April 27, 2011

آج

موت کی بھی عجیب حقیقت ہے ہر  جاندارکو علم ہےکہ اس کو موت آنی ہے لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ اس کو کب آنی ہے۔ ساعت موت کا علم اگر ہو جائے تو انسا ن سب کچھ بھول کر کنارہ کش ہو جائے لیکن  یہ لاعلمی ہی کئی لوگوں کو اس گھمنڈ میں مبتلاکر دیتی ہے کہ شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ جیئیں گے ۔
کل ایک کتاب پڑھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اگر مجھے یہ علم ہو جائے کہ میں چوبیس گھنٹے بعد  مر جائوں گا تو  میں کیسےجیئوں وہ جوبیس گھنٹے۔ اپنی زات کو جسےمیں نےزہنی اور نفسیاتی تجربہ گاہ بنا رکھا اس کو چوبیس  گھنٹے کی موت کا عندیہ دیا لیکن خود کو یہ احساس دلانا بہت مشکل نظر آیا ۔ موت جو کہ اگلے ہی لمحے آ سکتی ہے میں خود کو یہ یقین نہ دلا سکا کہ میں چوبیس گھنٹے بعد مر جائوں گا اور یہ آخری چوبیس گھنٹے ہیں میری زندگی کے۔   خود کو احساس دلانے کی کوشش لگا تار کئی گھنٹے کرتا رہا لیکن وہ کیفیت  اور احساس پیدا ہی نہ ہو سکا جانے کس چیز کا یہ دھوکا تھا کہ میں گماں کیے بیٹھے تھا کہ  میں تو بہت جیئوں گا ابھی۔
ہار کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اگر میں یہ سوچ لوں کہ میری پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں زندگی کے تومیرےلیے  دنیا کیسے بدلے میرے گماں میں ، میں فرض کر لوں ۔ ہاں اگر میں یہ سوچ لوں ایسا۔
اگر میں ایسا سوچ لوں توکیا عجب تازگی کا احساس ہوکہ  میری زندگی میں آنے والا کل نہ رہے اس کل سےجڑےاندیشے خوف اور سوال نہ رہیں۔  جو اپنے کل کو سنوارنے کے لیے میں اپنا آج گنوا رہا ہوں وہ نہ گنوائوں۔
 پھر جو میں یہ سوچوں تو میں اپنے گزرے ہوئے کل سے پیچھا چھڑا لوں اس کی تلخیاں ، ستم اور محرومیاں بھلا دوں ، اپنی زات پہ لگے ماضی کے زخم ہی مٹا دوں کہ اتنا وقت ہی ہو کس کے پاس اس سب کے لیے، یہ تو بے کار لوگوں کا پیشہ سمجھوں۔
جو میں یہ سوچوں تو پھر دل  سے حسد کینہ و نفرت کی ساری کالک مٹا دوں ،  اس دل کو دھو کر آئینہ بنا دوں۔  سراپا محبت بن جائوں ، جن کو میں پوجتا رہا ہوں صدیوّ ں، اپنی انا کے ان بتوں کو  نست و نابود کردوں انکا نام ہو نشان مٹآ دوں، روح سے پھوٹے وہ روشنی میری روح سے کہ ہر سمت اجالا ہو جائے۔ جہاں بھی جائوں محبت ہی محبت ہو جائے۔

جو میں یہ سوچوں تو دیکھوں اپنے ارد گرد  تو سامنے اپنا والد  نظر آئے ، سالوں کی محبت جس کو میں کبھی  الفاظ نہ دے پایا ہمیشہ آنے والے وقت پہ ٹالتا رہا ، اس کے سامنے کروں یوں بیان کہ سماں میرے اوراسکے آنسوئوں سے جل تھل ہو جائے۔ منظر جو بدلےتو  اپنی ماں دیکھوں وہ بار ملازمت جو میں نے اس کے پائوں میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اٹھایا تھا ، جس نے فقط مجھے اس سے دور ہی کیا تھا ۔ اس بار کو پھینکوں اور ماں کے قدموں سر رکھ کر اپنی آخری نیند سو جائوں۔۔ پھر جو آٹھوں تو سامنے پائوں  اپنے بہن بھائیوں کو  اپنا ہستی تک سمیٹ کر ان کے حوالے کر دوں۔ ان کے غموں کے بدلے اپنی خوشیاں بیچوں، ، باہر جو نکلوں اپنے سارے یار ،انکے ساتھ مل کر  میلہ سجا دوں ۔ وہ کھیل کھیلوں کہ جھوم اٹھیں فضائیں ، اپنے پیاروں کے قہقوں کو گھٹائوں کا ترانہ کر دوں
اک ایک ساعت جیئوں ، اک اک پل جیئوں ، ہر پل میں ہزار رنگ جیئوں  بے فکر معاش و افلاس جیئوں۔ زمان  و مکان سے آزاد جیئوں  ، راحت و آسائش سے بے مراد جیئوں ۔ ایسے جیئوں کہ جینے کا حق ادا کردوں۔ 

اور پھر جب  میں سوچوں کہ ہوں میری پاس فقط چند  آخری گھڑیاں اس ڈھلتے دن کی ، تو میں اپنے رب کے حضور خود کو اس شدت جزبات و انکساری سے  پیش کروں۔ پھر وہ بندگی ،حاضری و حضوری ہو  اس خالق دو جہاں کے سامنے  کہ فرزشتے بھی جان جائیں کیون آدم کو خلفہ بنا کر زمیں پہ بھیجا گیا ۔ جب  پڑھوں نماز تو ایسی کہ معراج ہو جائے  اور  پھر جب رکھوں سر سجدے میں تو عرش کے فرش بھی کریں  فخر اور اس  سجدے میں ہی قیامت ہو جائے۔

پھر  جو میں اگر سوچوں کہ زندگی کا ہر روز آج ہے تو زندگی کتنی سہل ہو جائے

12 comments:

  1. مجھے اگر پتہ چل جائے کہ آج میرا آخری دن ہے تو میں کسی کو نہیں بتاؤں گی ۔۔۔ ویسے زندگی کا آخری دن سوچ کر یہ سب کیا جائے تو فائدہ ۔۔۔ کیوں نہ جس سے جو کچھ کہنا ہے اس کا اظہار ہمیشہ کرتے رہا جائے تاکہ آخری دن کا پتہ لگ بھی جائے تو دل مطمئن ہو کہ بہت سارے کام نہیں کرنے ۔۔۔ صرف گناہوں کی معافی مانگنی ہو اس دن ۔۔۔

    ReplyDelete
  2. اگر زندگی کا آخری دن معلوم پڑ جائے احساس پیدا ہو جائے۔
    تو ناامیدی کا احساس پیدا ہوگا۔ناامیدی مایوسی کو پیدا کرے گی۔مایوسی سے کفر پیدا ہوگا۔
    کفر چوبیس گھنٹے پورے ہونے سے پہلے ہی کفر کروادے گے۔
    یعنی خودکشی۔

    ReplyDelete
  3. میں تو اللہ کی یاد میں ڈوب ڈوب جاؤں

    ReplyDelete
  4. منفرد تحریر ہے! تاہم غور کیجئے گا کہ یہ صورتحال محض چوبیس گھنٹے سے مختص نہیں۔ مثلاً اگر آپ کو یقین ہوجائے کہ آپ آج سے ٹھیک بیس برس بعد انتقال کرجائیں گے تو تب بھی آپ کی ذہنی کیفیت کم و بیش یہی ہوگی جو آپ نے فی الوقت بیان کی ہے۔ دراصل یہ لاعلمی اور غیر یقینی ہے جو انسان کو دھوکے میں رکھتی ہے۔ مذکورہ خطوط پر سوچ کو مرتکز کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قبرستان کا چکر لگایا جائے۔ عموماً مردے کی تدفین کے وقت یہ کیفیت طاری ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. ایسے جیئوں کہ جینے کا حق ادا کردوں۔

    بہت خوب۔ آپکے احساسات بہت نفیس ہیں۔ اسلئیے آپ موت کو نزدیک محسوس کر کے یوں سوچتے ہیں۔ ورنہ تو جدہر دیکھیں لگتا ہے کہ لوگوں کو مرنے کا خوف اور خوف خدا ختم ہوچکا ہے۔

    ReplyDelete
  6. موت انسان کیلیے واقعی ایک عجیب و غریب موضوع ہے، اس پر جتنا غور کرو اتنا ہی عالمِ تحیر بڑھتا جاتا ہے۔ ایک قدیم یونانی فلسفی "ایپیکوریس" نے کہا تھا

    "So death, the most terrifying of ills, is nothing to us, since so long as we exist, death is not with us; but when death comes, then we do not exist. It does not then concern either the living or the dead, since for the former it is not, and the latter a"

    کیا خوبصورت بات ہے کہ موت سے کیا ڈرنا، جب ہم ہوتے ہیں تو موت نہیں ہوتی اور جب موت ہوتی ہے تو ہم نہیں ہوتے۔

    اور اپنے علامہ اقبال فرماتے ہیں

    ع - موت اک چھبتا ہوا کانٹا دلِ انساں میں ہے

    ReplyDelete
  7. بس کردے یار
    تو کیوں ایک اور ٹینشن دے رہا ہے
    پہلے تھوڑی ہیں
    اچھا بھلا موت کو بھولے ہوئے ہیں
    تو مزا کرکرا نہ کر

    ReplyDelete
  8. زيادہ تر لوگ عقلمند ہوتے ہيں اور تعليميافتہ ہوتے ہيں ۔ ميں ايک تو دو جماعت پاس ہوں پھر پاگل بھی ہوں ۔ ساری زندگی يہی سوچا کہ بس آج آخری دن ہے کرنا ہے جو کر لے ۔ مگر اللہ کو ناجانے کيا منظور ہے کہ ايک نہيں دو نہيں پانچ بار موت کے منہ سے نکل آيا اور لوگ حيران ہوئے ۔
    لوگ کہتے ہيں
    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہيں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہيں

    مجھے ايک بار ايک بزرگ کہنے لگے "کچھ کل کيلئے بچا لو"۔ ميں نے جواب ديا "کل کس نے ديکھا ہے ۔ آئے يا نہ آئے"۔ وہ بزرگ ميری بات سے پريشان ہوئے ۔

    اسی لئے ميں آج کا کام کل پر چھوڑنے کے حق ميں نہيں ہوں کہ کون جانے کل آئے يا نہ آئے

    کسی نے کہا ہے
    موت تجديدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
    خواب کے پردے ميں بيداری کا اِک پيغام ہے

    ReplyDelete
  9. @عمر
    Veronika decides to Die
    by Paulo Coelheo..

    ReplyDelete
  10. امتیاز بھائی۔۔۔ موت کے بعد بھی ایک نئی زندگی ہے۔۔۔ اور وہ زندگی قیامت تک رہے گی۔۔۔ پھر موت نا ہوگی۔۔۔اور اس زندگی کے آرام دہ اور تکلیف سے بھرپور ہونے داررومدار ہماری اس زندگی پر ہے۔۔۔ ہمیں بہت وقت پہلے ہی مل چکا ہے۔۔۔ ایک دن میں ہم اپنی اس زندگی کے مقصد کو کیسے پا لیں گے اور کیسے تکمیل تک پہنچا دیں گے۔۔۔ ویسے تو اللہ کی زات غفور الرحیم ہے۔۔۔ کبھی بھی کسی کو ساری زندگی کے گناہ بخش دیتی ہے۔۔۔ لیکن ہمارا ایک ایک پل ہمارا امتحان ہے۔۔۔ اور موت کی تیاری ہے۔۔۔ اللہ ہم سب کو بخشے۔۔۔ آمین۔۔۔

    ReplyDelete