ہاسٹل میں ہمارے وارڈن صاحب حو کہ اردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ بھی تھے ان سے کافی علیک سلیک ہو گئی اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ جب سٹڈی آور میں وہ کمروں کا چکر لگانے آیا کرتے تو میں لمبی تان کر سو رہا ہوتا لیکن بلکل کمرے کے دروازے کے سامنے میز پر ایک شاعری کی کتاب رکھ دیا کرتا وہ دروازہ کھول کر مجھے سویا دیکھتے اور کتاب اٹھا کر لے جاتے آگلے دن کتاب واپس لے آتے ۔ میں اپنی دانست میں ان کو یہ رشوت دیا کرتا ، پھر جب کبھی جاگا ہوتا تو کافی دیر ان کے ساتھ گپ چپ ہوتی ۔ باقی دوستوں نے جب دیکھا تو وہ کہتے کہ روز ہی محفل جما لیا کرو سر کے ساتھ کہ اسی بہانے سٹڈی آورز نکل جایا کریں گے بطور رشقت وہ کینٹین میں میری سیوا کیا کرتے کیونکہ سٹڈی آورز میں جو پڑھائی نہیں کر رہا ہوتا تھا وہ جرمانہ ادا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ سر مشتاق سے کافی دوستی ہو گئی اور ان کے وارڈن لاج میں جا کرخوب محفل جمتی جہاں اور بھی اساتزہ اور سینئر سٹوڈنٹس آئے ہوتے
کچھ عرصے بعد کالج میں ایک تقریری مقابلہ منعقد ہوا جس میں سنجیدہ تقاریر کے ساتھ ساتھ مزاحیہ تقاریر بھی تھیں۔ اور میں نے کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یونیورسٹی کے ایک ایسے ہی مقابلے میں پہلے نمبر پر آنے والی مزاحیہ تقریر کا مسودہ حاصل کیا ہوا تھا سو میں پہلے ہی تیار بیٹھا تھا ۔ اس کا عنوان تھا
"تیرا دل توہے فلم آشنا ، تجھے کیا ملے گا نماز میں"
تقریر کا وقت آیا ججز میں سر مشتاق ہی بیٹھے تھے تقریر کے اختتام پر پہلا انعام ملا سب نے خوب سراہا ، مجھے انتظار تھا شام کا کہ سر مشتاق سے ملوں شام ہوتے ہی ۔۔
شام کو میں وارڈن لاج میں گیا سر مشتاق اکیلے ہی تھے مجھے دیکھتے ہی وہ غصے سے لال پہلے ہو گئے کہنے لگے تمھاری ہمت کیسے ہوئی اقبال کے مصرعے کا مزاق آرانے کی ، تمھاری نسل صرف اجداد کا مزاق آڑانا جانتی ہے ، ان لوگوں کو جنھیں تمھارا رہبر ہونا چاہیے تم کیوں ان کو مسخرہ بنانا چاہتے ہو۔ اپنے آنے والی نسل کو کیا بتانا چاہتے ہو کہ اس ملک کی تاریخ میں صرف جوکر گززرے ہیں یا یہ سکھانا چاہتے ہو ان کو اپنے بڑوں کی ہر بات کو مزاح کا رنگ دے کر اس سے تفریح لیتے پھرو۔یہی رجحان ہے جو معاشروں میں کینسر کی طرح پھیلتا ہے اور پھر ہر طرف بے حسی پھییل جاتی ہے۔
کچھ لمحے تو مجھے سمجھ ہی نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے یہ سب باتیں میری سمجھ سے بہت بالاتر تھیں اور مجھے تو یہ تک نہ پتہ تھا کہ میں نے اقبال کے مصرعے کو بدلا ہے میں نے تو فقط کاپی پیسٹ کیا تھا اس وقت تو میں واپس آ گیا ۔ بعد میں احساس ہوا کہ سر کو تکلیف پہنچی ہے غور کرنے پر پتہ چلا کہ تقریر میں ایک دو جملے مزید بھی ایسے تھا مگر بہر مخفی انداز میں استعمال ہوئے تھے کہ مجھے بھی اندازہ نہ ہو سکا-
سر نے کبھی کسی سے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی اور ان کا غصہ ہونا عجیب بات تھی اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ میں کئی بار سر کے پاس گیا مگر انہوں نے مجھ سے بات نہیں کی نہ دوبارہ میرے کمرے میں کبھی آئے
حتی کہ کالج کے اخری روز بھی نہیں ملے ۔
اس بات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اقبال کو پڑھوں اگرچہ اقبال کو سمجھنا میرے بس کی بات نہیں تھی لیکن سر مشتاق نے اتنا ضرور سمجھا دیا کہ اقبال ایک سوچ کا نام ہے جو ہر صحت مند اور مثبت زہن میں پیدا ہوتی رہے گی۔
شاہ جی، عقیدت اس حد تک پہنچ جائے تو علت بن جایا کرتی ہے
ReplyDeleteاور خدا کا واسطہ ہے
کم از کم ایک دفعہ لکھ کے پڑھ لیا کر
جبکہ ٹائٹل دیکھ کر میں سمجھا تھا کہ تو کچھ ایسا لکھے گا کہ،
ReplyDeleteتیرا دل تو ہے فلم آشنا، تجھے کیا ملے گا ڈاکیومینٹریز میں۔۔۔۔۔۔۔ اور تو کدھر سے کدھر نکل گیا۔
ویسے، آپس کی بات ہے، آجکل تو کدھر سے کدھر نکلا ہوا ہے؟
تیرا دل تو هے فلم آشناء
ReplyDeleteتجھے کیا لگے بھلا کتاب سے
@جعفر
ReplyDeleteمجھے موت پڑتی ایک بار لکھتے وے بھی۔
تو وہی دوبارہ ٹھیک کرنے کو کہہ رہا
@عمر
میں تو ٹوئٹے پہ بیٹھ جاتا ہوں اس کو جدھر سے رستہ ملتا ہے نککل جاتا ہے
@خاور
:)
@ٹرتھ ایکسپوزڈ
تھینک یو
بات تو سچ ہے مگر۔۔۔۔۔۔ چلیں اسی بہانے آپ نے اقبال کو پڑھ لیا۔
ReplyDeleteنہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
ReplyDeleteتو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
http://colourislam.blogspot.com/
بہت خوب۔ اقبالیات واقعی کافی گہرا مضمون ہے جسکو جتنا پڑھو کم ہے۔ اقبال تو وہ شخصیت ہیں جو دُنیا سے جانے کے بعد بھی قوموں میں انقلاب کا باعث بنتے ہیں۔
ReplyDelete