روایات میں ملتا ہے کہ اللہ نے جتنے بھی نبی اور پیغمبر بھیجے ان میں سے اکثر نے نبوت سے پہلے یا نبوت کے ابتدائی دور میں بکریاں چرائیں ، علماء اس کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں کہ بکری وہ واحد پالتو جانور ہے جس کو سدھآرنا اور راہ پہ لانا بہت مشکل ہےگویا اس پیشے سے مْقصود ان کی تربیت کرنا تھی کہ وہ جب انسانوں کو ہدایت کا پیغام دیں تو برداشت اور صبر کا مادہ موجود ہو۔
بکری ایک خودسر جانور ہے، ہمیشہ ضد کرتی ہے، جس طرف اسکو ہانکا جائے اس کی الٹ سمت میں چلتی ہے کبھی بات نہیں مانتی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بکری کی "میں" ہوتی ہے، اس کو مارا جائے یا ڈانٹآ جائے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور جتنا غصہ کیا جائے اس کی "میں میں" لمبی ہی ہوتی جاتی ہے ۔بکری ہمیشہ "میں" کرتی ہے کہ گویا "میں" ہی سب کچھ اور دوسرا کوئی کچھ بھی نہیں اور جو "میں" کر رہی وہی ٹھیک اور باقی جو کوئی مجھ سے کروانا چاہ رہا وہ غلط۔۔ اسی "میں" کی وجہ سے بکری میں آنا ہوتی ہے کہ اس کو جس طرف ہانکو اس کے الٹ طرف چلتی ہے۔۔
اس کی دوسری وجہ بکری کے کان ہوتے ہیں بکری کے کان لمبے اور اور بے جان ہوتے ہیں اور وہ واپس گر کر بکری کے کان کوڈھآنپ لیتے ہیں اور کان کے اس حصے کے بلکل اوپر آ جاتے ہیں جس سے سنا جاتا ہے تو اس سے بکری کو کوئی آواز نہیں جاتی اور وہ کسی کی نہیں سنتی ۔ سو آپ اسکو سمجھآئیں یا اس پہ غصہ کریں ، برس پڑیں اس پہ کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ کچھ سنتی ہی نہیں اور جب بھی آپ کا منہ ہلتا ہوا دیکھتی ہے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور آپ کا منہ جتنی شدت سے ہلتا ہے اس کی "میں میں" اتنی ہی لمبی ہوتی جاتی ہے
انسان اور بکری میں فرق بھی فقظ اس" میں" کا ہے اور جب انسان انسانیت بھول کر "میں" پر اتر آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ، وہ سمجھ رہا وہی ٹھیک ہے اور جو دوسرا کہہ رہا اس کی کوئی اہمیت نہیں ،ایسا انسان اپنا کان تو لمبا نہیں کر سکتا بکری کی طرح لیکن شاید اپنا دماغ نکان کر کان میں ضرور ٹھونس دیتا ہے کہ اس کو کسی کی آواز ہی نہیں اتی آپ اس کو لاکھ دلیلیں دیں ، حقائق اس کے سامنے لائیں، وہ اپکی بات نہیں سنے گا بلکہ اپنی ہی کہتا رہے گا اور بضد رہے گا کہ کوا سفید ہے۔ وہ اپنی آنا کے قدموں میں سر رکھ کر سویا رہتا ہے کہ کسی کی مان لینا اس کی ہار ہوتی ہے اور اگر اپ کسی طور اپنی بات اس کے کان میں ڈال بھی دیں گے تو وہ "میں میں" ہی کرتا رہے گا اور اپ جتنے زیادہ دلائل دیں گے اس کی میں مہہہہہہ لمبی ہی ہوتی جائے گی۔
سو ایک چھوٹا سا مشورہ ہے کہ بھلے سے آپ کے پاس ہزاروں معتبر اور جامع دلیلیں ہوں لیکن پہلے دیکھ لیں کہ جس سے کہنے جا رہے وہ کہیں "میں میں" تو نہیں۔
اور اس "میں" میں خالق ملتا ہے نہ مخلوق کہ خالق کی بندگی شروع ہی "میں" کی نفی سے ہوتی ہے اور اسی "میں" کی ہٹ دھرمی میں ہم دوسروں کے احساسات اور جزبات کو کچل دیتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ متاثر ہوتے ہیں جو ہم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔اور ہماری "میں" انہیں ہم سے بہت دور کر دیتی ہے
پیر صاب سلام اب تو توارش کو پیر نہ بنا دئی وہ تو مولوی سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔
ReplyDeleteمیں میں بکری بکرا دونوں کر تے ہیں نا؟
ReplyDeleteجب بکری حد سے زیادہ میں میں کرے تو اس کا بکرا کتنا مسکین ہو گا بے چارہ۔
آپ کی ساری باتیں درست
ReplyDeleteلیکن یہ تو اردو میں میں ہوتی ہے
اردو تو کل کی ہی بات لگتی ہے
آپ عربی کا حوالہ دیتے تو اچھا تھا۔
بہت عمدہ پوسٹ ہے بہت سادہ الفاظ میں بہت گہری بات لکھی ہے ...عندلیب
ReplyDeleteچیتا ہے یار تو تو
ReplyDeleteایک شاہ سب پہ بھاری
اب کبھی بکری کے متعلق کچھ کہنے پہ دفعیں تو نہیں لگنا شروع ہو جائیں گی؟
بے شک لگیں
ہماری طرف سے دفعے دور
بہت فِٹ میں میں لکھی ہے جی۔۔۔۔۔
ReplyDelete:)
بہت عمدہ۔۔۔۔۔۔۔۔
ReplyDeleteشاہ جی یہ
ReplyDeleteآج کل کی بکریاں
یہ بکریاں ہیں چکریاں
گول گول چکریاں
اس میں میں میں ہی انکا فلسفہ زندگی پوشیدہ ہے
@بدتمیز
ReplyDeleteتوارش بائو بڑا پہنچا ہوا ہے
ایسی باتیں اسلیے کرتا ہے کہ کوئی اس کی کرامات نہ پہچان لے۔
@یاسر
سارے بیچارے محاوروں میں بکرے کو خواہ مخواہ تو نہیں استعمالا گیا
@میڈم عندلیب
بہت شکریہ
@ڈفر
بکری پہ دفعین نہیں لیکن میں میں کرنے پہ لگیں گی
@عین لام میم
میں میں زیادہ ہو گیا، جیسے بکرا منڈی میں جا کر لکھآ ہو
@عمر
شکریہ
@توارش
(:
یہ تو پوسٹ ہی اپکے نام تھی
اچھی تحریر ہے۔
ReplyDeleteمجھے لگتا ہے کہ بکری سے زیادہ میں میں ہم انسان کرتے ہیں۔۔۔
@کاشف
ReplyDeleteجی اسی میں میں نے تو مصیبت کھڑی کی ہوئی ہے
کوئی کسی کی بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں
ہر کوئی اپنا ہی راگ الاپ رہا ہے
ہر طرف افراتفری کا عالم ہے
آپ کی تحریر تو پڑھ لی۔ اب یہ بتائیے کہ خرابی ایک "میں" میں ہے یا "میں میں" میں۔؟
ReplyDeletebakri par itni resarchhhhhhhhhhh. achi bat hay har chez ki info honi chaya.......
ReplyDelete