March 18, 2011

واردات ۔گاڑی نمبر آئی سی ٹی : ۱۲۳

نوٹ : یہاں کرداروں کے فرضی  نام استعمالے گئے ہیں ، کمزور دماغ لوگ مت پڑھیں ۔۔۔۔۔

 کل (مورخہ سولہ مارچ بوقت چار بج کر پانچ منٹ سہ پہر) جب چھٹی کے وقت  میں دفتر کے گیٹ سے باہر نکلا اور پارکنگ کی طرف  جا رہا تھا کہ رستے میں عمیر مل گیا ، میں اور عمیر ایک ہی گاڑی  میں آتے ہیں۔ اور ہمارے علاوہ چار مزید لوگوں کو وہ گاڑی  پک اینڈ ڈراپ دیتی ہے۔۔ عمیر نے مجھ سے کہا کہ آج کسی کو پھانستے ہیں بہت دن ہوئے کسی سے کچھ کھائے ہوئے ، میں نے کہا کہ آسان ہدف تو احمد ہے ہماری گاڑی کا ممبر کسی نہ کسی بات پر اسکو پھانس کر بلی اس کے سر ڈال دیتے ہیں۔ لیکن وہ بولا کہ احمد  اب بہت سیانا ہو گیا ہے اور اس سے جب بھی کچھ کھلانے کا کہو وہ امجد کا نام لیتا ہے کہ اس کے سر بہت سی پینلٹیاں رہتی ہیں پہلے وہ کھلائے تب میں کھلائوں گا اور امجد سے پیسے نکلوانا جوئے شیر بر لانے کے مترادف ہے بہرحال ہم دونوں منصوبے  پر سوچتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئے۔ احمد کی قسمت کہ وہ دس منٹ لیٹ ہو گیا اور اس کے سر ہم نے پینلٹی ڈال دی ۔ لیکن وہ اپنی اسی گردان پر بضد ہو گیا کہ پہلے امجد  پیینلٹی دے تب میں دوں گا۔ وہ کسی طور پر مان نہیں رہا تھا  تو میں نے احمد کو کہا کہ جتنے تم دو گے امجد اس کے ڈبل دے گا ، امجد نے مجھے گھورا تو اسکو آہستہ سے کہا کہ تم کو میں باقی سب سے کنٹریبیوٹ کروا کر دے دوں گا۔ ابھی احمد کے سامنے تم پیسے دے دو کہ احمد کی تسلی ہو جائے اس پر امجد مان گیا ۔ ساتھ ہی عمیر کو مسیج کیا کہ امجد سے بڑی مشکل سے پیسے نکلوائے ہیں اسکو واپس نہیں کرنے ۔ وہ بھی سمجھ گیا ۔ خیر پانچ سو احمد سے لیے اور  اس کے ڈبل یعنی ہزار امجد سے اور احمد کو ساتھ لے کر میں اور عمیر آڈر دینے چلے گئے رستے میں احساس ہوا کہ پیسے کچھ کم ہیں تو میں نے احمد کا دیا ہوا ہزار کا پورا نوٹ رکھ لیا اور اسکو کہا دیکھو  تم اور امجد دونوں مل کر ٹریٹ دے رہے ہو تو انصاف ہونا چاہیے اور تم دونوں برابر پیسے دو۔ اور اس کو ہزار پر قائل   کر لیا۔ آڈر دیا جو اٹھارہ سو تک بنا ، وہ گاڑی میں کھآیا پیا اور چل پڑے اب امجد دیکھ رہا تھا کہ ہم پیسے دیں گے لیکن وہ ہم نے دینے تھے نہ دیئے اور وہ احمد کے سامنے بول نہیں سکتا تھا وقتی طور پر سو چپ رہا۔  اور رستے میں ہی احمد نے کہا کہ آج سے دیر سے آنے والے ہر بندے پر سو روپے جرمانہ ہو گا جس پر سب مان گئے اور سب اپنے اپنے گھروں کے پاس اتر گئے ۔

 آج (مورخہ  سترہ مارچ بوقت چار بجے سہ پہر) واپسی پر گاڑی میں احمد نہیں تھا اور امجد اور جاوید   گاڑی میں لیٹ آئے۔ جاوید کل موجود نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس سے سو روپے جرمانہ لیا جب امجد سے جرمانہ مانگا تو احمد کی غیر موجودگی میں وہ اپنی رقم کا تقاضا کرنے لگا کہ میری رقم واپس کرو جو اضافی تھی تو عمیر بولا کہ بل زیادہ بنا تھا  تو ہم دونوں نے اس میں اپنے پاس سے پیسے ملائے تھے  یہ جھوٹ اس لیے کہ امجد سے پیسے نکلوائے جا سکیں امجد بولا کتنا بل بنا تھا تو عمیر نے بڑھا چڑھا کر  تیئیس سو تک پہنچا دیا ۔ اور کہا کہ باقی پیسے ہم نے ڈالے ہیں۔ لیکن امجد ماننے والا کب تھا وہ بولا کہ تیئس سو میں سے احمد کے پانچ سو نکال دو تو   پیچھے اٹھارہ سو کو تین پر تقسیم کرو ۔۔اور چھ سو بنتے ہیں تو وہ بولا کہ میں نے ہزار دیئے تھے مجھے دو دو سو تم دونوں واپس کرو۔۔ تب میںنے کہا کہ تم نے پانچ سو دیئے تھے اور احمد نے ہزار دیئے تھے امجد نے شور مچا دیئا کہ نہیں اس نے ہزار دیئے تھے اور احمد نے پانچ سو ۔ اور ہمیں کہا کہ وہ اس پر شرط لگانے کو تیار ہو گیا ۔  شرط ہارنے پر عمیر ہزار دے گا ورنہ  امجد۔ میں نے کہا تھیک ہے ابھی موبائل کے سپیکر پر احمد کو فون کرتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ اس نے کتنے پیسے دیئے تھے کل۔ اور صرف یہی بات پوچھیں گے اگر اس نے کہا کہ ہزار تو امجد ہزار روپے دے گا ورنہ عمیر دے گا۔ میں فون ملایا اور احمد سے پوچھآ تو احمد نے کہا کہ اس نے کل ہزار روپے دیئے تھے۔ یہ سن کر امجد کے اوسان خطا ہو گئے۔ پہلے تو ماننے  کو ہی تیار نہ ہوا پہ بات بلکہ خود کنفیوز ہو گیا۔۔ ہمارے موبائل میں بھیجے گئے ایس ایم ایس چیک کرنے لگا۔ چار و ناچار اس کو مزید ہزار روپے دینے پڑے ۔ اور گاڑی سے اترتے وقت تک یہی کہتا رہا  تم لوگوں نے کوئی ڈرامہ کیا ہے۔ اور اس کی حالت عجیب ہو رہی تھی۔ بے چارہ حیران و پریشان ہمیں دیکھ رہا تھا،  اور اس پوری واردات کے دوران میرا اور عمیر کا ہنس ہنس کر برا حال ہو رہا تھا۔۔

سبق:  کسی سے پیسے نکلوانا بہت اوکھا کام ہے۔

3 comments:

  1. تحریر زمرہ کے عین مطابق ہے یعنی دماغ کی لسی مغز کی چٹنی

    ReplyDelete