یہ تب کی بات ہے جب میں شاید سولہ برس کا تھا سکول کی چھٹیاں تھیں سردیوں کی اور گائوں آیا ہوا تھا ۔ رات کو بیت خلا جانے کی حاجت ہوئی تو گائوں میں نقشے وغیرہ تو تھے نہیں اور بیت الخلا بھی بعد میں باہر کی طرف بنا ہوا تھا میں خاموشی سے اٹھ کر جونہی باہر نکلا تو سامنے ایک عورت کو کھلے بالوں کے ساتھ بہت وحشی انداز میں دیکھ کر میری حالت خٔوف سے غیر یو گئی ایک لمحے کے لیے کانپ ہی گیا لیکن خوش قسمتی کہیئے کہ جاندنی رات تھی اور میں پہچان گیا کہ یہ چڑیل نہیں ماسی باگاں ہے لیکن ماسی بھاگاں سے بچے تو کیا اکثر بڑے بھی ڈرتے تھے مشہور تھا کہ اس کو سردیوں کے موسم میں جن یا پری آ جاتی ہے اور گرمیوں میں چلی جاتی ہے۔ سخت سردی میں ماسی بھاگاں نے صرف عام سے
کپڑے ہی پہن رکھے تھے اور چپل لیکن وہ بال کھولے ایک عجیب اور سرور و مستی کی کیفیت میں تھی اس نے ہاتھ کھول رکھے تھے اور اس کے بال تیز ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ تیز ہوا کے طمانچوں کو اپنے چہرے میں محسوس کر رہی تھی اور ایک عجیب سی سرشاری تھی اس کے چہرے پہ۔ اس نے مجھے یکسر نظر انداز کیا اور چلی گئی۔ میں اس کو جاتا دیکھتا رہا میں نے اس کے جانے کے بعد اس کی سی کیفیت میں ویسے ہی ہوا کو محسوس کرنا چاہا مجھَے بہت عجیب سا احساس ہوا ، اگلی صبح مجھے بہت تیز بخار تھا۔۔
ماسی باگاں گرمیوں کے موسم میں گھر کے سارے کام کرتی تھی ساتھ بکریاں اور بھینسیں پالنا ، لکڑیاں کاٹنا اور کھیتوں میں گاس وغیرہ سبھی اور بہت اچھی طرح ملتی ملاتی سب سے۔ لیکن سردیوں میں جاڑے کے موسم میں ماسی بھآگاں کی طبیعت عجیب ہو جاتی تھی سب کہتے کہ یہ جن آسیب یا کوئی پری ہے ماسی کے ساتھ جو صرف جاڑے کے موسم میں آتی ہے کہونکہ ماسی جوانی میں اس موسم میں رات کو کام کرتی تھی
میں فرسٹ ایئر میں ہاسٹل میں تھا تو مشتاق صآحب میرے استاد محترم مجھَے سریوں کی راتوں میں رات گئے بلا لیا کرتے تھے جہاں چھوٹی سے محفل ہوتی میرے کچھ اساتزہ کی ۔ وہ مجھے فیض کا نسخہ ہائے وفا کا کوئی حصہ بتاتے اور میں پڑھتا ۔ میری اصلاح بھی کرتے پڑھنے کا سلیقہ بھی انہی سے سیکھا۔
لیکن وہ ایک بات کہتے ہمیشہ کہ شاہ جی راتوں میں تیرا لہجہ عجیب ہو جاتا ہے ۔ وہ سب بہت مسحور ہو کر سنتے مجھے ۔ خود بھی بہت کچھ سناتے ۔مجھے کم ہی کسی چیز کی سمجھ آتی تھی تب۔
وہاں انگریزی کے استاد حمید الرحمن صاحب بھی آتے انہوں نے مجھے ہیملٹ دیا اور کہا کہ یہ پاس رکھو، پڑھو اور سمجھو ۔ میرے لیے وہ پڑھنا ممکن نہیں تھا ۔ سمجھ کہاں آنی تھی مجھے ۔انہوں نے مجھے ہیملٹ کا کردار اور پوری کہانی سمجھائی پھر پڑھایا بھی کافی حد تک مجھَے۔ میں نے اس کی ایک پرانی فلم بھی دیکھی اور ہیملٹ میرے زہن میں رچ بس گیا۔ مجھے اپنی زات کا عکس نظر آنے لگا ہیملٹ میں اور آج بھی آتا ہے ، میں اب بھی سردیوں کی رات میں جاگ اٹھتا ہوں رات گئے ۔ اور مجھے یہی لگتا ہے گویا میں ہی ہیملٹ ہوں ۔ اور میں اپنے زہن کے بھوت سے ہمکلام بھی ہوتا ہوں ، ہر وہ زہن جس میں میلنکلی ہے وہ ہیملٹ کا ہی کردار ہے اور ہر زہن کے ساتھ ایک بھوت ہے ، اور یہ ہوتا بھی اسی موسم میں ہے ۔ اسی موسم میں مجھے فیض دوبارہ سے یاد آتا ہے۔ میں پوری پوری رات اس کو پڑھتا رہتا ہوں۔عجیب بے قراری اور بے چینی سے ہوتی ہے۔ ایک بے چین روح کی طرح مچلتا رہتا ہوں، اس کے ساتھ انہون نے مجھے آئن سٹائن کا "دا ورلڈ ایز آئی سی اٹ" انتہائی تفصیل سے سمجھایا لیکن میرا زہن اس کو قبول نہ کر سکا۔ ۔مجھے نہیں معلوم مشتاق صآحب اور حمید الرحمن صآحب نے دانسہ مجھے ہیملٹ اور فیض میں دھکیلا یا مجھَے اس کی ضرورت تھی ۔ شاید مجھَ اس کی ضرورت تھی۔ یہ میری میلنکولی کو اطمینان دینے کی راہ تھی بلکل ایسے ہی جیسے مائی بھاگاں اپنی میلنکولی کو پر سکون کرنے کے لیے سرد راتوں کو تیز ہوائوں اور سردی سے جا ٹکراتی تھی
پچھلے دنوں پتہ چلا کہ ایک سرد رات کو ماسی بھاگاں ایک کھیت میں ٹھٹھر کر مر گئی ۔ سب اس کی ایسی موت پر افسوس کر رہے تھے لیکن مجھے لگا کہ ماسی نے خود ایسی موت چاہی تھی ۔ اس سرد رات میں تیز ہوائوں کی چبھن اور سردی نے مائی کی مینکولی کو اتنا مطمئن کیا کہ اس نے اسی سرور میں اپنی جان دے دی۔
مرنا سب نے ہی ہوتا ہے لیکن مائی نے اپنہ مرضی کی موت لی ۔ ایک ایسی کیفیت کے دوران کہ جو وہ صرف اپنے لیے کرتی تھی، اس کی بے چین روح کو جاڑے کی سرد راتوں میں ہی سکون ملتا تھا ۔مجھَے اس کی موت کا کافی دکھ ہوا کہ مجھے میری میلنکولی سے روشناس کرانے والی ماسی بھاگاں ہی تھی۔
انا اللہ وانالیہ راجعون
ReplyDeleteاپنی شرائط، مرضی پر جینے والے کے بارے کہا جاتا ہے کہ اسے قیمت چکانی ہی پڑتی ہے۔ یہ عام دنیا کا خیال ہے ورنہ اپنی مرضی/شرط پر جینے والا اس قیمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
ReplyDeleteماسی بھاگاں، اپنی مرضی سے جینا جانتی تھی اور اس موت کے لیے وہ تیار بھی تھی اور انتظار میں بھی۔
انسان، جب اپنے ساتھ ہوتا ہے تو وہ بقایا کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے۔ تو رات کو اپنے ساتھ ہوتا ہے تو باقی کے سب کے لیے عجیب۔ دیوانے اور مجنوں لوگوں کو دنیا نہیں سمجھتی، وہ ان کے لیے ہر وقت عجیب ہوتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت صرف اپنے ساتھ ہوتے ہیں۔
بھائی صاحب آپ خیال کرنا۔ جیکٹ ویکٹ پین کر گھر سے نکلا کریں۔
ReplyDeleteبہت اچھا لکھا ہے پر سچی پوچھیں تو آپ کا خود کو ماسی باگاں سے تقابل بالکل اچھا نہیں لگا۔
دیوانگی میں بھی بڑی کامیابی ہے میرے خیال میں
از جمال
ReplyDelete...
اس سرد رات میں تیز ہوائوں کی چبھن اور سردی نے مائی کی مینکولی کو اتنا مطمئن کیا کہ اس نے اسی سرور میں اپنی جان دے دی
...
سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ کام شعوری سطع پر انجام دے رہی تھی اور اس صورت حال سے شعوری سطع پر لطف اندوز ہو رہی تھی یا نہیں اور جو کچھ وہ کر رہی تھی اسے کے نتایج و عواقب سے بھی واقف تھی ؟ کیا وہ اس "کام" کو نظر اندازکر سکتی تھی؟ یا اسے اپنے آپ پر یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ یہ "کام" آج نہیں کل انجام دے لے
عنایت اللہ صاحب ایک ایسے فرد تھے جنہوں نے ہمیں کچھ ایسی کہانیاں اکھٹی کر کے دی ہیں جن سے ہم عموما ناواقف رہتے ہیں، ان کے بعد ایک عمیق خلا ہے، جسے اب آ کر ٹیلیویژن نے کم کیا ہے، عنایت اللہ صاحب نے اپنی اکثر معاشرتی کہانیاں جیل خانوں میں قیدیوں کی مدد سے اکھٹی کی تھیں- میرا خیال ہے کہ مندوجہ ذیل واقعہ میں نے انہی کے توسط سے پڑھی تھا-
ایک واقعہ میں وہ ایک ڈاکو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک غریب دیہاتی تھا، اپنے بچے کے اصرار پر بڑی مشکل سے پیسے جمع کر کے بسنت میں رنگ اور پچکاری لے کر آیا، اور بچے کو دی، اس کے بچے سے زمیندار کے کارندے نے زمیندار کے بچے کے ضد کرنے پر چھین کر اسے دے دی- دیہاتی کسان طیش میں آ گیا اس نے غالبا کارندے یا زمیندار کو قتل کر دیا اور خود بھاگ گیا اور اپنا گروہ بنا کر زمینداروں کو لوٹنے لگا- غالبا اس کے بیوی بچے بھی مارے گیے، بہرحال سب کچھ ٹھیک تھا مگر بسنت کے دنوں میں وہ ڈاکو ایک خودفراموشی کے عالم میں باہر نکل آتا اور رنگ کھیلتا اس وقت اسے خود بھی پتہ نہ چلتا کہ وہ کیا کر رہا ہے، اسی حالت میں وہ گرفتار ہوا اور پھانسی چڑھا-
اسی طرح جب میں نے ایک گھر کراے پر لیا اور اور کچھ عرصے بعد 14 اگست کے موقع پر اسے سجانا چاہا تو ان کی اہلیہ نے آ کر درخواست کی ، کہ میں اس موقع پر کوی آرایش نہ کروں میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان بنتے ہوے ہمارے مالک مکان اپنے والد صاحب کے ساتھ پاکیستان آ گیے لیکن والدہ وہیں رگییں اور نہ آ سکیں ، تب والد صاحب نے انہیں طلاق دے کر دوسری شادی کرلی، یہ ناراض اور پریشان ہو کر ہندوستان گیے تو وہاں والدہ نے دوسری شادی کر لی اور انہیں واپس پاکستان آنا پڑا-اب جب بھی 14 اگست آتا ہے یہ پریشان ہو جاتے ہیں اور بہت الجھ جاتے ہیں اس دن ان کی کیفیت عجیب ہو جاتی ہے اس لیے اس دن ہم انہیں باہر نہیں جانے دیتے انہیں کمرے سے باہر نہیں نکلنے دیتے اور ٹیلیویژن وغیرہ سب بند رکھتے ہیں-
مندرجہ بالا دونوں واقعات سے خاصے واضح نتایج اخذ کیے جاسکتے ہیں-
جمال
بہت نائس ، بہترین ۔
ReplyDeleteہیملٹ و مالیخولیا, اچھا لکھا ہے۔
ReplyDelete