August 4, 2010

گزشتہ سے پیوستہ

اپنے کالج میں چھپنے والے سالانہ شمارے میں ایک نظم چھپوائی تھی کل اس شمارے پہ نظر پڑی تو یہ بھی نظر آ گئی۔ دسویں کے امتحانات کے بعد فیض کو پڑھنا شروع کیا تھآ اور اس کے بعد فیض کے بڑے متاثرین میں شامل ہو گیا
اس کے عنوان اور مضمون سے یہی لگتا ہے کہ یہ فیض کی نظم "رقیب سے" پڑھنے کے بعد کوئی دورہ پڑا تھآ مجھے تو لکھی تھی غالبآ گیارویں جماعت میں لکھی تھی۔ اس میں فیض کے مختلف اشعار کے ٹوٹے ملائے گئے ہوں جیسے
آج پڑھ کر بے اختیار بہت دیر ہنستا رہا۔۔
"برائے مہربانی اس کو شاعری نہ سمجھا جائے"

عنوان:- "بنام فیض" ۔

واپسی کا سفر مشکل ہے

کٹھن ہے اپنے پاوں کے نشان پر چلنا

یاد آتے ہیںسفر ماضی کے عزاب

ملتے ہیں قدم قدم پہ مانوس چہرے

ہر زبان پہ ملتے ہیں سوال کئی

لیے ہوئے ہر سوال کئی تلخ حقیقتیں

ٹھوکر لگتی ہے پھر انہی پتھروں سے

جن کو کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

ملتا ہی پھر اسی کا نشاں

جس خون کو کبھی بہا کر گزرے تھے

آگے بڑھتے ہوئے چہروں پہ پھر وہی شرارت

جیسے ہم بھِی کبھی کسی پہ مسکرا کر گزرے تھے

اب چن رہے انہی خوابوں کی کرچیاں

جن کو غرور فتح یمیں کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

مگر احساس خوشبو ہے اب بھی پاس میرے

تیری حسین یاد ہے اب بھی ساتھ میرے

مگر یادوں کے سہارے گزاری نہیں جا سکتی

زندگی یاد جاناں سے سنواری نہیں جا سکتی

گو کہ ماضی کے حسین لمحے مرہم بنتے ہیں

مگر بےحال ، حال پہ ہنستے بھی تو ہیں

گو کہ اب بھی تیری یاد کو ترستی ہیں

انکھیںاب بھی تیرے لیے برستی ہیں

مگر یہ بھی سچ نہیں کہ تو ہی سبب غم ہے

تیرا زخم تازہ ہے مگر کم ہے

تیرے سوا بھی دیکھیں ہیں کئی قیامتیں

تیرے سوا بھی لگی ہیں کئی تہمتیں

تیرے ہجر سے بھی تلخ ہیں ستم افلاس کے

تیری انکھّوں سے بھی روشن ہیں غم روزگار کے



نوٹ:- اس شمارے میں ایک مضمون بھی آیا تھا میرا جس میں جاوید چویدری کا اثر نظڑ ا رہا ہے

اس وقت زیرو پوائینٹ ۳ تک آ گئی تھیں کتابیں یہ بھی ۲۰۰۲ کی بات ہے۔۔

وہ بھی لکھنا چاہوں گا جلد از جلد ۔۔

2 comments:

  1. ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں يا بعد ميں پيدا ہون والوں ميں زيادہ تر فيض احمد فيض سے بہت متاءثر ہيں کيونکہ اسے ديوتا بنا ديا گيا تھا

    ReplyDelete