January 23, 2011

سڑک

اکثر جب زہن بہت الجھ جاتا ہے  مسائل الجھے ہوئے دھاگوں کی طرح دماغ  کی شریانوں  سے چمٹ جاتاے ہیں  اور ان کا   کوئی   سرا نہیں ملتا کہ اپنے زہن کو اس سے آزاد کروا سکوں ۔ زندگی  کسی بھٹکی ہوئی روح  کی طرح  دیواروں سے ٹکریں مارتی ہوئی محسوس ہوتی ہے   

 میں گھر سے نکل کر کسی کالی سنسان سڑک پر چل پڑتا ہوں کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی سیدھی سڑک کا انتخاب کروں جس میں کوئی بل نہ ہوں سامنے تا حد نگاہ کوئی رکاوٹ نہ نظر آئے کہ شاید اسی طور میری مختلف سمت میں بھٹکتی  ہوئی سوچوں کو  ایک  زاویہ  ملے۔
 لیکن جس بھی سڑک پر چلوں یہی احساس ہوتی کہ وہ اتنی سیدھی نہیں اور جتنا بھی زندگی کو  سلجھانے کی کوشش کروں یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک آزاد دھاگا نہیں ہے۔۔

3 comments:

  1. یار لوگوں نے
    Treadmill
    اسی مقصد کے لئے ایجاد کی تھی۔ بندہ سیدھا دوڑتا ہے۔۔۔میلوں تک۔۔ منظر بدلتا ہے نہ راستے میں کوئی آتا ہے۔۔۔اور بندہ ہے دوڑتا جاتا ہے۔ مزید ماحول پیدا کرنے کے لئے کمرے کی بتی بند رکھیں۔

    ReplyDelete
  2. میں یہ کام سمندر کنارے بیٹھ کر کرتا ہوں
    اب یہ نہ کہیے گا کہ
    فیصل آباد میں سمندر کہاں سے آگیا۔۔

    ReplyDelete
  3. اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے کہ ميں ستّر سال کی عمر گذار چکا ہوں ۔ زندگی ميں کئی ايسے کٹھن مرحلے آئے کہ ان سے کم کٹھن حالات ميں دوسرے ڈپريش کا شکار ہوئے ليکن اللہ نے ميرے دل کا اطمينان نہ ختم ہونے ديا ۔ يوں سمجھ ليں بقول شاعر کہ مشکليں اتنی پڑي کہ آسان ہو گئيں ۔
    آج جب ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے صرف ايک ہی وجہ نظر آتی ہے جس نے مجھے مطمئن رکھا اور وہ ہے اللہ پر توکّل اور اپنے آپ کو ہميشہ قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ کی طرف مزيد رجوع اور يہ ميں نے سيکھا تھا اپنی صابر ماں اور بيوہ پھوپھی سے جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھيں

    ReplyDelete