March 2, 2011

انجمن ستائش باہمی

ہری پور کی فضا کافی ادبی ہے ۔وہاں کئی نامی گرامی شعراء  گزرے ہیں اور انہی کی محنت کی بدولت یہاں کچھ ادبی حلقے اور فورم کام کر رہے ہیں۔۔
 فی الوقت وہاں دو حلقے بن چکے ہیں۔ ایک جوان و درمیانی عمر سے تعلق رکھنے  شعراء ہیں جو اس بات کے قائل ہیں  کہ جس شعر میں وہ  یعنی محبوب نہیں وہ شعر ہی نہیں اور جس غزل میں محبوب کی زلفوں ، ہونٹوں ، گفتار اور شباب  کا زکر نہیں وہ سرے سے غزل ہی نہیں دوسرے گروہ میں بزرگ شعراء ہیں جو کہ  غم حالات  ، دوراں اور معاشرتی اصلاح ہی  کو اپنا منشور بنا  بیٹھے ہیں اور نوجوان نسل کے اشعار کو ان کا  بچپنا سمجھتے ہیں۔ان دونوں گروہوں کی چپقلش چلتی رہتی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو  انجمن ستائش باہمی کے نام سے پکارتے ہیں۔
 انجمن ستائش باہمی  یعنی  اپنے ہی گروہ کے ارکان کی تعریف میں قصیدے پڑھتے رہنے والے ۔ 
اس کا عملی مظاہرہ  ہری پور میں ہونے والے مشاعروں میں خوب دیکھنے کو ملتا  
جہاں دونوں حلقے ایک ساتھ ساتھ بیٹھ جاتی ہیں۔ اور جس کا شاعر سٹیج پر کلام سنانے جاتا   تو وہ گلا صاف کرنے کے لیے کھنکار بھی دے تو فضا واہ واہ کی آواز سے گونج اٹھتی ہے  اس کے لوگ داد دے دے کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔  لیکن جیسے ہی دوسرے گروہ کا شاعر آئے تو ان کو گویا  سانپ  سونگ گیا ہو لیکن دوسری طرف بزرگ شعراء اپنی جوانی کو یاد کر کر کے داد میں جوان شعراء سے بھی بازی لے  جانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اگرچہ اس میں داد کی آواز کم اور کھآنسنے کی زیادہ ہوتی ہے آخر میں ایسے مزاحیہ شعراء  کو بلایا جاتا ہے جن کو دونوں حلقے دل کھول کر داد دیتے ہیں۔ اور آخر میں دونوں انجمنیں گل مل جاتی ہیں۔۔دوران مشاعرہ بھی بزرگ شعراء  نوجونواں کے اشعار پر زیر لب مسکراتے ہیں اور نوجوان بھی  ان کے اشعار پر سر تسلیم خم کر لیتے ہیں اگرچہ ظاہری   طور پر جو بھی ہو دونوں حلقے اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر بہتر کام کر رہے ہیں ،عمر رسیدہ شعراء کو یاد ہے کہ انہوں نے بھی جوانی میں ایسی ہی  شاعری کی تھی  اور نوجوانوں کو  بھی اندازہ ہے کہ کل کو   انہیں بھی یہی شاعری کرنی ہے جو اج کے بزرگ شعراء کر رہے ہیں 

بلاگستان کا حال بھی کچھ عجیب ہے۔ یہاں دو انجمنیں بن گئی ہیں ،اس میں بھی دو گروہ بن چکے ہیں بلکہ  یوں کہا جائے کہ  زبردستی بنا دیئے گئے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
دونوں حلقے ایک دوسرے کو ادبی ادبی ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
حال یہ ہے کہ کسی بلاگ پر اس کی تعریف کر دی جائَے تو دوسرا حلقہ فتوے لگا دیتا ہے کہ یہ مخالف گروہ کا رکن ہے  اور ہاں جی اور جی ہاں کے سوا کچھ نہیں آتا اسکو،، اور اگر کسی بات سے اختلاف کر لیا جائے تو  حلقہ احباب بلاگ  زبردستی اس کو دشمن کا ایجنٹ  ثابت کر کے دوسرے گروہ کی صفوں میں  ٹھہرا کر ہی دم لیتے ہیں۔  بحث برائے بحث ، حجت برائے حجت، فساد برائے فساد اور کبھی تو جایلیت برائے جایلیت کی  ایسی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اور  جو کچھ لوگ اپنی تئیں کچھ اصلاح یا درست بات کی کوشش بھی کرتے ہیں ان کی آوازیں بھی اسی فتنہ کا حصہ بن جاتی ہیں اور  وہ آواز اپنا معنی و مقصد ہی کھو بیٹھتی ہے۔ اس لیے فتنے کے دور میں وہی عقلمند گردانا جاتا ہے جو خاموشی  اختیار کر لے

حسن اختلاف کا حسن اگر کھو جائے تو اختلاف بہت بھیانک شکل  اختیار کر لیتا ہے