December 29, 2011

ماہ و سال

لو جی یہ سال بھی گززر گیا ہے ۔ اپنی ٹو ڈو لسٹ جو سال کے شروع میں بنائی تھی اس کو کھولا تو پتہ لگا کہ جو کام اس سال پورے کرنے کی ٹھانی تھی جوں کے توں اپنی جگہ پہ موجود ہیں۔ ان کو مکمل تو کیا ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا۔ ہاں البتہ  کچھ تبدیلیاں دو ہزار دس کی لسٹ میں ضرور ہو گئیں ہیں وہ کام جو 2010 کی ٹو ڈو لسٹ میں اپنی طرف سے پورے کر چکا تھا وہ دوبارہ سے منہ کھول کر سوالیہ نشان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔پچھلے کچھ سالوں کی ٹو ڈو لسٹ کھولی تو دیکھا کہ قریب ایک ہی طرح کی چیزیں ہیں میری ٹو ڈو لسٹ میں کسی کو ایک سال پورا کر دیتا ہوں اور کسی کو اگلے سال اور پھر دوبارہ کسی سال کھول کر نئے سرے سے انی کاموں کا اندراج کر لیتا ہوں اور ایک ہی چکر میں گھومے جا رہا ہوں ۔ شاید کنویں کا مینڈک یہی ہوتا ہے۔
اب سوچ رہا ہوں کہ اگلے سال کی ٹو ڈو لسٹ بنانی ہی نہیں ہے میرے خیال سے ٹو ڈو لسٹ سے کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا سوائے اسکے کہ ہر تین مہینے بعد کسی رات آپ بھڑک کر اپنی ٹّوڈو لسٹ کھول بیٹیھیں اور خود کو گھنٹہ دو گھنٹہ کوسنے اور برا بھلا کہہ کر پھر لمبی تان کر سو جائیں۔ کسی سال سے میں ہم کیا حاصل کرتے ہیں اس کا تعین کرنا کبھی کبھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اپنے ماہ و سال بھی کبھی اپنی گرفت سے نکلے دکھائی دیتے ہیں گویا ہم انہیں نہیں وہ ماہ و سال ہمیں گزار رہے ہیں۔ ہمیں گزرتے سالوں کا شمار نہیں رہتا اور ان کے گزرنے کی تصدیق کے لیے ہم مختلف ریفرنس رکھ لیتے ہیں ہر کسی کا ہر عمر میں اپنا ہی ایک ریفرنس ہوتا ہے۔ میرے لیے سب سے آسان زمانہ طالب علمی تھا ہر سال ایک نئی کلاس ، ہر سال میری  بدلتی جماعت میرے  لیے نئے سال کی خوشخبری ہوتی تھی اور سال بھر کا خلاصہ تین مہینے کی چھٹیاں ، گائوں جانا ، سکول کے ٹرپ کی داستان ، اپنے سکول کا گیمز پیریڈ، سالانہ گیمز اور سکول کے وہ فنکشنز جن میں حصہ لیا ہوتا وہ تھے۔پھر گزرتے وقت کے ساتھ خلاصہ ختم اور صرف سال کے گزرنے کا ریفرنس رہ گیا ۔ اور اب تو اس کا احساس بھی مدہم ہو گیا ہے۔
 اپنے ایک دوست سے پوچھا تو وہ اپنے سالوں کا ریفرنس اپنے بیٹے کی نئی جماعت کو رکھ چکا ہے جب اس کا بیٹا اگلی جماعت میں جاتا ہے تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ ایک سال گزر گیا ۔ میرے خیال سے تو اسکو  اپنے بیٹے کا احسان مند ہونا چاہیے کہ وہ پاس ہو جاتا ہے ورنہ میرے جیسا زہیں برخودار  ہوتا تو ایک جماعت میں تین سال تو کم سے کم لگاتا۔ اور ان  حضرت کا ایک سال تین سالوں کے برابر ہوتا ، کوئی اپنے ریٹائرمنٹ کے سال گن رہا تو کوئی اپنی پروموشن کے ۔پردیس میں رہنے والے واپس گھر آنے کو اپنا ایک سال سمجھتے ہیں چاہے وہ ایک سال بعد آئیں یا تین سال بعد ، کوئی چہرے کی جھریاں شمار کرتا ہے تو کوئی بالون مین اتری چاندی۔ غرض ہر کسی نے ایسا ہی کوئی نہ کوئی کھوکھلا سہار رکھا ہوا ہے ان سالوں کے شمار کا ۔۔
  مجھے کبھی کسی سے ایسا جواب نہیں ملا جس کو سن کر میں نے سوچا ہو کہ ہاں یہ سال اس آدمی کا تھا اور اس نے سال کو گزرتے ہوئے محسوس کیا ۔ ہر کوئی اپنے سال کا اثاثہ  بتانے سے قاصر نظر آتا ہے۔

3 comments:

  1. یہ گزرتے وقت کا گورکھ دھندہ ہے ہی کچھ ایسا جناب۔یہی لگتا ہے کہ وقت ہمیں گزار رہا ہے۔

    باقی رہی بات ٹوڈو لسٹس اور نیو ایئر ریزولوشنز کی تو اس سب کا کچھ فائدہ نہیں۔ فائدہ اسی میں ہے کہ جو کرنا ہے وہ شروع کر دیا جائے۔پھر اسے جاری رکھا جائے جب تک کہ اس کام کی تکمیل نہ ہو جائے۔اور شروع ابھی ہی کر دینا چاہیئے، آج ہی۔ اس کے لیے کیلنڈر کے کسی خاص نمبر کا انتظار کرناسراب ہے۔

    ReplyDelete
  2. عمر باقی صحبت ٹو ڈو لسٹ باقی

    ReplyDelete
  3. او بھائی یہ ٹو ڈو لسٹیں تو بورژوا طبقے کی نشانیاں ہیں۔ مزدور پیشہ [یعنی میں] لوگوں کو تو سال گزرنے کا پتہ یکم جنوری کی چھٹی سے ہی لگتا ہے
    اور جہاں تک اثاثے کا سوال ہے جانی تو انسان تو خسارے میں ہے پیارے۔ تو کہاں کے اثاثے اور کہاں کے فائدے۔

    ReplyDelete