July 4, 2010

او کاٹا۔۔۔۔

جیسے ہی گرمی کا موسم آتا ہے ، اک زرا بھی دھوپ میں جاٰوں تو آنکھون میں سرخی آ جاتی ہے ، گھر والے ، دوست احباب سبھی ڈاکٹر سے مشورہ کرنے کی ہداہت کرتے ہیں ، میں دوا استعمال بھی کرتا ہوں جب سرخی بہت زیادہ ہو جائے لیکن عام طور پر اس کو الرجی کا نام دے کر ٹال دیتا ہوں کہ یہ ہر گرمیوں میں آنی ہی  ہو تی  ہے ۔لیکن در حقیقت مجھے اس انکھوں  کی سرخی سے پیار ہے ، اس میں مجھے اپنے بچپن اور اپنا شوق نظر آتا ہے ، یہ وہ تحفہ جو مجھے پاکستان کی جون جولائی کی کڑکتی دوپہر کی جلسا دینے والی دھوپ میں سورج کی انکھون میں انکھین ڈال کر گھنٹوں پتنگ اڑانے کی بدولت ملا ہے ، اور ایسا قیمتی تحفہ کون  ضائع کرنا چائے گا ، اور اب بھی کبھی انگلی کٹ جائے تو مجھے درد کی وہ لزت  کا احساس  ہوتا ہے جو  پتنگ کی ڈور  سے انگلی  کٹ جانے سے ملا کرتا تھا
     میرا بچپن  ایک سرکاری رہائشی کالونی میں گزرا یہ گھر والد صاجب کو انکی کمپنی کی طرف سے ملا ہوا تھا ، یہاں ہر محلے میں ۳۰ کے قریب گھر  تھے آمنے سامنے اور ہر گھر کے دو داخلی دروازے   تھے ، ایک گلی کی طرف اور دوسرا  سڑک کی طرف کھلتا تھا  آمنے سامنے والے گھر کی گلی کے  دروازے آمنے سامنے ہی کھلتے تھے  اور باقی دو اطراف میں دیوار کھڑی کر دی گئی تھی ، کیونکہ گلی کی طرف سے صرف  عورتیں آتی جاتی تھیں اور شام کو عورتیں اور بچے  ویاں بیٹھ کر دن بھر کی باتیں کیا کرتے تھےاور مرڈ حضرات کسی پلاٹ میںاکھٹے ہو   کر خوش گھپیاں ے تھے ، ہنسی  خوشی اور بہت پیار کا ماحول تھا ایک گھر کی خوشی پورے  سے    پورے محلے میںجشن اور ایک گھر میں غم سے پورا محلہ سوگوار ہو جاتا ،  جو وہ گلی چھوڑنے کے بعد کہیں دیکھنے کو نہیں ملا باقی سب محلے بھی اسی طرز پر بنے ہوئے تھے اور قریب قریب ہی تھے  اور بین محلہ ہم اہنگی بھی دیدنی تھی۔ اور سارے گھر سنگل سٹوری تھے اور ایک طرف والی چھتیں اپس میں بلکل ملی ہوئی تھیں گویا ایک گھر کی چھت ہو اور یہ ہی ہماری پتنگ بازی کا میدان جنگ بھی تھا۔۔۔
جیسے ہی ہوش سنبھآلا جس پتنگ باز کا نام سنا وہ " لیفٹی بھآئی " تھآ  جو ہمارے محلے کے پچھلے محلے میں رہتے تھے ، لاہور کے ہونے کی وجہ سے انھوں نے کالونی میں پتنگ بازی کے نت نئے انداز اپنائے جو ان کی عالم  گیر شھرت کا باعث بنے ، جیسے توکل اڑانا ، چھک مار کے پتنگ کاٹنا ، نئی نئی ڈور متعارف کروانا۔ اسی وجہ سے وہ ہمارے آئیڈیل بن گئے۔
لیکن جیسے ہی پتنگ بازی کی خواہش کا اظہار کیا ابا جی نے  پابندی لگا دی  سو ابا جی سے چھپ چھپ کر پتنگ بازی کا آغاز کیا ، اس کام میں میرا پارٹنر میرا دوست اکبر جو میرے گھر کےسامنے رہتا تھا جس کو ہم گگو کہہ کر بلاتے تھے بنا وہ مجھ سے ایک سال چھوٹا تھآ بنا، پہلا مرحلہ دھاگہ سے ڈور سوتنا تھی اس کے لیے ہم نے بکر سے رابطہ کیا بکر کا پورا نام ابوبکر تھآ لیکن وہ بکر کے نام سے جانا جاتا تھآ ، وہ ایک فری لانسر قسم کا پتنگ باز تھآ جس نے اپنی زندگی پتنگ بازی اور پتنگ بازوں کے لیے وْفف کی تھی اور وہ بلامعاضہ لوگوں کو ڈور سوت کر دیتا تھآ، سو پہلے ہم نے جیب اور خرچ اور سبزی لانے والے پیسوں میں سے پیسے بچا کر کچھ رقم جمع کی پھربکر کے پاس گئے ، لیکن رقم اتنی تھی جس سے بمشکل دھاگہ آ سکتا تھآ،لیکن بکر نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے ایک دن دو اور لوگوں کی ڈور سوتنا تھی اس دن بلا لیا ، ان کی ڈور سوتنے کے بعد جو محلول بچا اس کو ملا کر اور جو کمی تھی وہ پانی کے زریعے پوری کر کے ہمیں ڈور سوت دی
ہمیں ڈور مل گئی ہم بکر بھائی بکر بھائی کہتے نہ تھکتے تھےڈور آے کے بعد ڈور کو ابا جی سے بچانا تھا اس کے لیے سٹّور جہاں ابا جی کا جانا بہت کم ہوتا تھا وہاں امی جی کی ملی بھگت سے ہم نے ایک خفیہ جگہ بنائی اور وہاں اپنی پتنگ اور ڈور رکھنے لگے۔
اب پتنگ اڑانے کا یہ طے ہوا کہ جیسے ہی ابا جی دفتر سے واپس آ کر کھانا کھآ کر   سو جائیں گے ہم چپکے سے چھت پر جا کر پتنگ اڑائیں گے انا جی دوپہر ۳ بجے سویا کرتے تھے سو ہر روز ہم چھت پر پتنگ اڑانے جاتے لیکن اس میں ہمیں بہت محتاط ہونا پڑتا تھا کہ ہمارے قدموں کی آواز سے ان کی یا ساتھ والے گھروں میں کسی اور کے والد کی انکھ نہ کھل جائے کیونکہ نتیجہ برابر ہوتا تھا وہ بھی سب کو اپنے بیٹوں کی طرح ہی ڈانٹا کرتے تھے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ ننگے پاوں پتنگ اڑائی جائے جو کہ دوپہر میں گرم چھت پر ازیت ناک کام تھا بہرحال جنوں اور شوق کچھ نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی کبھی ابا جی کی انکھ کھل جاتی یا وہ پانی پینے کے لیے اٹھتے اور ہمیں بستر پر نہ پا کر چھت پہ دیکھ لیتے اور ڈنڈوں سے ہماری پٹآئی کرتے ، توبہ کرنے کے بعد اور کل سے پتنگ نہ آڑانے کا اب جی کے سامنے عہد کرنے بعد اگلے دن بھی ہماری یہی ترتیب ہوتی۔ ابا جی نے ہماری ڈور اور پتنگ بھی ضبط کیں اور دن کے پیسے بھی بند کیے کئی بار لیکن ہم بہت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔
پہلے پہل تو پتنگ لیتے رہے لیکن پھر احساس ہوا کہ پتنگ کافی مہنگی ہیں اور اس طرح زیادہ دن ہماری جیب برداشت نہیں کر پاِئے گی، تو ہمیں کاکا اور فاجہ برادران کے بارے میں پتا چلا ، یہ دونوں بھآئی کٹی ہوئہی پتنگ لوٹنے کے ماہر تھے ان کے پاس دو بڑے بڑے بانس تھے جن کے سروں پر بارہ سنگے کے سینگوں جیسے جھآڑی لگی تھی ان کے اس ہتھیار کو ہم "اڑانگڑا"  کہتے تھے  یہ کٹی ہوئی پتنگ کو ہوا ہی میں اپنے اڑانگرے پر لپیٹ لیتے تھے ، ہر کٹی ہوئی پتنگ کے پہچھے ایک فوج ہوتی تھی  جو اس کو لوٹنے کے لیے بھآگ رہی ہوتی تھی بحرحال کاکا اور فاجہ کا ایک ہی اصول تھآ یا تو لوٹ لو یا بھآڑ ڈالو پتنگ کو ۔۔ ان سے ہمیں انتہائی سستے داموں پتنگیں ملنا شروع ہو گئیں
اب رہا مسٰلہ ڈور کا تو اس کے لیے ہم نے مانی سے رابطہ کیا مانی کا کام لوگوں کی پتنگوں پر کاٹی دالنا ، کآٹی ڈالنا یہ ہوتا تھا کہ وہ ڈور کے اگےپتھر باندھ کر چھت پر جاتا اور جس کی پتنگ نیچی اڑ رہی ہوتی وہ پتھر اس کی ڈور پر پھینک کر پتنگ سمیت کھینچ لیتا اور ساتھ میں اچھی خآصی ڈور بھی کینچ لیتا اور جس کی پتنگ کٹ جاتی اور اس کی باْْقی ڈور نیچے کی طرف آتی تو مانی وہ دوسرے سرے سے پکڑ کرکھینچ لیتا ہوں اکژ اوقات کئی کئی میٹر ڈور آ جاتی اس کے پاس، ہم اس سے اچھی والی ڈور لے کر اپنی دور کے اگے باندھ لیتے اور یوں اگرچہ ہماری ڈور رنگ برنگی ہو جاتی لیکن بہت کارامد ہو جاتی اور اس کی مدد سے جب ہم نے لوگوں کی پتنگیں کاٹنا شروع کیں تو لوگوں نے چھوٹی عمر میں ہی ہمیں پائے کا پتنگ باز گرداننا شروع کر دیا
جب ابا جی گھر پر نہ ہوتے تھے وہ دن ہمارے لیے جشن کا دن ہوتا تھآ خاص طور پر جب ابا جی کچھ دن کے لیے گاوں جاتے تھے ہر مہینے ، ہم باآواز بلند پتنگ اڑایا کرتے تھے جیسے ہی کسی سے پیچ ڈلتا ہر طرف سے ہدایات انا شروع ہو جاتیں کوئی کہتا ، "ڈھیل چھوڑ" ، کہیں سے آواز آتی "او پھیری دی" اور کوئی کہتا "کھچھن کھچائی" کر دے ،عرض ایک کمینٹری شروع ہوتی، پیچ لڑانے والوں کے ارد گرد ایک جمگھٹہ بن جاتا۔ اور جیسے ہی کسی کی پتنگ کٹتی ، پتنگ کاٹنے والی پارٹی آسمان سر پر آٹھا لیتی طرح طرح کے فقرے سننے کو ملتے "اووووووووووو گِئسسسسسس" ، "نال ہی لائیسسسسسس" ، "تند کر دیتیسسسس" ، "او تچ ہی کیتیسسسسسس"، ا"اوووو ڈور ہی لائیسسسسسس" ، "اوووو کٹ کے رکھ دیتسسسس،
کچھ لوگوں نے تو باجے رکھے ہوئے تھے جیسے ہی پتنگ کاٹتے باجا بجاتے،
اور پھر جب رات کو کھآنا کھآنے کے بعد ابا جی رات کو اپنے پاس بلاتے اور انگلیاں دیکھآ کرتے تھے کہ ڈور کے کٹ لگے یا نہیں اور میں اپنے ڈور کے کٹ چھپانے کے لیے ان پر گوند لگا کیا کرتا تھآ اور جب دیکھتے تو مسکرا کر کہتے کہ لگتا ہے کہ اج پتنگ نہیں اڑائی اور میں ہمیشہ یہ ہی سمجھتا رہا کہ میرا گوند لگانے والا ہربہ کامیاب جا رہا ہے۔۔کتنا نا سمجھ تھآ میں۔۔۔۔۔۔۔

9 comments:

  1. یار ادھر تو کاغذ جسے "تاء" کہتے ہیں، وہ والی پتنگیں بازار میں نہیں تھیں ملتیں۔ خود بنانے کے لیے مہارت اور پیسہ دونوں درکار ہوتا تھا، جو کہ گھر والوں نے شجر ممنوعہ کی طرح بند کیا رکھتے تھے۔ :( میرے گھر والے بچوں کو پیسے دینے کے سخت خلاف ہیں، کہتے ہیں کہ جو لینا ہے بتا دو اب میں کیسے بتاتا کہ میں نے کیا لینا ہے
    ؛)
    خیر، شاپر اور جھاڑو کے تنکوں سے پتنگیں بنانے کا میں ماہر تھا۔ اڑانے کا ہر گز نہیں۔۔۔۔۔۔۔ :(
    اور ویسے بھی یار ایک پہاڑی پر گھر تھا، اور پہاڑی گھروں سے بھری ہوئی۔ بالاکوٹ جاؤ تو سامنے کی گنجان آباد پہاڑی کی بات کر را میں، وہاں تو کوئی پتنگ اڑاتا، اوپر والی چھت سے ہی کاٹ کر لے جاتا۔۔۔۔۔
    اس لیے دوپہریں یہاں ضائع کرنے کی بجائے دریا کنہار میں نہاتے ہوئے گذاریں۔ مار بہرحال واحد مماثلت ہے، تیری اور میری "غمگین" کہانی میں

    ReplyDelete
  2. واہ جی واہ شاہ جی................. آپ بھی ھماری پالٹی کے نکلے...

    ReplyDelete
  3. واہ جی واہ شاہ جی................. آپ بھی ھماری پالٹی کے نکلے...

    ReplyDelete
  4. مجھے بھی پتنگ بازی کا بڑا شوق تھا
    لیکن چیک اتنا ٹائٹ رکھا ہو تھا میرے پہ کہ بس میٹرک کی چھٹیوں میں ہی گڈی بازی کر سکا
    وہ بھی ابو کے دفتری اوقات میں
    اب تین چار مہینے میں ماہر تو نہ بن سکا لیکن تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے اسی سے شوق پورا کر لیا

    ReplyDelete
  5. واہ جی واہ ۔۔۔۔۔۔بنگش صاحب ہمارے گرائیں اور ہماری پارٹی کے نکلے۔

    ReplyDelete
  6. @عمر
    یار ہم گرمی کی چھٹیوں میں گاوں جایا کرتے تھے اور تب ہرو میں جا کر نہایا کرتے تھے، وہاں گڈیاں نہیں تھیں وہاں تیرے والا طریقہ یعنی جھاڑو اور لفافے کی گڈیاں ہرو کے کنارے آڑایا کرتے تھے۔
    اور قدر مشترک واپسی پہ مار کھایا کرتے تھے ،

    @Annymous
    اپ کے اندر سے ضیاء کی بدبو آ رہی ہے ۔۔
    :D

    @ڈفر
    چیک تو یہاں بھی بہت ٹائٹ تھا لیکن بندہ ڈھیٹ ہونا چاہیے باقی عزت آنی جانی چیز ہوتی ہے
    @یاسر
    جناب مزاق مت کریں عمر کا ڈومیسائل جاپان کا نہیں ہے

    ReplyDelete
  7. شاہ جی اس تھیم پر ایک دو پوسٹوں اور پڑھ لیں
    تو لوگ میرے ہاتھ میں سفید چھڑی تھما دیں گے
    بارہ سنگھے کا ذکر کن وجوہات کی بنا پر کیا گیا؟؟
    اور سارے مڈل کلاس ابے اپنی نرینہ اولاد کو ایسے ہی پتنگ بازی سے روکتے رہے ہیں
    آج سب جوان عہد کریں کہ
    وہ ظلم کے یہ ضابطے بدلیں گے
    اور اپنے منڈوں کو پتنگ بازی کی کھلی اجازت دیں گے

    ReplyDelete
  8. شايد اسی وجہ سے ميرے گھر والے کہتے تھے پتنگ اُرانا اچھی عادت نہيں ہے ۔ ميں نے پھر بھی دو بار اُڑائی تھی ايک جب ميری عمر نو سال تھی اور ايک جب ميری عمر بارہ سال تھی
    سورج کی جون جولائی کی دوپہر کی روشنی کو ذائل کرنے کيلئے آپ نے اپنے بلاگ کا پس منظر تاريک بنايا ہوا ہے ؟

    ReplyDelete
  9. جعفر
    بارہ سنگا اس لیے کے میرے استاد مجھے ہمیشہ ہی ہی کہتےتھے کہ اگر بےوقوفوں کے سینگ ہوتے تو تم بارہ سنگے ہوتے
    اور میں آہستہ سے کہتا کہ اور آپ سوا بارہ سنگے اور سب ہنستے اور وہ ہمیشہ یہ ہی سمجھتے رہے کہ لڑکے ان کی بات پر ہنستے ہیں
    اور اگر ہمارے مڈل کلاس آبے ہم پہ اتنی سختیاں نہ کرتے تو اج تم اور میں نالی وڈ کے سٹار ہوتے۔۔
    بھوپال صاجب
    جناب بتنگ بازی اور کبوتر بازی میں ایک قدر مشترک ہے کہ یہ اپکا زہن مفلوج کر دیتی ہیں
    شاید انسان کے اڑنے کی خواہش کی وجہ سے جو وہ خاطرخواہ طریقے سے پوری نہیں کر سکتا۔۔
    اور صرف دو بار پتنگ اڑائی ۔۔
    یعنی اپ بھی اس فلسفے پر قائم رہے کہ جس گلی جانا نہیں اسکا کیا رستہ دیکھنا۔۔

    ReplyDelete