October 21, 2010

نجیب الطرفین

اچھے بھلے  انسان ہوا کرتے تھے مسلمان ہوا کرتے تھے۔ چلے آئے برصغیر کی طرف تو لوگوں نے ہاتھ چومنا شروع کر دیے اول اوائل والے تو گزار گئے ریاضت وعبادت میں۔بعد والے پھر ہم سٹھیا گئے ۔ خّود کو اونچا سمجھنے لگے  اور دوسروں کو کمتر۔۔گویا باقی سب کمی کمین ہوں۔
اب بات بنا بات  سب پر اپنی سیدی ، پیری کا رعب ڈالنے لگے ۔ ہم جو ٹھہرے ہاشمی قریشی تو کسی کی مجال ہمارے در کی طرف  پشت کر کے باہر جائے۔ دیومالائی     قصے کہانیوں کی زشوقین قوم کو ایک سراپا چاہیے تھا کہ جس سے وہ اپنے سارے خیالی  کرشمے و کرامات منصوب  کر سکتے  اور اپنے  اندر کی  فینٹسی کو مطمئن کر سکتے  ہمیں جو مل رہے تھے سو بدھو تو اور کیا چاہیے تھا۔
۔میرے ایک بہت قریبی رشتہ دار ہیں۔ وہ خاندان سے باہر شادی کرنے کو گناہ عظیم  سمجھتے ہیں۔۔ لیکن یہ بات صرف   ان کی اولاد کے لیے فرض اول ہے کیونکہ ان کی اپنی دوسری شادی خاندان سے باہر ہے۔ خیر پہلے ان کی بڑی بیٹی کی شادی ہوئی بیٹی خوبصورت اور پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے بہت اچھے اچھے رشتے آئے لیکن محترم نے ان کے خاندان و حسب نسب  کے بارے ایسے ایسے سوالات اٹھائے کہ وہ جاتے جاتے قسم کھا کر جاتے کہ اپنے آنے والی سات نسلوں میں سےکسی کو بھی اس خاندان کے قریب نہ بھٹکنے دیں گے۔ عرض  آخر میں انہوں نے بیٹی کی شادی خاندان میں ہی کر دی۔
جوڑے بنانے والا اللہ ہے اور یہ فیصلے آسمان پر ہی ہوتے ہیں لیکن یہ بہت بے جوڑ شادی تھی۔ تفصیلات میں جانا مناسب نہیں لیکن اس کے کچھ اثرات اب تک پوارا خاندان جھیل رہا ہے اور بظاہر جھیلتا ہرے گا موصوف کے دوسرے بیٹے کسی کو پسند کر بیٹھَے ۔ اور والد محترم سے کفر کا فتوی بھی لگوا بیٹھے۔ والد صآحب اس حد تک بلیک میلنگ پر اتر آئے کہ دھمکی دی کہاگر ایسی کوئی بات سوچی بھی تو والدہ کو گھر بھیج دیں گے۔ دوسرے بیٹے کی بھی شادی اپنی مرضی سے کر دی۔ اس دوران بھی گھر اکھآڑہ جنگ کا منظر  پیش کرتا رہا۔۔دوسرے بیٹے کی باری آئی تو خاندان میں کوئی لڑکی ہی نہیں تھی میسر پھر ایسی بے جوڑ جوڑے اس کے لیے بنانے کی تجویزیں آنے لگیں کہ خدا کی پناہ لڑکا ستائیس کا ہو رہا تھا اور لڑکی  تیرہ سال کی۔ اور کہیں چالیس کی ایک ان بیائی کی بات ہونے لگی۔۔ وہ ان بیائی بھی اپنے والد کے اصولوں کی وجہ سےابھی تک گھر ہی بیٹھی تھی۔۔ مجبورآ بیٹے نے گھر سے چھپ کر شادی کر لیاور یہ بات صیغہ راز میں رکھی ۔۔ اب گھر اس بات پر  کانپتا رہتا ہے کہ کب موصوف کو پتا چلا اور کوئی نیا ڈرامہ شروع۔۔ ماں اپنی جگہ پریشان تو لڑکا اپنی جگہ۔۔ باقی لوگ سچ اور جھّوٹ کے بیچ میں لٹک رہے۔۔
ان موصوف سے میری ایک ملاقات بھی ہوئی  جس کے بعد انہوں نے مجھے بہت سے القابات سے نوازہ اور تین چار فتوی بھی لگائے مجھ پر۔جس کے لیے میں ان کا شکرگزار ہوں۔۔ اگرچہ میں نے ان کے انتہائی سخت الفاظ اور کرخت لہجے کا جواب لگاتار مسکرا کر اور بہت عزت کے ساتھ دیا۔زرا وہ بحث ملاحظہ کیجیے جب میں نے پوچھا کہ میرے کزن کی والدہ یعنی ان کی بیوی اور اس کی دادی یعنی موصوف کی والدہ خاندان سے باہر کی ہیں تو میرا کزن باہر سے کیوں نہیں شادی کر سکتا۔۔ تو جوب آیا کہ ان کے والد صاحب کی مجبوری تھی اولاد نرینہ کی اور ان کی اپنی مجبوری تھی اولاد کی تب انہوں نے خاندان سے باہر شادی کی۔ میں نے کہا کہ میرے کزن کی بھی مجبوری ہے کہ اس کو پسند باہر کی ہے تو آگ بگولا ہو گئے اور بولے میرے پوتے کی دادی اور پڑ دادی تو پہلے سےخاندان کی نہیں اب اگراس کی ماں بھی خاندان کی نہ ہوئی تو اس خاندان  کے وارثّوں کی نجیب الطرفینیتت سخت خطرے میں پڑ جائے گی اور اس کے بعد کبھی اس خاندان میں پیدا ہونے والا
نجیب الطرفین نہیں ہو گا اس لیے ان کے بیٹے خاندان سے باہر شادی کا سوچیں بھی مت۔۔
دوسری بات میں جب میں نے پوچھا اسلام  میں اور حضور صلی اللہ ھو علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگی میں ایسا کچھ نہیں ملتا۔۔تو انہوں نے  قرآن پاک کی ایک آیت کا حوالہ دیا جس کا مفہوم یہ ہے اللہ کمی بیشی معاف فرمائے۔۔کہ تم کو خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا گیا ہے تاکہ تمھآری پہچان ہو سکےاور اس کی تفسیر انہیوں نے یہ بیان کی کہ اگر اپ خاندان سے باہر شادی کریں گے تو خآندان کی پہچان اور شناخت ختم ہونے کا انیشہ ہےاور بظآہر ان کے خاندان کی شناخت  انہوں نے تن تنہا بچائی ہوئی تھی اور بقول انکے اس بات پر ہاشمی قوم کو انکا شکرگزار ہونا چاہیے۔۔ میں نے علماء سے اس آیت کا حوالہ تب سنا ہے جب وہ خاندان میں لازمآ شادی کی روایت کو غیر اسلامی کہہ رہے تھے لیکن ان میں کون درست ہے اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے میں نہیں۔
تیسرا سوال جس کے بعد میں ان سے کوئی سوال نہ پوچھ سکا ۔۔ میں نے پوچھا کہ خاندان سے باہر کیوں نہیں ۔۔ بنیادی وجہ کیا ہے۔ تو کہنے لگے تو ایک برتن میں بکری ،  بھینس اور گائے کا دودھ ڈال دو اور پھر اس کو الگ کرنا چاہو تو کر سکو گے میں نے کہا نہیں تو فاتحانہ انداز میں بولےاسی طرح خون اگر  اگٹھا ہو جائے تو پھر اس کی آصل ختم ہو جاتی ہے۔وہ اپنی ضد پر ڈٹے ہوئَے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کا پورا خآندان بری طرح متاثر ہے۔ ایک ایک فرد ایک کہانی بن چکا ہے لیکن موصوف کوے کو صفید ثابت کرنے پر تلے ہوئے

8 comments:

  1. سنت نبوی (ص)سے تو یہ رسم ثابت نہیں۔ آپ (ص) نےخود بھی اور قوموں کی خواتین سے شادیاں کیں اور اپنی بیٹیاں خاندان سے باہر بیاہیں۔

    ReplyDelete
  2. اچھا لکھا ہے
    ایسا اپ هی کو لکھنا چاهیے تھا
    ناں که کسی اور قبیلے کے فرد کو

    ReplyDelete
  3. شکر الحمدللہ کہ اس طرح کے کھسکے ہوئے لوگوں کی تعداد کراچی میں خاصی کم ہوگئی ہے،نجیب الطرفین کہلانے والے بھی مسلسل باہر سے لڑکیاں لارہے ہیں اور باہر لڑکیاں دے رہے ہیں،
    اعمال کسی چمار کے اچھے ہوئے تو یہ بڑے میاں اپنے کرتوتوں کی وجہ سے منہ دیکھتے رہ جائیں گے اور وہ ان کی آنکھوں کے سامنے جنت میں داخل ہوجائے گا!!!
    اللہ ہم سب کو تکبر سے محفوظ رکھے اور دین کا صحیح فہم عطافرمائے آمین

    ReplyDelete
  4. گھر والوں کو چاہیئے کہ سب مل کر ایک ہوجائیں،چار دن میں بڑے میاں کے دماغ ٹھکانے آجائیں گے!!!

    ReplyDelete
  5. یار یہ نجیب الطرفین لوگوں کی جنت بھی کمیوں کی جنت سے علیھدہ ہی ہوگی میرے خیال میں

    ReplyDelete
  6. یہ ہماری سب سےبڑی پریشانی ہےکہ ہم نےقرآن کےمعانی کواپنی مرضی سےبدل دیا۔اوررہی شادی خاندان سےباہرکیاس میں کوئی بھی ہرض ہوناچاہیےکیونکہ یہ معاملےتواللہ تعالی کےہاں لکھےہوئےہیں۔وہی بہترین فیصلےکرناوالاہےہم تواس ڈرامےکےادکارہیں اورباقی ڈرامہ تواس نےلکھاہےاسی کوتقدیربھی کہہ سکتےہیں

    ReplyDelete
  7. گھر والوں کو چاہئیے کہ پوری زندگی عزاب میں گزارنے کی بجائے ابھی سے ہی کوئی دُرست فیصلہ کر لیں۔ مجھے تو بڑے میاں کوئی زہنی مریض لگنے لگے ہیں۔ یہ بات خوب ہے کہ انہوں نے یہ قوانین صرف اپنی اولاد کیلئے ہی بنا رکھے ہیں اور خود انسے بینیاز ہیں

    ReplyDelete