January 10, 2011

سفر نامہ - دودي پت سر

رات کے پچھلے پہر ہم چار دوست اپنے ہوٹل کے کمرے ميں موجود تھے، منصوبہ کے مطابق ہم نے  ساتھ لے جانے والي ضروری اشياء کي فہرست بنائي اور صبح سويرے 7 بجے کيمپنگ کے ليے ناران سے جھیل دودی پت سر روانہ ہونا تھا اپنے منصوبہ کا لائحہ عمل تيار کرنے کے بعد ہم سو گئے
اگلي صبح انکھ کھلي تو دس بج رہے تھے ، رات کے منصوبہ ميں الارم لگانے کي بات کي گئي تھي ، ليکن يہ راز بھي صبح آشکار ہوا کہ فقط رات کو  الارم لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ الارم  لگانے کے بعد  صبح اٹھنا بھي پڑتا ہے اور اس کي بعد ايک اور انکشاف ہوا کہ فہرست بنابے کے بعد اشياء مہيا نہيں ہو جاتيں بلکہ خريدني بھي پڑتي ہيں 
سو دس بجے اٹھ کر خريداري شروع  کي تو گيارہ تک وہي چلتي رہي ، 
تياري کرتے ادھا گھنٹہ اور لگ گيا سامان پورا ہوا تو جيپ کي فکر پڑي ريٹ تين ہزار سے پينتيس سو تک تھا ، ايک دوست نے ايک خان صآحب ڈرائيور  کے پاس گئے اور اس کو ستائيس سو کي آفر دی ڈرائيور پہلے ہی  بھنا بيٹھا تھا گھور کر اسنے ہميں ديکھآ اور  بولا چوبيس  سو سے ايک پيسہ کم نہ لوں گا نہ اوپر باقی تمھاری مرضی  ؟اسکي بات کي منطق سمجھنے کا وقت تھا نہ موقع؟اللہ اللہ کر کے بيسر پہنچے وہاں سے پیدل دودی پت سر جانا تھا ، جو کہ چھ گھنٹے کا پیدل راستہ ہے 
پہلے سامان ترتیب دینا تھا ، سو ہمارے دوست جن کو ہم برگیڈیئر صاحب کہتے ہیں ، برگیڈیئر اس لیے  کہ وہ دماغ استعمال نہیں کرتے تھے اورجس بات پہ اس کی سوئی اٹک جاتی تھی کوئی دلیل ، کوئی فلسفہ اسکے زہن کو  نہیں بدل  سکتااس نے سامان کو ترتیب دینے کا فیصلہ کیا کوئی ایک ادھ گھنٹہ  وہ سامان کو ترتیب دینے کی کوشش کرتا رہا  لیکن سامان اتنا زیادہ اور ہم صرف چار لوگ۔۔اور سامان میں  ٹینٹ ، میٹرس ، بستربند، سلینڈر ، کھانے کا سامان ، الو پیاز،چاول گھی ،کپڑے وغیرہ شامل تھے
جب ریاضی کے سارے تھیورم لگانے کے بعد بھی جب کسی طرح بھی سامان ترتیب نہ دیا جا سکا تو جس کے ہاتھ جو لگا اٹھا لیا ، ہر ایک کے 
پاس اتنا اتنا سامان آیا کہ شاید کسی گدھے پہ بھی لادا جاتا تو وہ بھی تلملا اٹھتا خیر ہماری دانشمندی کہ ہم وہ لے کر   ایک خطرناک دشوار گزار پہاڑی سفر پر چل پڑے۔ کیوں کہ ہم خٔود بہت عقلمند ثابت ہوئے تھے اس لیے کسی سے راستہ پوچھنا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور یوں غلط راستے پر چل نکلے۔۔
بجائے پہاڑ کے ہم دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کو چوڑے پاٹ سے پار کر کے صحیح راستے کےساتھ ساتھ لیکن دریا کی دوسری طرف چلنے لگے ایک جگہ پہنچے تو وہاں ایک گلیشِئر تھا وہ جان کو خطروں میں ڈال کر پار کیا تو ایک کلومیٹر  دور ایک اور گلیشئیر سامنے آ گیا  اور وہ اتنا بڑا کہ اس کو پار کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ یہاں سے دو ہی رستے سامنے تھے یا تو واپس چلے جائیں یا دریا کے پاٹ کو پار کر کے دوسری طرف پہاڑ پر چڑھ جائیں اور صحیح رستے پر پہنچ جائیں یہ رستہ بہت خطرناک تھا  کیونکہ اگے جانے کا رستہ نہیں تھا پہاڑ سے گزرنے والے مقامی لوگوں نے بھی ہمیں منع کیا لیکن ہم اپنے ہوٹل کے کمروں کو تالے لگا کر آئے تھے گویا طارق بن زیاد کی روح جاگ اٹھی تھی ہم میں ۔ سو طے یہ پایا کہ اس دریا کے پاٹ کو یار کر کے سامنے پہاڑ پر جایا جائے  پانی کا بھائو انتہائی تیز کہ کوئی چٹان اس کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور گلیشئیر کا اتنا ٹھنڈا پانی کہ پائوں رکھتے ہی شل ہو جائیں ۔ بہرحال بہت سوچ کے بعد ایک جگہ جہاں ہمیں پانی کا بہائو کم لگا جو کہ ہماری خام خیالی تھی وہاں سے گزرنے کا فیصلہ کیا ۔طے یہ پایا کہ ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھام کر جائیں گے اور ہاتھ کسی صورت نہیں چھوڑیں گے  لیکن  سامان اتنا اٹھا رکھآ تھا کہ ایسا کرنا مشکل تھا ۔۔پہلے میرے دوست نے پانی کے بہائو میں قدم رکھَے اسکے قدم لڑکھرا گئے لیکن میں نے اس کو تھآم لیا  میں تھوڑا آگے گیا تو میں بھی لڑکھڑایا  لیکن اس دوسرے کو مضبوطی سے پکڑ لیا تیسرا دوست خوف سے مجھ سے جانثارانہ انداز میں لپٹ گیا اور اس کا ہاتھ چوتھے دوست کے ہاتھ سے نکل گیا اور وہ اکیلا رہ گیا ۔۔ اور اتنے تیز بہائو میں اکیلا  ٹھہرنا بہت ممکن نہ تھا پانی کی ایک بڑے لہر آئی اور وہ اسمیں بہہ گیا ہم تینوں ایک دوسرے کو تھامے اپنے دوست کو بے بسی سے دیکھ رہے تھے ۔۔ بمشکل ہم  تینوں ایکدوسرے کو  گھیسٹتے دوسری طرف پہنچے اس دوران ہمارا آدھے سے زیادہ سامان بہہ چکا تھا میرا دوست کسی پتھر کو پکڑ کر اس کے سہارے سے کچھ دیر کو ٹھہرا لیکن  یہ سہارا بھی عارضِِی ثابت ہوا ۔انتہائی تھنڈے پانی میں اس کی گرفت کمزور ہو رہی تھی اور مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ میں نے اس کو بچانے کے لیے پانی میں چھلانگ لگائی کہ مجھے تیرنا آتا ہے لیکن پانی نے مجھے کسی گڑیا کی طرح اٹھا کر واپس کنارے والی چٹانوں پر پٹخ دیا ۔ اس کی گرفت کمزور  ہوئی اور وہ دوبارہ پانی کی بے رحم موجوں میں بہنے لگا دوسرا گلیشئیر اب محظ کچھ سو میٹر کے فاصلے پہ تھے اور وہاں سے اس کا زندہ واپس نکل کر آنا ناممکن تھا کیونکہ وہاں اسکو دھونڈنا بھی ممکن نہ تھا۔  وہ ایک بڑی چٹان کے پاس گیا تو وہاں بہائو کم ہوا اور اس نے چٹان کو تھام لیا چٹان اتنی بڑی تھی کہ وہ اس کو سہارا دے سکتی تھی کچھ دیر کے لیے ، لیکن زیادہ دہر رہنے سے وہ بے ہوش ہو جاتا کیونکہ وہ پہلے ہی انتہائی سخت ٹھنڈے پانی میں دس منٹ گزار چکا تھا۔ چٹان اور کنارے کے بیچ کافی فاصلہ تھا اور اسکے درمیاں موت رقصاں تھی ۔ پانی کا اضطراب اور اس کی موجوں کی دہشت ،گویا موت باہیں پھیلائے کھڑی ہو۔جلدی میں سامان پر نظر ڈالی تو ایک رسی نظر آئی اس کے ایک سرے پر پتھر باندھ کر دوست کی طرف پھینکا ۔ قدرت نے اتنی ہی رسی دے تھی ہمارے ہاتھ کہ  بمشکل وہ میرے دوست تک پہنچی اس نے رسی کو تھاما اور  خٔود کو پانی کے حوالے کر دیا ، ہم نے رسی کے دوسرے سرے سے کھینچ کر دوست کو کنارے پر کھینچ لیا ۔ جب وہ کنارے پہ پہنچا تو نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔۔اور زخمی بھی ۔ بلکہ سبھی کو ذخم آئے تھے  لیکن اللہ تعالی کا شکر کہ کسی بڑے حادثے سے بچ گئے تھے 

7 comments:

  1. پتہ چلتا ہے کہ آپ لوگ مہم سر کرنے گئے تھے۔ ایڈونچر سے بھرپور کاموں میں اسطرح کے حادثے تو ہوتے رہتے ہیں۔

    ایک نئے اور زندگی کی گرمی اور ہل چل سے بھرپور تحریر پہ آپکا بہت شکریہ۔

    ReplyDelete
  2. بھئی تحریر کے آغاز کے مزاج اور بعد کے ماحول میں اتنا فرق؟
    شروع میں تو عام سی پہاڑی علاقوں کی سیر کی روداد لگ رہی تھی لیکن بعد میں تو لینے کے دینے پڑ گئے۔۔۔جانوں کے لالے پڑ گئے۔ شکر ہے اللہ نے آپ کے دوست کو بچا لیا۔ سامان تو خیر جو گیا سو گیا۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ بعد میں آپ سب ساتھیوں کے خیالات و تا ثرات کیا تھے اتنے بپھرے ہوئے پانیوں میں جا اترنے کا فیصلہ کر نے کے بارے میں؟

    ReplyDelete
  3. بڑی گرم سرد قسم کی تحریر ہے
    ہنستے ہنستے ، خوف سے پسینے نکال دیے تو نے

    ReplyDelete
  4. پائی جی۔
    مجھے معلوم ہوتا تو میں جاپان آنے کے بجائے آپ کے ساتھ مہم جوئی میں ضرور شریک ہوتا۔
    آئیندہ صلح ضرور ماریئے گا۔

    ReplyDelete
  5. :) اچھی روداد ہے اس وقت کی جب آپ سب پانی میں ایک دوسرے کو پکڑ کے آگے بڑھنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔ خوف سے جانثارانہ انداز میں لپٹنے پہ :lol: جعفر کا تبصرہ بھی اچھا ہے :)

    ReplyDelete
  6. گورے کہتے ہیں کہ جو سامان آپ کی پیٹھ پر نہیں آ سکتا اس کو ساتھ لے جانے کا سوچئے بھی مت۔

    اگے کی ہوئیا اوہ کنے لکھنا سی؟

    ReplyDelete
  7. دودی پت سر، وہاں یقیناّ تم گئے ہو گے سیزن میں، یعنی گرمیوں میں۔ گرمیوں میں تو ویسے بھی پانی بہت اور تیز ہوتا ہے۔ او مشورہ کس نے دیا تھا تمھیں کنہار میں کودنے کا، اس میں کودنے کا مشورہ تو صرف "خود کشی" کے لیے ہوتا ہے۔

    ReplyDelete