July 6, 2011

جون کلوزنگ پارٹ-۱

اکتیس مئی آخری دن تھا  ، میز پر پڑی سبھی کمپنیوں کی بیلنس شیٹ میں آخری رقم صفر تھی ۔ ان میں ایسی کمپنیاں  "اے" گروپ بھی تھی جس کا بزنس اربوں میں ہوا  اور "وائے" گروپ بھی جس نے بمشکل چند لاکھ کا ہی کاروبار کیا مگر قدر مشترک دونوں کا اختتامی بیلنس صفر تھا ، یہی حال ساری  کمپینوں کی بیلنس شیٹس کا تھا۔اگرچہ ہر ایک کی ٹرانزیکشن ہسٹری بہت مخلتف تھی اور کسی نے کروڑوں کی منتقلی یومیہ ہوئی تو کوئی کئی کئی روز کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں کر پائی  مگر ڈیبٹ اور کریڈٹ دونوں کا متوازن انداز میں چلتا رہا۔ بڑی کمپنی کی کریڈٹ کی حد اگر بہت زیادہ تھی تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے بہت  زیادہ رہا   جبکہ چھوٹی کمپنیوں کا کریڈٹ کم نکلا  تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے کم  نکلا ۔ تو آخر میں جبکہ سب کا بیلنس صفر ہوا اور ان کی ڈیبٹ اور کریڈٹ ہندسوں کے گراف میں سب ہی کی لائینیں اپنی اپنی جگہ  بہت متوازن نظر آ ئیں ، کسی بھی لائن میں حیرت انگیز تغیر نہیں واضح ہوا، ہر لائن کی روانگی بحیثیت مجموعی چھوٹی موٹی  اونچ نیچ کے ساتھ متوازن ہی نظر آئی ، سب کچھ ایک میزان میں چلتا نظر آیا ، فرق محظ سلیب کا ظاہر ہوا نیٹ ایفیکٹ کچھ بھی نہ تھا۔

3 comments:

  1. بات تو ٹھیک ہی ہے۔
    جب کروڑوں میں کاروبار ہوتا ہے تو اخراجات بھی زیادہ ہوتے ہیں
    جب لاکھوں میں ہوتا ہے تو اخراجات کم۔
    بچت اگر کم ہے تو ذاتی استعمال کیلئے وقت کی فراوانی بھی زیادہ
    مجھے تو تھوڑے بہت کام اور مناسب آمدنی ہی میں لطف آرہا ہے۔
    اب تو ڈر لگتا ہے دوبارہ مصروف ہو جانے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  2. قبلہ سچ سچ بتائیے۔ یہ تحاریر آپ کی اپنی ہیں یا کوئی حکایات سعدی ٹائپ کتاب ہاتھ لگ گئی ہے۔ :)
    مختصر اور سادہ اقتباسات میں سمائے یہ فلسفے خوب گہرے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. دراصل ہم لوگوں نے جھوٹ کوکاروبارمیں اس طرح شامل کرلیاہےجسطرح جسم میں خون ہے بلکہ ہرکوئی بزنس مین یہی کہتاہےکہ اس کےبغیربزنس نہیں چلتاجبکہ میری نظرمیں سب سےبےبرکتی یہی ہے

    ReplyDelete