June 21, 2011

سحر

ہم میں سے  سبھی لوگ کسی نہ کسی سحر کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں دانستہ یا غیر دانستہ۔ وہ سحر کسی کے خیال کا  ہو یا کسی کے جمال کا ۔ یا کبھی تنہائی میں اپنا ہی  خود ساختہ سحر  جس کا حصار اپنے گرد بن لیتے ہیں اور پھر وہی ہماری دنیا بن جاتی ہے ہمارا تخیل اس حصار سے باہر نہیں جا پاتا ہم اس کے سوا کچھ دیکھ پاتے ہیں کچھ نہ ہی سمجھ پاتے کچھ۔ اسی حصآر میں ہم اپنے سپنے سجاتے ہیں ہر چیز سے ہمارا تعلق اسی حصار کے ماتحت  ہو جاتا ہے ۔یہ حصار خود فریبی بھی ہو سکتی ہی اور راہ فرار بھی کہ آپ دنیا کی حقیقتوں سے چشم پوشی کرنا چاہتے ہیں ۔اور اس حصار کے پردے میں دنیا ہمارے سامنے سے چھپ جاتی ہے۔ لیکن  کسی بھی سحر کی ابتداء حقیقت سے ہی منسوب ہوتی ہے آہستہ آہستہ جب ہم اس کے حصار میں پوری طرح قید ہو جاتے ہیں اور اس کے غلام بن جاتے ہیں تو پھر اس  سے دوری کے تصور سے ہی خوف آنے لگتا ہے۔ لیکن ہر جادو کا توڑ ہے وقت ۔ اور وقت یہ حصار توڑ دیتا ہے اس سحر سے نکلنے کے بعد ایک نئی دنیا ہوتی ہمارے سامنے جو در حقیقت اصل دنیا ہے جو ہمیشہ ہی موجود تھی بس فقط ہم نے ہی  آپنی انکھوں پہ  پٹی باندھ کر اس کو خود سے دور کر لیا تھا۔
ایسے حصاروں میں ہم ہر چیز اپنی مرضی کی سوچتے ہیں اور کرتے ہیں جو کہ حقیقت میں ہوتی نہیں کبھی مگر ہم تصور پہ سب کچھ کر جاتے ہیں اور اس سے پوری طرح محظوظ ہوتے ہرتے ہیں۔ اس لیے جب حقیقت میں واپس آتے ہیں تو بہت مشکل ہوتا ہے خود کو اسی نئی دنیا میں  ڈھآلنا ۔ تب ہم واپس اسی سپنے کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ گزر چکا ہوتا ہے 
اور دنیا سے ہم لا تعلق ہونا چاہتے ہیں جو ہر لمحہ ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہوتی ہےایسے میں ہمارے جسم اور سوچ کا تعلق آپس میں کمزور ہو جاتا ہے سوچ کہیں اور ہوتی ہے اور جسم کہیں اور۔دو کشتیوں کے مسافر بن جاتے ہیں۔ ہم زہنی طور پر ابھی تک اسی سحر سے منسلک ہوتے ہیں جس کا فرضی وجود بھی ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اور بجائے ہم حقیقی دنیا مین لوٹنے کے ساری عمر خود فریبی میں گزار دینے کو ترجیح دیتے ہیں
ہماری سوچ یا تو اس حصار کے جو ہم سے کھو چکا ہوتا ہے اس کے دلفریب لمحے اپنی زہن میں سجا کر  اپنی زندگی اسی کے گرد سجا لیتی ہے تو ہم جہاں بھی چلے جائیں جو کچھ بھی مل جائے ہمارا سرمایہ وہی لمحات رہتے ہیں اس کے بعد جو بھی ملتا ہے وہ ہمارے لیے بلکل وقعت یا معنی نہیں رکھتا یا دوسری صورت میں اس حصار کے ٹوٹنے کی تلخی کے لمحات کے ساتھ ہمیشہ کے لیے رشتہ جوڑ لیتے ہیں اور ہمیشہ اس کے غم میں نڈھال رہتے ہیں پھر ہمارے لیے کچھ بھی خوشگوار نہیں رہتا ۔ ہر آنے والی خوشی کو ہم اس غم کی چادر میں لپیٹ کر چہرے پر ازلی ماتم سجا لیتے ہیں۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر جادو ، ہر سحر ، ہر خوشی ، ہر غم  کی حقیقت یہ ہے کہ اس نے نہیں رہنا

2 comments:

  1. کہنے والے بہت پہلے کہہ گئے

    تو ہی ناداں چند کليوں پر قناعت کر گيا
    ورنہ گلشن ميں علاجِ تنگیِ داماں بھی ہے

    ReplyDelete