اکثر جب زہن بہت الجھ جاتا ہے مسائل الجھے ہوئے دھاگوں کی طرح دماغ کی شریانوں سے چمٹ جاتاے ہیں اور ان کا کوئی سرا نہیں ملتا کہ اپنے زہن کو اس سے آزاد کروا سکوں ۔ زندگی کسی بھٹکی ہوئی روح کی طرح دیواروں سے ٹکریں مارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
میں گھر سے نکل کر کسی کالی سنسان سڑک پر چل پڑتا ہوں کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی سیدھی سڑک کا انتخاب کروں جس میں کوئی بل نہ ہوں سامنے تا حد نگاہ کوئی رکاوٹ نہ نظر آئے کہ شاید اسی طور میری مختلف سمت میں بھٹکتی ہوئی سوچوں کو ایک زاویہ ملے۔
لیکن جس بھی سڑک پر چلوں یہی احساس ہوتی کہ وہ اتنی سیدھی نہیں اور جتنا بھی زندگی کو سلجھانے کی کوشش کروں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک آزاد دھاگا نہیں ہے۔۔
میں گھر سے نکل کر کسی کالی سنسان سڑک پر چل پڑتا ہوں کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی سیدھی سڑک کا انتخاب کروں جس میں کوئی بل نہ ہوں سامنے تا حد نگاہ کوئی رکاوٹ نہ نظر آئے کہ شاید اسی طور میری مختلف سمت میں بھٹکتی ہوئی سوچوں کو ایک زاویہ ملے۔
لیکن جس بھی سڑک پر چلوں یہی احساس ہوتی کہ وہ اتنی سیدھی نہیں اور جتنا بھی زندگی کو سلجھانے کی کوشش کروں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک آزاد دھاگا نہیں ہے۔۔
یار لوگوں نے
ReplyDeleteTreadmill
اسی مقصد کے لئے ایجاد کی تھی۔ بندہ سیدھا دوڑتا ہے۔۔۔میلوں تک۔۔ منظر بدلتا ہے نہ راستے میں کوئی آتا ہے۔۔۔اور بندہ ہے دوڑتا جاتا ہے۔ مزید ماحول پیدا کرنے کے لئے کمرے کی بتی بند رکھیں۔
میں یہ کام سمندر کنارے بیٹھ کر کرتا ہوں
ReplyDeleteاب یہ نہ کہیے گا کہ
فیصل آباد میں سمندر کہاں سے آگیا۔۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے کہ ميں ستّر سال کی عمر گذار چکا ہوں ۔ زندگی ميں کئی ايسے کٹھن مرحلے آئے کہ ان سے کم کٹھن حالات ميں دوسرے ڈپريش کا شکار ہوئے ليکن اللہ نے ميرے دل کا اطمينان نہ ختم ہونے ديا ۔ يوں سمجھ ليں بقول شاعر کہ مشکليں اتنی پڑي کہ آسان ہو گئيں ۔
ReplyDeleteآج جب ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے صرف ايک ہی وجہ نظر آتی ہے جس نے مجھے مطمئن رکھا اور وہ ہے اللہ پر توکّل اور اپنے آپ کو ہميشہ قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ کی طرف مزيد رجوع اور يہ ميں نے سيکھا تھا اپنی صابر ماں اور بيوہ پھوپھی سے جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھيں