالتو جانور ہے جس کو سدھآرنا اور راہ پہ لانا بہت مشکل ہےگویا اس پیشے سے مْقصود ان کی تربیت کرنا تھی کہ وہ جب انسانوں کو ہدایت کا پیغام دیں تو برداشت اور صبر کا مادہ موجود ہو۔

بکری ایک خودسر جانور ہے، ہمیشہ ضد کرتی ہے، جس طرف اسکو ہانکا جائے اس کی الٹ سمت میں چلتی ہے کبھی بات نہیں مانتی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بکری کی "میں" ہوتی ہے، اس کو مارا جائے یا ڈانٹآ جائے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور جتنا غصہ کیا جائے اس کی "میں میں" لمبی ہی ہوتی جاتی ہے ۔بکری ہمیشہ "میں" کرتی ہے کہ گویا "میں" ہی سب کچھ اور دوسرا کوئی کچھ بھی نہیں اور جو "میں" کر رہی وہی ٹھیک اور باقی جو کوئی مجھ سے کروانا چاہ رہا وہ غلط۔۔ اسی "میں" کی وجہ سے بکری میں آنا ہوتی ہے کہ اس کو جس طرف ہانکو اس کے الٹ طرف چلتی ہے۔۔

 اس کی دوسری وجہ بکری کے کان ہوتے ہیں بکری کے کان لمبے اور اور بے جان ہوتے ہیں اور وہ واپس گر کر بکری کے کان کوڈھآنپ لیتے ہیں اور کان کے اس حصے کے بلکل اوپر آ جاتے ہیں جس سے سنا جاتا ہے تو اس سے بکری کو کوئی آواز نہیں جاتی اور وہ کسی کی نہیں سنتی ۔ سو آپ اسکو سمجھآئیں یا اس پہ غصہ کریں ، برس پڑیں اس پہ کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ کچھ سنتی ہی نہیں اور جب بھی آپ کا منہ ہلتا ہوا دیکھتی ہے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور آپ کا منہ جتنی شدت سے ہلتا ہے اس کی "میں میں" اتنی ہی لمبی ہوتی جاتی ہے

انسان اور بکری میں فرق بھی فقظ اس" میں" کا ہے اور جب انسان انسانیت بھول کر "میں" پر اتر آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ، وہ سمجھ رہا وہی ٹھیک ہے اور جو دوسرا کہہ رہا اس کی کوئی اہمیت نہیں ،ایسا انسان اپنا کان تو لمبا نہیں کر سکتا بکری کی طرح لیکن شاید اپنا دماغ نکان کر کان میں ضرور ٹھونس دیتا ہے کہ اس کو کسی کی آواز ہی نہیں اتی آپ اس کو لاکھ دلیلیں دیں ، حقائق اس کے سامنے لائیں، وہ اپکی بات نہیں سنے گا بلکہ اپنی ہی کہتا رہے گا اور بضد رہے گا کہ کوا سفید ہے۔ وہ اپنی آنا کے قدموں میں سر رکھ کر سویا رہتا ہے کہ کسی کی مان لینا اس کی ہار ہوتی ہے اور اگر اپ کسی طور اپنی بات اس کے کان میں ڈال بھی دیں گے تو وہ "میں میں" ہی کرتا رہے گا اور اپ جتنے زیادہ دلائل دیں گے اس کی میں مہہہہہہ لمبی ہی ہوتی جائے گی۔

سو ایک چھوٹا سا مشورہ ہے کہ بھلے سے آپ کے پاس ہزاروں معتبر اور جامع دلیلیں ہوں لیکن پہلے دیکھ لیں کہ  جس سے کہنے جا رہے وہ کہیں "میں میں" تو نہیں۔

اور اس "میں" میں خالق ملتا ہے نہ مخلوق کہ خالق کی بندگی شروع ہی "میں" کی نفی سے ہوتی ہے اور اسی "میں" کی ہٹ دھرمی میں ہم دوسروں کے احساسات اور جزبات کو کچل دیتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ متاثر ہوتے ہیں جو ہم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔اور ہماری "میں" انہیں ہم سے بہت دور کر دیتی ہے



August 4, 2010

گنجے سر سے نجات


آجکل گنجے پن سے نجات کے نام پر لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، لوگ بال اگانے کے تو کیا بال اٹھانے پہ بھی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ، ابھی کل ہی کی بات ہے ، حجام نے نوازو اور شہبازو کی ٹنڈ کرنے کے ۲۰ ہزار لے لیے ، حالانکہ اس میں حجام کا استرا تک استعمال نہیں ہوا ، جو ۲ - ۴ بال تھے وہ اس نے ہاتھھ سے کھینچ کر نکال دیے تھے ، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمارے ڈاکٹر گاما نائی لوگوں کی فلاح کے لیے بہت سستا اور ۱۰۰ فیصد یقینی طریقہ علاج دریافت کر لیا ہے ،جس کی بدولت دنیا میں کوئی گنجا نہیں رہے گا نوازو بھی نہیں۔۔۔
آتے ہیں  اجزاء کی طرف،تین چیزیں اپ کو چاہیے 
،۱۔ پہلے تونشیلی انکھّوں والی  بھینس ، اگر نشیلی نہیں تو بھینگی بھی چلے گی ، اس کو ۴ دن بھوکا رکھیں ، پانی تک نہ پینے دیں ، گاس پھوس ہر طرح کی چیز اس سے دور رکھیں تاکہ کسی قسم کی بھی غزا اس تک نہ پہنچے ،
    ۲۔۔۔۔اک نائی کے پاس جائیں اور استرے سے اپنا سر بلکل صاف کروائیں ۔۔ یہ مشق تین چار بار دوہرائیں تاکہ سر اتنا صآف ہو جائے کا خربوزہ اس کو دیکھ کر رنگ پکڑنے لگ جائے اور اگر خربوزہ رنگ نہ پکڑے تو کم سے کم آپ کا سر خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لے۔ اور ٹنڈ اتنی صاف شفاف ہو کہ دوسرا اپ کے سر میں دیکھ کر اپنے بال سنوار سکے۔ٹنڈ کی جلد اتنی ملائم ہونی چاہیے کہ جو ایک بار ہاتھ پھیرے مدہوش ہو جائے۔
۳۔ تین پیکٹ  نمک لے لیں ، ایوڈین ملا نمک ہو تو بہتر ہے اگر وہ نہیںتو نمک میں تھوڑی سی ریت ملا لیں۔ تاکہ آیوڈین کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
اب آتے ہیں طریقہ علاج کی طرف۔
جی پہلے اپنی ٹنڈ اچھی طرح دھو لیں پھر اس پر تھوڑا تیل لگائیں ، تیل لگانے کے بعد نمک کے پیسٹ بنا کر اپنے سر پر اس طرح سے مل لیں کہ سر مکمل طور پر ڈھک جائے ، اپنے منہ اور باقی جسم پر گوبر مل لیں تاکہ بھینس آپ سے انسیت محسوس کرے۔ اب آپ بھینس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں ، بھینس کو اس وقت کھّول جائے گا۔وہ نشہ میں مدہوش آپ کی طرف بھاگے گی ، جیسے انڈیا کی فلموں میں ہیروِن ہیرو کی طرف بھاگتی ہے ، یہاں پشتو فلموں کی ہیروین کی مثال دینا زیادہ مناسب ہوتا لیکن کیونکہ میرا اپنا تعلق بھی "خیبر پختون خواۃ مخواہ" سے ہے اس یے احتیاطی تدابیر کی وجہ سے مماثلت انڈیا کی ہیروین سے دی گئی ہے۔ خیر بھینس کیٹ واک کرتی ہوئی اپ تک پہنچے گی اور آپ کے سر کو چاٹنا شروٰع کرے گی یہاں یہ یاد رکھآ جائے کہ سر پر نمک لگانے کا مقصد سر پہ فصل لگانا نہیں بلکہ بھینس کو کھینچنا ہے اور اگر آپ سر پر زیادہ لہلہاتی فصل کی امید میں سر پر کھآد لگا بیٹھے ہیں تو اس کے کھآنے سے بھینس مشتعل ہو سکتی اور  شدید قسم کے سائیڈ افیکٹس بھی ہو سکتے ہیں۔
اس سارے عمل کی سائینس اور آرٹس یہ کہ بھینس کی زبان کی ساخت  کھردری اور دانے دار اور اس کی رال میں  کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں،  اور جہاں بھی بھینس اپنی زبان رکھتی ہے تو وہ پیوست ہو جاتی ہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے پولیس والوں کا لتر اپ کے چمڑے پر پیوست ہوتا ہے اور   بھینس جب جگالی کرتے اور اپنے اندر سے سب کچھ ری-سائیکل کر کے اپ کے سر پر ملے گی اور پیار میں آ کر آپ کو چومے گی تو ۔۔۔ خیر بھینس کی زبان آپ کے سرکے جس جس حصے پر پڑے گی وہاں سے بالوں کو کھینچ کر باہر کر دے گی اور ان مساموں کو کھول دے گی جن کی بندش کی وجہ سے اپ کے بال نہیں اگ رہے۔
  تین سے چار بار کی مشق کے بعد اپ کے سر پر بال اگ آئیں گے ، ہاں اگر اپ  سرخ شرٹ پہن کر گئے  یا آپ  کی بھینس کے ساتھ زہنی ہم اہنگی نہیں ہو سکی تو شاید اپ کا سر ہی نہ باقی رہے لیکن   دونوں صورتوں میں اپ کو گنجے سر سے نجات مل جائے گی۔
یعنی سو فیصد یقینی کامیابی

گزشتہ سے پیوستہ

اپنے کالج میں چھپنے والے سالانہ شمارے میں ایک نظم چھپوائی تھی کل اس شمارے پہ نظر پڑی تو یہ بھی نظر آ گئی۔ دسویں کے امتحانات کے بعد فیض کو پڑھنا شروع کیا تھآ اور اس کے بعد فیض کے بڑے متاثرین میں شامل ہو گیا
اس کے عنوان اور مضمون سے یہی لگتا ہے کہ یہ فیض کی نظم "رقیب سے" پڑھنے کے بعد کوئی دورہ پڑا تھآ مجھے تو لکھی تھی غالبآ گیارویں جماعت میں لکھی تھی۔ اس میں فیض کے مختلف اشعار کے ٹوٹے ملائے گئے ہوں جیسے
آج پڑھ کر بے اختیار بہت دیر ہنستا رہا۔۔
"برائے مہربانی اس کو شاعری نہ سمجھا جائے"

عنوان:- "بنام فیض" ۔

واپسی کا سفر مشکل ہے

کٹھن ہے اپنے پاوں کے نشان پر چلنا

یاد آتے ہیںسفر ماضی کے عزاب

ملتے ہیں قدم قدم پہ مانوس چہرے

ہر زبان پہ ملتے ہیں سوال کئی

لیے ہوئے ہر سوال کئی تلخ حقیقتیں

ٹھوکر لگتی ہے پھر انہی پتھروں سے

جن کو کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

ملتا ہی پھر اسی کا نشاں

جس خون کو کبھی بہا کر گزرے تھے

آگے بڑھتے ہوئے چہروں پہ پھر وہی شرارت

جیسے ہم بھِی کبھی کسی پہ مسکرا کر گزرے تھے

اب چن رہے انہی خوابوں کی کرچیاں

جن کو غرور فتح یمیں کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

مگر احساس خوشبو ہے اب بھی پاس میرے

تیری حسین یاد ہے اب بھی ساتھ میرے

مگر یادوں کے سہارے گزاری نہیں جا سکتی

زندگی یاد جاناں سے سنواری نہیں جا سکتی

گو کہ ماضی کے حسین لمحے مرہم بنتے ہیں

مگر بےحال ، حال پہ ہنستے بھی تو ہیں

گو کہ اب بھی تیری یاد کو ترستی ہیں

انکھیںاب بھی تیرے لیے برستی ہیں

مگر یہ بھی سچ نہیں کہ تو ہی سبب غم ہے

تیرا زخم تازہ ہے مگر کم ہے

تیرے سوا بھی دیکھیں ہیں کئی قیامتیں

تیرے سوا بھی لگی ہیں کئی تہمتیں

تیرے ہجر سے بھی تلخ ہیں ستم افلاس کے

تیری انکھّوں سے بھی روشن ہیں غم روزگار کے



نوٹ:- اس شمارے میں ایک مضمون بھی آیا تھا میرا جس میں جاوید چویدری کا اثر نظڑ ا رہا ہے

اس وقت زیرو پوائینٹ ۳ تک آ گئی تھیں کتابیں یہ بھی ۲۰۰۲ کی بات ہے۔۔

وہ بھی لکھنا چاہوں گا جلد از جلد ۔۔

July 16, 2010

گاربیج ٹرک

گاربیج ٹرک  کا کام گندگی جمع کرنا ہوتا ہے اسے جہاں سے جتنی گندگی ملے اور اٹھا لیتا ہے , گاربیج ٹرک صبح سویرے اٹھتا ہے ، گلی  گلی محلے محلے گھومتا ہے وہاں موجود کوڑا کرکٹ کی ڈگیوں سے گند اٹھاتا ہے ،  اپنے اوپر لادتا ہے اور اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے ، اور شام تک جب وہ اپنی مخصوص کردہ آخری جگہ سے گندگی اٹھاتا ہے تو اس کے سر پر  ایک گندگی کا پہاڑ جتنا بوجھ جمع ہو چکا ہوتا ہے۔۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی یہی حالت ہے ، کہ پورا دن جہاں سے جس کے قریب سے گزرتے ہیں اس کی گندگی اٹھا کر اپنے سر لاد لیتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں تو کسی ٹیکسی یا وین والے سے منہ ماری کر لی اور پہلی ڈگی سے گندگی کا ڈھیر اٹھا لیا ۔ دفتر گئے تو باس نے میٹنگ کے لیے بلا لیا ، گھنٹہ بھر باس کےقصے ، کہانیا ں ، کارنامے اور افسانے سننے کے بعد ، باس کی کچھ گٹیا باتوں کو ذہن میں بٹھا لیا اور مزید گندگی سر پر لاد لی ۔ اور پھر پورا دن یہی سلسلہ چل پڑا ، کبھی یہاں  سے گندگی اٹھا رہے تو کبھی وہاں سے۔۔  بازار ہو یا بل جمع کروانا ہو ، کسی کا کام کرنا ہو یا کسی سے کام کروانا ہر کام میں ٹینشن کی گندگی اپنے سر سوار کر لی ، ، شام تک سر پر دن بھر کی ٹینشن کا پہاڑ لاد لیا۔ 
 ۔                اور  جس طرح گاربیج ٹرک جو بھی گندگی اٹھاتا ہے وہ اس کی اپنی نہیں ہوتی اسی طرح  یہ لوگ دوسروں کی ٹینشن کو اپنے سر پر سوار کر لیتے ہیں ، لیکن گاربیج ٹرک اور انسان میں ایک فرق ہوتا ہے ، گاربیج ٹرک شام کو ساری گندگی بلدیہ کی مخصوص کردہ جگہ پر پھیینک کر آ جاتا ہے ، لیکن لوگ یہ گندگی اپنے گھروں کو لے کر آ جاتے ہیں ، اور  گھر آ کر یہی گندگی غصے چڑچڑے پن اور عدم برداشت کی صورت میں اپنے گھر کے افراد پر گراتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ  تو اسی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کے مریض تک بن جاتے ہیں ۔ زرا سی بات پر بلڈ پریشر ہائی  ہو جاتا ، ظاہر پورے شہر کی گندگی سر پر سوار کریں گے تو بلڈ پریشر نے اوپر ہی جانا ہے۔
اس لیے چھوٹا سا مشورہ ہے کہ بندے بنیں گاربیج ٹرک نہیں ۔۔


July 4, 2010

او کاٹا۔۔۔۔

جیسے ہی گرمی کا موسم آتا ہے ، اک زرا بھی دھوپ میں جاٰوں تو آنکھون میں سرخی آ جاتی ہے ، گھر والے ، دوست احباب سبھی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ہداہت کرتے ہیں ، میں دوا استعمال بھی کرتا ہوں جب سرخی بہت زیادہ ہو جائے لیکن عام طور پر اس کو الرجی کا نام دے کر ٹال دیتا ہوں کہ یہ ہر گرمیوں میں آنی ہی  ہو تی  ہے ۔لیکن در حقیقت مجھے اس انکھوں  کی سرخی سے پیار ہے ، اس میں مجھے اپنے بچپن اور اپنا شوق نظر آتا ہے ، یہ وہ تحفہ جو مجھے پاکستان کی جون جولائی کی کڑکتی دوپہر کی جلسا دینے والی دھوپ میں سورج کی انکھون میں انکھین ڈال کر گھنٹوں پتنگ اڑانے کی بدولت ملا ہے ، اور ایسا قیمتی تحفہ کون  ضائع کرنا چائے گا ، اور اب بھی کبھی انگلی کٹ جائے تو مجھے درد کی وہ لزت  کا احساس  ہوتا ہے جو  پتنگ کی ڈور  سے انگلی  کٹ جانے سے ملا کرتا تھا
     میرا بچپن  ایک سرکاری رہائشی کالونی میں گزرا یہ گھر والد صاجب کو انکی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا ، یہاں ہر محلے میں ۳۰ کے قریب گھر  تھے آمنے سامنے اور ہر گھر کے دو داخلی دروازے   تھے ، ایک گلی کی طرف اور دوسرا  سڑک کی طرف کھلتا تھا  آمنے سامنے والے گھر کی گلی کے  دروازے آمنے سامنے ہی کھلتے تھے  اور باقی دو اطراف میں دیوار کھڑی کر دی گئی تھی ، کیونکہ گلی کی طرف سے صرف  عورتیں آتی جاتی تھیں اور شام کو عورتیں اور بچے  ویاں بیٹھ کر دن بھر کی باتیں کیا کرتے تھےاور مرڈ حضرات کسی پلاٹ میںاکھٹے ہو   کر خوش گھپیاں ے تھے ، ہنسی  خوشی اور بہت پیار کا ماحول تھا ایک گھر کی خوشی پورے  سے    پورے محلے میںجشن اور ایک گھر میں غم سے پورا محلہ سوگوار ہو جاتا ،  جو وہ گلی چھوڑنے کے بعد کہیں دیکھنے کو نہیں ملا باقی سب محلے بھی اسی طرز پر بنے ہوئے تھے اور قریب قریب ہی تھے  اور بین محلہ ہم اہنگی بھی دیدنی تھی۔ اور سارے گھر سنگل سٹوری تھے اور ایک طرف والی چھتیں اپس میں بلکل ملی ہوئی تھیں گویا ایک گھر کی چھت ہو اور یہ ہی ہماری پتنگ بازی کا میدان جنگ بھی تھا۔۔۔
جیسے ہی ہوش سنبھآلا جس پتنگ باز کا نام سنا وہ " لیفٹی بھآئی " تھآ  جو ہمارے محلے کے پچھلے محلے میں رہتے تھے ، لاہور کے ہونے کی وجہ سے انھوں نے کالونی میں پتنگ بازی کے نت نئے انداز اپنائے جو ان کی عالم  گیر شھرت کا باعث بنے ، جیسے توکل اڑانا ، چھک مار کے پتنگ کاٹنا ، نئی نئی ڈور متعارف کروانا۔ اسی وجہ سے وہ ہمارے آئیڈیل بن گئے۔
لیکن جیسے ہی پتنگ بازی کی خواہش کا اظہار کیا ابا جی نے  پابندی لگا دی  سو ابا جی سے چھپ چھپ کر پتنگ بازی کا آغاز کیا ، اس کام میں میرا پارٹنر میرا دوست اکبر جو میرے گھر کےسامنے رہتا تھا جس کو ہم گگو کہہ کر بلاتے تھے بنا وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھآ بنا، پہلا مرحلہ دھاگہ سے ڈور سوتنا تھی اس کے لیے ہم نے بکر سے رابطہ کیا بکر کا پورا نام ابوبکر تھآ لیکن وہ بکر کے نام سے جانا جاتا تھآ ، وہ ایک فری لانسر قسم کا پتنگ باز تھآ جس نے اپنی زندگی پتنگ بازی اور پتنگ بازوں کے لیے وْفف کی تھی اور وہ بلامعاضہ لوگوں کو ڈور سوت کر دیتا تھآ، سو پہلے ہم نے جیب اور خرچ اور سبزی لانے والے پیسوں میں سے پیسے بچا کر کچھ رقم جمع کی پھربکر کے پاس گئے ، لیکن رقم اتنی تھی جس سے بمشکل دھاگہ آ سکتا تھآ،لیکن بکر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے ایک دن دو اور لوگوں کی ڈور سوتنا تھی اس دن بلا لیا ، ان کی ڈور سوتنے کے بعد جو محلول بچا اس کو ملا کر اور جو کمی تھی وہ پانی کے زریعے پوری کر کے ہمیں ڈور سوت دی
ہمیں ڈور مل گئی ہم بکر بھائی بکر بھائی کہتے نہ تھکتے تھےڈور آے کے بعد ڈور کو ابا جی سے بچانا تھا اس کے لیے سٹّور جہاں ابا جی کا جانا بہت کم ہوتا تھا وہاں امی جی کی ملی بھگت سے ہم نے ایک خفیہ جگہ بنائی اور وہاں اپنی پتنگ اور ڈور رکھنے لگے۔
اب پتنگ اڑانے کا یہ طے ہوا کہ جیسے ہی ابا جی دفتر سے واپس آ کر کھانا کھآ کر   سو جائیں گے ہم چپکے سے چھت پر جا کر پتنگ اڑائیں گے انا جی دوپہر ۳ بجے سویا کرتے تھے سو ہر روز ہم چھت پر پتنگ اڑانے جاتے لیکن اس میں ہمیں بہت محتاط ہونا پڑتا تھا کہ ہمارے قدموں کی آواز سے ان کی یا ساتھ والے گھروں میں کسی اور کے والد کی انکھ نہ کھل جائے کیونکہ نتیجہ برابر ہوتا تھا وہ بھی سب کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی ڈانٹا کرتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ ننگے پاوں پتنگ اڑائی جائے جو کہ دوپہر میں گرم چھت پر ازیت ناک کام تھا بہرحال جنوں اور شوق کچھ نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی کبھی ابا جی کی انکھ کھل جاتی یا وہ پانی پینے کے لیے اٹھتے اور ہمیں بستر پر نہ پا کر چھت پہ دیکھ لیتے اور ڈنڈوں سے ہماری پٹآئی کرتے ، توبہ کرنے کے بعد اور کل سے پتنگ نہ آڑانے کا اب جی کے سامنے عہد کرنے بعد اگلے دن بھی ہماری یہی ترتیب ہوتی۔ ابا جی نے ہماری ڈور اور پتنگ بھی ضبط کیں اور دن کے پیسے بھی بند کیے کئی بار لیکن ہم بہت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔
پہلے پہل تو پتنگ لیتے رہے لیکن پھر احساس ہوا کہ پتنگ کافی مہنگی ہیں اور اس طرح زیادہ دن ہماری جیب برداشت نہیں کر پاِئے گی، تو ہمیں کاکا اور فاجہ برادران کے بارے میں پتا چلا ، یہ دونوں بھآئی کٹی ہوئہی پتنگ لوٹنے کے ماہر تھے ان کے پاس دو بڑے بڑے بانس تھے جن کے سروں پر بارہ سنگے کے سینگوں جیسے جھآڑی لگی تھی ان کے اس ہتھیار کو ہم "اڑانگڑا"  کہتے تھے  یہ کٹی ہوئی پتنگ کو ہوا ہی میں اپنے اڑانگرے پر لپیٹ لیتے تھے ، ہر کٹی ہوئی پتنگ کے پہچھے ایک فوج ہوتی تھی  جو اس کو لوٹنے کے لیے بھآگ رہی ہوتی تھی بحرحال کاکا اور فاجہ کا ایک ہی اصول تھآ یا تو لوٹ لو یا بھآڑ ڈالو پتنگ کو ۔۔ ان سے ہمیں انتہائی سستے داموں پتنگیں ملنا شروع ہو گئیں
اب رہا مسٰلہ ڈور کا تو اس کے لیے ہم نے مانی سے رابطہ کیا مانی کا کام لوگوں کی پتنگوں پر کاٹی دالنا ، کآٹی ڈالنا یہ ہوتا تھا کہ وہ ڈور کے اگےپتھر باندھ کر چھت پر جاتا اور جس کی پتنگ نیچی اڑ رہی ہوتی وہ پتھر اس کی ڈور پر پھینک کر پتنگ سمیت کھینچ لیتا اور ساتھ میں اچھی خآصی ڈور بھی کینچ لیتا اور جس کی پتنگ کٹ جاتی اور اس کی باْْقی ڈور نیچے کی طرف آتی تو مانی وہ دوسرے سرے سے پکڑ کرکھینچ لیتا ہوں اکژ اوقات کئی کئی میٹر ڈور آ جاتی اس کے پاس، ہم اس سے اچھی والی ڈور لے کر اپنی دور کے اگے باندھ لیتے اور یوں اگرچہ ہماری ڈور رنگ برنگی ہو جاتی لیکن بہت کارامد ہو جاتی اور اس کی مدد سے جب ہم نے لوگوں کی پتنگیں کاٹنا شروع کیں تو لوگوں نے چھوٹی عمر میں ہی ہمیں پائے کا پتنگ باز گرداننا شروع کر دیا
جب ابا جی گھر پر نہ ہوتے تھے وہ دن ہمارے لیے جشن کا دن ہوتا تھآ خاص طور پر جب ابا جی کچھ دن کے لیے گاوں جاتے تھے ہر مہینے ، ہم باآواز بلند پتنگ اڑایا کرتے تھے جیسے ہی کسی سے پیچ ڈلتا ہر طرف سے ہدایات انا شروع ہو جاتیں کوئی کہتا ، "ڈھیل چھوڑ" ، کہیں سے آواز آتی "او پھیری دی" اور کوئی کہتا "کھچھن کھچائی" کر دے ،عرض ایک کمینٹری شروع ہوتی، پیچ لڑانے والوں کے ارد گرد ایک جمگھٹہ بن جاتا۔ اور جیسے ہی کسی کی پتنگ کٹتی ، پتنگ کاٹنے والی پارٹی آسمان سر پر آٹھا لیتی طرح طرح کے فقرے سننے کو ملتے "اووووووووووو گِئسسسسسس" ، "نال ہی لائیسسسسسس" ، "تند کر دیتیسسسس" ، "او تچ ہی کیتیسسسسسس"، ا"اوووو ڈور ہی لائیسسسسسس" ، "اوووو کٹ کے رکھ دیتسسسس،
کچھ لوگوں نے تو باجے رکھے ہوئے تھے جیسے ہی پتنگ کاٹتے باجا بجاتے،
اور پھر جب رات کو کھآنا کھآنے کے بعد ابا جی رات کو اپنے پاس بلاتے اور انگلیاں دیکھآ کرتے تھے کہ ڈور کے کٹ لگے یا نہیں اور میں اپنے ڈور کے کٹ چھپانے کے لیے ان پر گوند لگا کیا کرتا تھآ اور جب دیکھتے تو مسکرا کر کہتے کہ لگتا ہے کہ اج پتنگ نہیں اڑائی اور میں ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ میرا گوند لگانے والا ہربہ کامیاب جا رہا ہے۔۔کتنا نا سمجھ تھآ میں۔۔۔۔۔۔۔

June 6, 2010

سفر نامہ - براستہ خانپور


دو نفل صلاتۃ توبہ پڑھ لیں ، اللہ سے گڑگڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، کسی سے  کوئی جھگڑا ہوا ہو تو صلح کر لیں ، جس کسی کا قرض آپ کے واجب ادا ہے اس کو واپس کر دیں ، اگر نہیں ہے تو قیمتی چیز اس کے حوالے کر کے حساب چکتا کر دیں ، قیمتی چیز تو آپ کے پاس ہونی نہیں ، تو معاگی مانگ لیں ، پائوں پڑ جائیں اس کے جب تک معافی نہ ملے چپکے رہیں  اس دنیا کی زلت دوسری دنیا کی زلت سے بہت بہتر ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ سفر آپ کا آخری سفر ہو گا
میں پچھلے دو سال سے یہ مشق یعنی "براستہ خانپور"  ہر ہفتے لگاتار کر رہاہوں ، یہ سفر ہری پور سے اسلام آباد تک بظاہر دو گھنٹے کا ہے، تقریبآ سو کلومیٹرکا فاصلہ ، لیکن سفر کی مشکل  کا دارومدار وقت پہ نہیں راستے پہ ہوتا ہے ، ورنہ ،تو پل صراط بھی چند لمحوں کا سفر ہی ہوتا ہے اور اس سفر کا عزاب براستہ خانپور والے ہی جان سکتے ہیں۔
اب آپ کو میں اس سفر کا  بضا بطہ آغآز کرواتا ہوں  ، 
پیرودہائی سٹیشن سے آپ ہری پورکا ٹکٹ لیں ،پھر آپ کو ویگن میں ٹھونساجائے گا ، جیسے مرغیوں کو ٹھونسا جاتا ہے ، بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مرغیوں کو ٹکٹ نہیں لینا پڑتا ، ہر سیٹ پر چار لوگ بٹھائے جاتے ہیں ، سیٹ پر بیٹھنے والوں کا حدود اربع محدود ہونا چاہیے ، قد پانچ فٹ چھھ انچ سے کم اور کمر پتلی یعنی موٹاپا بلکل نہیں ہونا چاہیے ، لیکن بدقسمتی سے ایسی مخلوق بلعموم پاکستاں اور بل خصوص ہری پور میں بلکل نہیں ملتی ، سو گاڑی کی سیٹوں پہ لمبے حضرات اپنا سر گھٹنوں سے ملا کر بیٹھیں ، تاکہ  سر چھت سے ٹکرانے سے محفوظ رہے ،اور وہ بلکل ویسے لگتے ہیں جیسے شترمرغ ریت میں سر رکھھ کر لگتا ہے ،موٹے حضرات  کو دو تین کنڈکٹروں کی مدد سے اس کی جگہ پر ٹھونسا جاتا ہے  دوسرے الفاظ میں دریاکو کوزے میں بند کیا جاتا ہے  جو لوگ موٹاپے سے تنگ ہیں تین چار بار یہ سفر کریں تو بیت افاقہ ہو گا کیونکہ دوران سفر گرمی ، ہچکولوں اور دبائو کہ وجہ سے اس کے جسم کی چربی ، تیل کی نہروں کی طرح بہہ رہی ہوتی ہے
 ہلیجئے گاڑی چلنے کو تیار ہے ، گاڑی سٹارٹ کیا ہوئی ہچکولے کھانے لگی ، سب   کلمہ پڑھنے لگے۔خانپور روڈ پر چلنے والی گاڑی کی حالت ایسی ہوتی ہے گویا گاڑی کو لقوہ ہو گیا ہو ، یعنی رات کو گاڑی چل تو سڑک پر رہی ہوتی ہے ، اور اس کی ہیڈ لائٹس برابر والے مکانوں میں لگ رہی ہوتی ہیں، ، سفر کے پہلے بیس منٹ تو راولپنڈی روڈ پہ ہی گزرے ، یہ وقت ضائع بہت قیمتی ہے ، اس میں  لمبی لمبی سانس لے لیں ، کیا معلوم دوبارہ موقع ملے نہ ملے ،جی یہاں سے آگے  دائیں ہاتھھ خانپور روڈ کی طرف گاڑی مڑی، سب سے پہلے یو -ای- ٹی ٹیکسلا کے مین گیٹ کے سامنے سے گزر ہوا یہاں تک سڑک کے آسار موجود تھے ، لیکن  اصل مرحلہ اس سے آگے شروع ہو گا ،اس کے بلکل  آگے کھنڈرات ٹیکسلا شروع ہونے تھے ، جب اس دوراہے پر پہنچے تو وہاں ایک بورڈ آویزاں تھا ، لیکن مست کا تعین نہیں کیا گیا تھا ، اور جو  سڑک کھنڈرات کی طرف جاتی ہے ، وہ نسبنآ پختہ تھی جبکہ خانپور روڈ بلکل خستہ  ہے تو باہر کے ممالک سے آنے والے سیاح خانپور روڈ ہی کو کھنڈرات سمجھ کر ادھر ہی گھوم پھر کر واپس اپنے ملکوں کو چلے جاتے ہیں ، اس سے آگے سنگ تراشوں کا  بازار ہے ، شاید یہ فن اب پاکستان میں بیت کم جگہوں پر اپنایا جاتا ہو گا ، اس میں خاص طور پر قبروں کے کتبے اور ڈیکوریشن کی جیزیں پتھر سے بنائی جاتی ہیں ،  یہاں ذرائع کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ہے ایک طرف ٹیکسلا کے میوزم کی دیوار دوسری طرف پتھر توڑنے والے کاریگر درمیاں میں ایک کلومیٹر سے بھی بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ، اس زخیرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خشک سالی میں بھی نہیں سوکتا ، کیونیکہ گھروں کی سیورج کا سارا پانی یہں جمع ہوتا ہے ، کیچڑ میں پتھر کے سیمنٹ نما زرات کیچڑ کی گرفت کو مضبوط   تر کر دیتے ہیں ، کیونکہ پہلے یہاں سڑک ہوا کرتی تھی اس لیے گاڑیوں کو اسی ذخیرے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے ، ہمارے آگے ایک بابا جی سائیکل پر اس دریا کو عبور کرنے کی کوشش کرنے لگے ، باباجی نے پائنچے گھٹنوں سے اوپر چڑیائے ، قمیض اتار کر شاپر میں ڈالی  جو سٹینڈ سے باندھی ، اللہ اکبر کے نعرے لگا کر گویا وہ پل صراط عبور کرنے کو نکل پڑے ، ابھی کچھ ہی آگے گئے تھے کہ ایک دکان میں سے نوجوان نے دور سے باباجی کو والحانہ سلام کیا بابا جی نے بھی گرم جوشی دکھائی اور دونوں یاتھوں سے کسی لیڈر کی طرح اس کا جواب دینےلگے ، ایک دم سائیکل بدکی ، اور بابا جی سائیکل سمیت کیچڑ کی آغوش میں چلے کئے ، باباجی سر سے پاّئوں تک کیچڑ میں لت مت ، نوجوان کو صلواتِن سنانے لگے ، ایک دو درد ل حضرات بابا جی کی مدد کے لیے آگے بڑھے ، بمشکل وہ بابا جی تک پہنچے دونوں ایک ایک طرف سے باباجی کو تھاما ، اور ان کو آٹھانے لگے ، بجائے اس کے کہ وہ بابا جی کو اٹھاتے ،الٹا خود ویاں باباجی پر گر پڑے ، بابا جی کی صلواتیں مزید اونچی ہو گئیں اوران میں دو ناموں کا آضافہبھی، اسی اثنا میں چار پانچ بچے آئے وہاں ، بچوں کی یہ قسم صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے ، بغیر چپل ، صرف کالی بنیاں میں جو کبھی صفید یوا کرتی ہو گی ، رنگ گندمی ، گندمی اس کیے کہ اگر کبھی دّھویا جائے تو غالبآ گندمی ہی ہو گا ، یہ اور بات کہ آن کا دھلا ہوا کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، انھوں نے بنا دیکھے ہی اپنے سویمنگ پول میں چھلانکیں مار دیں ، وہ روزانہ ویاں نیآتے ہیں ، اور ان کی چھلانگوں سے چھینٹے بابا جی پر آڑنے لگے ، اسی اثناء میں وہاں کچھ غیرملکی گورے بھی پہنچ آئے ، جو غالبا اس سڑک کو کھنڈرات سمجھ کر اس طرف آ نکلے ، ان میں چھھ کے قریب  نواجون  لڑکے اور لڑکیاں تھے ،وہ بہت خوش ہوئے سمجھے کہ یہاں کوئی فیسٹیول ہو ریا ہے ، وہ بھی شڑٹیں اتار کیچڑ میں کود پڑے اور ایک دوسرے پہ کیچڑ پھینکنے لگے ، کچھ جزباتی نوجوان اپنے جزبا ت کی تاب نہ لاتے ہوئے بیچ میں کود پڑے ، گورے لوگ باباجی کی جوان دلی جو حادثاتی طور پر وقوع پزیر ہوئی تھی  سے بہت متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے لگے ، بابا جی بہت جوان نظر انا شروع ہو کئے ایک دم سے ، خیر ہم نے جانا تھا سفر میں کچھ دیر کے لیے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی ، گاڑی کا سلف لگتے ہی سب کو جیسے سانپ سونگھھ ہو ، اس سے آگے سڑک کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ، بہت سے لوگ تو یہ ماننے سے ہی انکاری تھے کہ یہاں کبھی سڑک بھی ہوا کرتی تھی ، پر میں نے دو سال کی محنت کے بعد کم سے کم ۸ ایسی جگہ ڈھونڈ نکالی تھی  جس سے یہ گماں ہوتا تھا کہ یہاں کبھی سڑک بھی یوا کرتی تھی ،اس  راستے میں دو چیزیں تھیں ایک کھڈے اور دوسری بڑے کھڈے ، کیونکہ گاڑی کی بریک نہیں تھی تو چھوٹے کھڈوں سے چلتے ہوئے بڑے کھڈے سے گزرتے ہوئے ڈرائیور ایک نعرہ مارتا جس سے سب سمجھ جاتے کہ گاڑی طوفانی ہچکولا کھانے والی ہے ، لیکن اکثر ڈرائیور یا تو بھول جاتا یا لیٹ نعرہ مارتا ، بس کون کون سے درد نکلتے اور کہا کہا سے نکلتے مت پوچھیں اگر کھانا جی بھر کر کھا کر سفر کو نکلے ہیں تو خوب ہضم ہو گا ، بلکہ ایسا ہضم ہو گا کہ معدہ پہ دبائو کی وجہ سے بخارات بن کر تابکاری کے اثرات والے زہریلی ڈکاروں کی صورت گاڑی میں موجود ستم زدہ لوگوں پہ ایک قیامت اور دھائیں گے، اگر آپ خالی پیٹ ہیں تو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے باقی اعضاء معدے کی طرف سرکیں گے ، اور اندر سے ایسی آوازیں آہیں گی جیسے پرانی راڈو کی گھڑیوں کے اندر سے آتی تھیں جب گاڑی بل آخر ہری پور کے اڈے کی طرف پہنچی تو  ویاں دو قطاریں لگی ہوئی تھیں  ایک طرف آنے والوں کے عزیز و اقارب جو کہ مٹھائی اور پھولوں کے ہار لیے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ورثاء لیکن ان دونوں قطاروں والوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ ان کی رشتہ دار غازی ہے یا شہید ، سو وہ ہر دو طرح سے تیار ہوتے ہیں ، کہ جانے کس وقت کس قطار میں شامل ہونا پر جائے  اور وقت آنے پہ وہ عورتیں قطار کے ساتھ ماتھ حلیہ بدلتی ہیں وہ قابل دید ہوتا ہے ، ویاں پہ ایک فلاحی ہسپتال 
نے عوام کی فلاح کے لیے ایک ایمبولنس اور خصوصی تربیت دی ہوئی "نروسیں" تعینات کی ہوئی ہیں ، خصوصی تربیت اس لیے کہ وہاں پہنچنے والے بیشتر لوگوں کا سانس رکا ہوا ، نبض بند اور دھڑکن  ختم ہو چکی ہوتی ہے عام "نروس" تو ان کو مردہ سمجھ کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دے ، لیکن ان کوکسی دوائی کی ضرورت نہیں ہوتی بس ان کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ صحیح سلامت پہنچ چکے ہیں ہری پور ، تو وہ آٹھھ کھڑے ہوتے ہیں ، کپڑے جھاڑ کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں،   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

May 25, 2010

کمینہ

چاچا  نے جیسے ہی  ٹی-بیگ نکالنا چاہا ، تو چائے کے کچھھ قطرے میز پر ٹپک گئے ، میری نظر پہلے ہی اس کی طرف تھی ، میں اپنے چہرے پہ مصنوعی فرعونیت ، آنکھوں میں چنگیزیت  اور  لہجے  میں حیوانیت لا کر  اس پہ وحشیوں کی طرح دھاڑنے لگا، لیکن کچھھ الفاظ بمشکل منہ سے نکلے ہی ہوں گے ، کہ الفاظ حلق میں پھنس گئے ، سوچ اور ربط کا تعلق ٹوٹ گیا ، پچھلے کئی روز سے میرے ساتھ یہی ہو رہا ہے ، اس سے پہلے میرے لیے کسی بھی ماتحت کو بنا بات جھاڑ پلانا نہایت آسان تھا،ایسا کرتا بھی نہ تو کیا کرتا ،جی جناب دنیا میں جینے کا یہ ہی تو طریقہ ہے جو ذرا کمزور لگا اس پہ چڑھ دوڑو ، جو ماتحت ہے اس کو جھاڑتے رہو وقتاْ فو وقتاُ ، تاکہ وہ بھی نیچے لگا رہے ، باقی بھی زرا بھائومیں رہیں ، بھائی دنیا میں رہنے  یہی اصول ہیں ، جو نیچے لگا ہے اسے اور رگڑا لگائو ، جو ذرا دھیما لگے اس پہ ہاوی ہوتے جائو ، دوسرے کو موقع ہی نہ دو بلکل ، یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول چلتا ہے ، جو پہلا بار دبانے میں کامیاب ہو گیا، بس وہ دبائے رہے گا ، جودب گیا  دبا  رہے گا،دوسرے کے حلق میں نہیں پھنسو گے تو وہ نگل جاہے گا تمھیں۔
، ہاں جہاں دوسرا ہاوی ہو جاہے ، غالب آ جاہے،گرگٹ بن جائو ، پینترا بدل لو ، کنی کترا لو ، نکلنے کی کوشش کرو، اگر وہ تو اونچے عہدے کا ہے تو خوشامد پر اتر آئو ، میٹھی مار دو ، کوئی  جگرے والا آدمی ہے تو دم دبا کر بھاگنے والی کرو،
برسوں سے میں اپنی اخلاقی تنزلی کے اس پہلو کو دنیاوی ہربہ کا نام دے کر ،اپنے  اس فلسفے  پہ کامیابی کے ساتھھ عمل پیرا تھا لیکن یہ پچھلے کچھھ ہفتوں میں  تیسرا موقع تھا کہ میں اپنی دہشت بٹھا نہیں پایا ،بلکہ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ کچھ ایسی باتیں نظرانداز بھی کر دیں ،جن باتوں کے ساتویں حصے کو بھی نہیں جانے دیتا تھا ،ایک بات زہن میں اٹکی ہوئی تھی ، کوشش کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھڑا پایا ، شاید پڑھتا ہی نہ تو بہتر تھا لیکن جب حضرت علی رضی اللہ تعالی کا یہ قول نظر سے گزرا کہ "کمینہ کی تعریف ہے کہ جب   ایسے شخص سے نرمی و شرافت سے بات کی جاہے تو وہ ہاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے ، اور جب سختی سے بات کی جاہے تو وہ  دبک جاتا ہے "   تو  احساس ہوا کہ  میں تو ازل  سے اپنے اندر ایک کمینہ پال رہا۔

May 16, 2010

قصہ میری ڈاکٹری کا

مجھے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا ، بلکہ میرے پورے خانداں میں بدرجہ اتم موجود تھا ، پر نہیں تھا اگر کسی کو  تو   میرے استاد  کے - بی - مٰٰغل صاحب کو ، یعنی خدا بخش مغل  ، اگرچہ مغلوں کی سلطنت کے حصے بکھرے ہوہے بہت وقت گزر چکا تھا لیکن وہ اس حقیقت کو ماننے کو قطعآ تیار نہیِں تھے اور بہت شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے کی کوشش کرتے تھے لباس  اور وضع قطع  تو مغربی اختیار کی ہوئی تھی ، البتہ ان کی ساہیکل سلطنت عثمانی کی کوہئ نادر نشانی معلوم ہوتی تھی اور اس کی آواز گویا  کسی مغل بادشاہ کی آمد کا نکارہ ہوتا تھا ، ٹِِِِیییین تھڑْق ، تییییں ٹییییں ٹھڑق ، کی  پیڈل اور  چین گارڈ کے ٹکرانے کی  بارعب آواز سے رستے صاف ہو جاتے کہ گویا سلطنت عثمانی کے جانشین کا ہاتھی روند ڈیالے گا لیکن سڑک کا صاف ہونا ان کی ساہیکل کی برییک کا نہ ہونا ہوتا تھا اور اگر غلطی سے کوئی نہ ہٹ پاتا تو نان - سینس کی گرجدار آواز اس کو بھگانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ بات کہاں چلی گئی ، وہ اس وجہ سے میرے ڈاکٹر بننے کے خلاف نہیں تھے  کہ میری صلاحیتوں پہ شک تھا ان کو ، بلکہ انہوں نے گوہر شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے مجھ جیسے نادر ہیرے کو پہچان لیا تھا، وہ مجھے نیوٹن کے درجہ کا ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے یعنی سکول سے بھاگا ہوا ڈاکٹر ، لیکن مِیں ایک چھوٹا سا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی بننا چاہتا تھا بہرحال انہوں نے اپنے منصوبہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا ، وہ آتے ہی ہر روز سب سے پہلے مجھے دو چار ڈنڈے رسید کرتے تھے ، اور اگر کبھی میں سکول نہ آتا تو ان کو تمام دن بےچینی رہتی جس کا اظہار وہ دوسرے طلباء کے اوپر ڈنڈوں کی صورت میں کرتے رہتے تھے ،اور اگر وہ نہ آتے تو پورا دن میرا بدن ٹوٹتا رہتا، بہرحال اب  جب یاد کرتا ہوں وہ زمانہ تو واحد یہی مشق تھی جو مجھھ پر بہت باقاعدگی سے ہوئی یا  یوں کہہ لیں  میں نے کِی۔ وہ بہت نفیس بھی تھے کسی کی ناک ذرا بھی بہہ رہی ہوتی تو اس کو کلاس کے باہر  کھڑا کر دیتے تھے ، ان کی اسی نفاست کی وجہ سے میں نے ابتدائی تعلیم جماعت کے باہر ٹھہر کر حاصل کی۔
ابندائی دور سے ہی مجھھ میں ڈاکٹری صلاحیتیں پائئ جاتی تھیں جیسے کیڑے  ڈاکٹر لوگ اپنے نسخے پر ڈالتے ہیں بعینہ ویسے ہی مکوڑے میں اپنی سلیٹ پر ڈالتا تھا ، اور ڈاکٹروں کے نسخے کی طرح کسی کو سمجھھ نہیں آتی تھی ،  یہاں ایک بیت ضروری غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹری نسخے کی سمجھھ فارما "سستوں" کو بھی نہیں آتی  وہ مریض کو اندازے پہ دوائی  دے دیتے ہیں ، اب ان کی دوائی نہیں بکے گی تو بے چارے بھوکے مر جاہیں گے سو اس راز کو راز ہی رہنے دیں ، ویسے بھی راز کی بات کسی کو نہیں بتانی چاہیے ،میں بھی اپنے  ۳۰-۴۰  انتئائِی قریبی دوستوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتا۔نہ صرف یہ بلکہ میں بڑے ڈاکٹروں کی طرح منہ دھونے اور کنگھی کرنے کے لوازمات میں نہِیں پڑتا تھا ، انسان کو قدرت کے قریب تر رہنا چاہیے ۔
میں بہت اعلی درجہ کا طالبعلم تھا ، اور مشکل سوالات حل کر لیا کرتا تھا ، لیکن امتحانات میں کیونکہ آسان ہوتے تھے اس لیے فیل ہو جاتا تھا, بہرحال کے-بی مغل صاحب کا میرے متعلق نظریہ  اتنا فروغ پایا کہ میرے  اساتزہ، سکول، بلکہ تعلیمی بورڈ   میں  والے بھی ان کے نظریاتی ساتھی بن گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ میں میٹرک میں لگاتار ۳ سال محنت کے باوجود بھی غیرامتیازی نمبروں سے پاس ہوا، لیکن اقبال کا یہ  شاہیں بھلا تند باد مخالف سے گبھرانے والا کہاں تھا ، میرے عزم اور حوصلے نے دکھائی مجھے نئی راہ ، ،میں نے گاما نائی کی شاگردی اختیار کر لی، نام سے دھوکہ مت کھاہیں آپ وہ ڈاکٹر گاما نائی تھے ،بہت "گفٹڈ" ڈاکٹر ہیں ، یعنی عطائی ڈاکٹر    پورے علاقے کے مانے ہوِہے ڈاکٹر ،آن کا ایک ہی اصول تھا مریض جس حالت میں آہے اس حالت میں واپس نہ جاہے اور بس یہ ہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہاں کی ڈاکٹری کے قصے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comming Soon...

May 9, 2010

۱-خودکلامی

زندگی بہت مشکل ہو گئ ہے ، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ  اس کی الجھنوں میں اضافہ ہو رہا ہے 
بظاہر میں نے بہت کچھ  حاصل کر لیا ہے زندگی میں ، لیکن جب وقت،فرائض اور زمہ داریوں کی جمع تفریق کرتا ہوں تو جواب منفی میں آتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جس مقصد کے لیے  ، سفر شروع کیا تھا وہ تو راہ کی خاک میں ہی کھو گیا اور میں راستے کو ہی اپنی منزل سمجھھ بیٹھا، ہم اکژ سنگ مپل کو ہی منزل سمجھھ کر تمام عمر وہاں گزار دیتے ہیں۔کبھی حقیقت بہت دیر بعد کھلتی ہے اور کبھی یہ راز جانے بغیر ہی  دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
بچہ زمیں پر کھیل ریا تھا ، قرہب ہی چارپائیِ پر ایک بزرگ نیم دراز حالت میں آرام کر رہے تھے ، بچہ مٹی پر بیٹھا ہوا اپنی    دھن مین مگن تھا ،بچے کے سامنے ایک پرانا  مرتبان رکھا ہوا تھا ، مرتبان پہلے گھریلو برتن کے طور پر استعمال ہوتا ہو گا لیکن اب اس کی ابتر حالت کی وجہ سے بچہ کھلونے کے طور پر استعمال کرتا تھا ، دیہات میں رہنے والے بچوں کو عام طور پر ایسے ہی کھلونے  میسر ہوتے ہیں ، بہرحال بچے کا دھیان مرتبان  کی طرف گیا ،بچے نے مرتبان اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو بھاری محسوس ہوا ، مرتبا ن پتھروں سے بھرا ہوا تھا ، اس میں چھوتے بڑے حجم کے پتھر تھے،بچے نے مرتبان الٹا تو سارے پتھر زمین پر  ُُپھیل گئے  اور وہ ان سے مختلف اشکال بنانے لگا کچھھ دہر بعد بچے نے وہ پتھر واپس مرتبان میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ابھی کچھھ ہی پتھر مرتبان میں ڈلے تھے کہ مرتبان بھر گیا اور  ، بچے نے دوبارہ مرتبان خالی کر کے بھرنے کی کوشش کی لیکن اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ، یہ سب معصوم زہن کے لیے کافی پریشان کن تھا ، بہت کوشش کے باوجود بھی جب بچے سے مرتبان بھر نہ پایا تو وہ حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جزبات کے ساتھھ ادھر آدھر دیکھنے لگا ،بچے کی نگاہ جب بزرگ پر پڑی ،تو وہ پہلے سے ہی بچے کی معصوم خواہش کا مشاہدہ کر رہے تھے ، وہ مسکراہے اور چارپائِِی  سے اٹھے ، اپنی لاٹھی کا سہارہ لے کر اپنے کپڑوں کی پرواہ کیے  بغیر     مٹی پر ہی بیٹھھ گئے ، بچے کے سامنے سے مرتبان لے کر اپنے سامنے رکھھ لیا ،بچہ بہت دلچسبی سے یہ منظر دیکھنے لگا، پہلے  بزرگ نے بڑے حجم کے پتھر مرتبان میں ڈالے ، پھر چھوٹے حجم کے پتھر ڈالے اور مرتبان کو دونوں ہاتھوں سے بیضوی شکل میں حرکت دی تو چھوٹے پتھر خود اپنی جگہ ڈھونڈ کر مرتبان کی تہ میں بیٹھھ گئے ، بزرگ نے باقِی مانندہ پتھروں کو مرتباں میں ڈالا اور یہ مشق دورائی اور سارے پتھر مرتباں کے اندر اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے۔اور  سارے پتھر نہایت آسانی کے ساتھھ مرتبان میں سمو گئے،
مجھے اپنی زندگی بھی ایک مرتباں سی  زیادہ کچھ نہیں لگتی  ، اور میں وہ بچہ ہوں کہ جس نے خواہشوں اور آساہشوں کے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے اپنی زندگی کے مرتبان کوبھر لیا ہے ، اور اس زندگی کی بڑے پتھر،اس کی زندگی کے اصل مقاصد ، مرتبان سے باہر ہی پڑے ہیں ، بلکہ حقیقت میں میں نے بڑے پتھروں کو پہچانا ہی نہیں ، اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا پوری عمر ، بڑے پتھروں کو مرتبان میں جگہ ہی نہیں دی، اور چھوٹے پتھروں کو اتنا موقع ہی نہیں  دیا کہ وہ خود اپنی جگہ گھیر لیتے ، اگر میں فقط اتنا سمجھھ لیتا کہ
 بڑے پتھر پہلے"   تو زندگی بہت آسان ہوتی۔"

April 22, 2010

خالھ بلی ، شیر کی

جتنی شھرت محاورہ بلی شیر کی خالہ کو نصیب ھوئ شاید ھی کسی اور کو ھوہی ھو جب ھم نے اس محاورہ کا مفصل تکنیکی جائزہ لیا تو حیرت انگیز انکشافات سامنے آہے، جو ھم اپ کے ساتھ شیر کرتے ھین ، اس میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ محاورہ بلا شیر کا خالو بھی ہوسکتا تھا لئکن محاورہ دان نے یکسربلے کو نظرانداز کر کے اس کے ارمانوں کا خون کیا ورنہ مفت شھرت کس کوبری لگتی ہے،لیکن وہ کیا وجہ تھی جس نے محاورہ دان کو اتنی بڑی زیادتی پہ مجبور کیا،یا یہ بلی گھریلو بلی تھی جس کو پ-ر کی وجہ سے یہ مراعات دی گئ ، اگر یہ گھریلو بلی تھی تو اس کے خاندانی پس منظر کا معلوم یونا انتئاہی ضروری یے کہ کہیں ایسا تو نیں کہ ایک بیڈ کریکٹر بلی کو اس مقام پے لا کھڑا کیا گیا ،اءر مستقبل میں بلی کے سکینڈل منظر عام پر آنے سے نسل بلی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔کیونکہ قوموں کی زندگی میں ایسے واقعات گہرا اّثر چھوڑتے ہیں، مزید براں یہ کہ محاورہ دان نے بلی کی شکل و صورت کےحوالے سے کوئ معلومات نیں دیں ،بلکہ محاورہ دان کو بلی کا فوٹو چسپاں کرنا چاہیے تھا تاکہ آنے والی نسلےبلی کو انکی ماںء امجد کے بارے میں بتایا جا سکتا،بہرحال جو زیادتی بلے کے ساتھ ہوئ اسکا ازالہ ممکن نیں، اور لوگوں کی صرف بلی کو پالتو حیثیت دینے سے بلے کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا ہے اور وہ کسی بھی وقت الگ صوبہ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔