دو نفل صلاتۃ توبہ پڑھ لیں ، اللہ سے گڑگڑاکر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، کسی سے کوئی جھگڑا ہوا ہو تو صلح کر لیں ، جس کسی کا قرض آپ کے واجب ادا ہے اس کو واپس کر دیں ، اگر نہیں ہے تو قیمتی چیز اس کے حوالے کر کے حساب چکتا کر دیں ، قیمتی چیز تو آپ کے پاس ہونی نہیں ، تو معاگی مانگ لیں ، پائوں پڑ جائیں اس کے جب تک معافی نہ ملے چپکے رہیں اس دنیا کی زلت دوسری دنیا کی زلت سے بہت بہتر ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ سفر آپ کا آخری سفر ہو گا
میں پچھلے دو سال سے یہ مشق یعنی "براستہ خانپور" ہر ہفتے لگاتار کر رہاہوں ، یہ سفر ہری پور سے اسلام آباد تک بظاہر دو گھنٹے کا ہے، تقریبآ سو کلومیٹرکا فاصلہ ، لیکن سفر کی مشکل کا دارومدار وقت پہ نہیں راستے پہ ہوتا ہے ، ورنہ ،تو پل صراط بھی چند لمحوں کا سفر ہی ہوتا ہے اور اس سفر کا عزاب براستہ خانپور والے ہی جان سکتے ہیں۔
میں پچھلے دو سال سے یہ مشق یعنی "براستہ خانپور" ہر ہفتے لگاتار کر رہاہوں ، یہ سفر ہری پور سے اسلام آباد تک بظاہر دو گھنٹے کا ہے، تقریبآ سو کلومیٹرکا فاصلہ ، لیکن سفر کی مشکل کا دارومدار وقت پہ نہیں راستے پہ ہوتا ہے ، ورنہ ،تو پل صراط بھی چند لمحوں کا سفر ہی ہوتا ہے اور اس سفر کا عزاب براستہ خانپور والے ہی جان سکتے ہیں۔
اب آپ کو میں اس سفر کا بضا بطہ آغآز کرواتا ہوں ،
پیرودہائی سٹیشن سے آپ ہری پورکا ٹکٹ لیں ،پھر آپ کو ویگن میں ٹھونساجائے گا ، جیسے مرغیوں کو ٹھونسا جاتا ہے ، بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ مرغیوں کو ٹکٹ نہیں لینا پڑتا ، ہر سیٹ پر چار لوگ بٹھائے جاتے ہیں ، سیٹ پر بیٹھنے والوں کا حدود اربع محدود ہونا چاہیے ، قد پانچ فٹ چھھ انچ سے کم اور کمر پتلی یعنی موٹاپا بلکل نہیں ہونا چاہیے ، لیکن بدقسمتی سے ایسی مخلوق بلعموم پاکستاں اور بل خصوص ہری پور میں بلکل نہیں ملتی ، سو گاڑی کی سیٹوں پہ لمبے حضرات اپنا سر گھٹنوں سے ملا کر بیٹھیں ، تاکہ سر چھت سے ٹکرانے سے محفوظ رہے ،اور وہ بلکل ویسے لگتے ہیں جیسے شترمرغ ریت میں سر رکھھ کر لگتا ہے ،موٹے حضرات کو دو تین کنڈکٹروں کی مدد سے اس کی جگہ پر ٹھونسا جاتا ہے دوسرے الفاظ میں دریاکو کوزے میں بند کیا جاتا ہے جو لوگ موٹاپے سے تنگ ہیں تین چار بار یہ سفر کریں تو بیت افاقہ ہو گا کیونکہ دوران سفر گرمی ، ہچکولوں اور دبائو کہ وجہ سے اس کے جسم کی چربی ، تیل کی نہروں کی طرح بہہ رہی ہوتی ہے
ہلیجئے گاڑی چلنے کو تیار ہے ، گاڑی سٹارٹ کیا ہوئی ہچکولے کھانے لگی ، سب کلمہ پڑھنے لگے۔خانپور روڈ پر چلنے والی گاڑی کی حالت ایسی ہوتی ہے گویا گاڑی کو لقوہ ہو گیا ہو ، یعنی رات کو گاڑی چل تو سڑک پر رہی ہوتی ہے ، اور اس کی ہیڈ لائٹس برابر والے مکانوں میں لگ رہی ہوتی ہیں، ، سفر کے پہلے بیس منٹ تو راولپنڈی روڈ پہ ہی گزرے ، یہ وقت ضائع بہت قیمتی ہے ، اس میں لمبی لمبی سانس لے لیں ، کیا معلوم دوبارہ موقع ملے نہ ملے ،جی یہاں سے آگے دائیں ہاتھھ خانپور روڈ کی طرف گاڑی مڑی، سب سے پہلے یو -ای- ٹی ٹیکسلا کے مین گیٹ کے سامنے سے گزر ہوا یہاں تک سڑک کے آسار موجود تھے ، لیکن اصل مرحلہ اس سے آگے شروع ہو گا ،اس کے بلکل آگے کھنڈرات ٹیکسلا شروع ہونے تھے ، جب اس دوراہے پر پہنچے تو وہاں ایک بورڈ آویزاں تھا ، لیکن مست کا تعین نہیں کیا گیا تھا ، اور جو سڑک کھنڈرات کی طرف جاتی ہے ، وہ نسبنآ پختہ تھی جبکہ خانپور روڈ بلکل خستہ ہے تو باہر کے ممالک سے آنے والے سیاح خانپور روڈ ہی کو کھنڈرات سمجھ کر ادھر ہی گھوم پھر کر واپس اپنے ملکوں کو چلے جاتے ہیں ، اس سے آگے سنگ تراشوں کا بازار ہے ، شاید یہ فن اب پاکستان میں بیت کم جگہوں پر اپنایا جاتا ہو گا ، اس میں خاص طور پر قبروں کے کتبے اور ڈیکوریشن کی جیزیں پتھر سے بنائی جاتی ہیں ، یہاں ذرائع کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ہے ایک طرف ٹیکسلا کے میوزم کی دیوار دوسری طرف پتھر توڑنے والے کاریگر درمیاں میں ایک کلومیٹر سے بھی بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ، اس زخیرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خشک سالی میں بھی نہیں سوکتا ، کیونیکہ گھروں کی سیورج کا سارا پانی یہں جمع ہوتا ہے ، کیچڑ میں پتھر کے سیمنٹ نما زرات کیچڑ کی گرفت کو مضبوط تر کر دیتے ہیں ، کیونکہ پہلے یہاں سڑک ہوا کرتی تھی اس لیے گاڑیوں کو اسی ذخیرے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے ، ہمارے آگے ایک بابا جی سائیکل پر اس دریا کو عبور کرنے کی کوشش کرنے لگے ، باباجی نے پائنچے گھٹنوں سے اوپر چڑیائے ، قمیض اتار کر شاپر میں ڈالی جو سٹینڈ سے باندھی ، اللہ اکبر کے نعرے لگا کر گویا وہ پل صراط عبور کرنے کو نکل پڑے ، ابھی کچھ ہی آگے گئے تھے کہ ایک دکان میں سے نوجوان نے دور سے باباجی کو والحانہ سلام کیا بابا جی نے بھی گرم جوشی دکھائی اور دونوں یاتھوں سے کسی لیڈر کی طرح اس کا جواب دینےلگے ، ایک دم سائیکل بدکی ، اور بابا جی سائیکل سمیت کیچڑ کی آغوش میں چلے کئے ، باباجی سر سے پاّئوں تک کیچڑ میں لت مت ، نوجوان کو صلواتِن سنانے لگے ، ایک دو درد ل حضرات بابا جی کی مدد کے لیے آگے بڑھے ، بمشکل وہ بابا جی تک پہنچے دونوں ایک ایک طرف سے باباجی کو تھاما ، اور ان کو آٹھانے لگے ، بجائے اس کے کہ وہ بابا جی کو اٹھاتے ،الٹا خود ویاں باباجی پر گر پڑے ، بابا جی کی صلواتیں مزید اونچی ہو گئیں اوران میں دو ناموں کا آضافہبھی، اسی اثنا میں چار پانچ بچے آئے وہاں ، بچوں کی یہ قسم صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے ، بغیر چپل ، صرف کالی بنیاں میں جو کبھی صفید یوا کرتی ہو گی ، رنگ گندمی ، گندمی اس کیے کہ اگر کبھی دّھویا جائے تو غالبآ گندمی ہی ہو گا ، یہ اور بات کہ آن کا دھلا ہوا کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، انھوں نے بنا دیکھے ہی اپنے سویمنگ پول میں چھلانکیں مار دیں ، وہ روزانہ ویاں نیآتے ہیں ، اور ان کی چھلانگوں سے چھینٹے بابا جی پر آڑنے لگے ، اسی اثناء میں وہاں کچھ غیرملکی گورے بھی پہنچ آئے ، جو غالبا اس سڑک کو کھنڈرات سمجھ کر اس طرف آ نکلے ، ان میں چھھ کے قریب نواجون لڑکے اور لڑکیاں تھے ،وہ بہت خوش ہوئے سمجھے کہ یہاں کوئی فیسٹیول ہو ریا ہے ، وہ بھی شڑٹیں اتار کیچڑ میں کود پڑے اور ایک دوسرے پہ کیچڑ پھینکنے لگے ، کچھ جزباتی نوجوان اپنے جزبا ت کی تاب نہ لاتے ہوئے بیچ میں کود پڑے ، گورے لوگ باباجی کی جوان دلی جو حادثاتی طور پر وقوع پزیر ہوئی تھی سے بہت متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے لگے ، بابا جی بہت جوان نظر انا شروع ہو کئے ایک دم سے ، خیر ہم نے جانا تھا سفر میں کچھ دیر کے لیے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی ، گاڑی کا سلف لگتے ہی سب کو جیسے سانپ سونگھھ ہو ، اس سے آگے سڑک کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ، بہت سے لوگ تو یہ ماننے سے ہی انکاری تھے کہ یہاں کبھی سڑک بھی ہوا کرتی تھی ، پر میں نے دو سال کی محنت کے بعد کم سے کم ۸ ایسی جگہ ڈھونڈ نکالی تھی جس سے یہ گماں ہوتا تھا کہ یہاں کبھی سڑک بھی یوا کرتی تھی ،اس راستے میں دو چیزیں تھیں ایک کھڈے اور دوسری بڑے کھڈے ، کیونکہ گاڑی کی بریک نہیں تھی تو چھوٹے کھڈوں سے چلتے ہوئے بڑے کھڈے سے گزرتے ہوئے ڈرائیور ایک نعرہ مارتا جس سے سب سمجھ جاتے کہ گاڑی طوفانی ہچکولا کھانے والی ہے ، لیکن اکثر ڈرائیور یا تو بھول جاتا یا لیٹ نعرہ مارتا ، بس کون کون سے درد نکلتے اور کہا کہا سے نکلتے مت پوچھیں اگر کھانا جی بھر کر کھا کر سفر کو نکلے ہیں تو خوب ہضم ہو گا ، بلکہ ایسا ہضم ہو گا کہ معدہ پہ دبائو کی وجہ سے بخارات بن کر تابکاری کے اثرات والے زہریلی ڈکاروں کی صورت گاڑی میں موجود ستم زدہ لوگوں پہ ایک قیامت اور دھائیں گے، اگر آپ خالی پیٹ ہیں تو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے باقی اعضاء معدے کی طرف سرکیں گے ، اور اندر سے ایسی آوازیں آہیں گی جیسے پرانی راڈو کی گھڑیوں کے اندر سے آتی تھیں جب گاڑی بل آخر ہری پور کے اڈے کی طرف پہنچی تو ویاں دو قطاریں لگی ہوئی تھیں ایک طرف آنے والوں کے عزیز و اقارب جو کہ مٹھائی اور پھولوں کے ہار لیے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ورثاء لیکن ان دونوں قطاروں والوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ ان کی رشتہ دار غازی ہے یا شہید ، سو وہ ہر دو طرح سے تیار ہوتے ہیں ، کہ جانے کس وقت کس قطار میں شامل ہونا پر جائے اور وقت آنے پہ وہ عورتیں قطار کے ساتھ ماتھ حلیہ بدلتی ہیں وہ قابل دید ہوتا ہے ، ویاں پہ ایک فلاحی ہسپتال
ہلیجئے گاڑی چلنے کو تیار ہے ، گاڑی سٹارٹ کیا ہوئی ہچکولے کھانے لگی ، سب کلمہ پڑھنے لگے۔خانپور روڈ پر چلنے والی گاڑی کی حالت ایسی ہوتی ہے گویا گاڑی کو لقوہ ہو گیا ہو ، یعنی رات کو گاڑی چل تو سڑک پر رہی ہوتی ہے ، اور اس کی ہیڈ لائٹس برابر والے مکانوں میں لگ رہی ہوتی ہیں، ، سفر کے پہلے بیس منٹ تو راولپنڈی روڈ پہ ہی گزرے ، یہ وقت ضائع بہت قیمتی ہے ، اس میں لمبی لمبی سانس لے لیں ، کیا معلوم دوبارہ موقع ملے نہ ملے ،جی یہاں سے آگے دائیں ہاتھھ خانپور روڈ کی طرف گاڑی مڑی، سب سے پہلے یو -ای- ٹی ٹیکسلا کے مین گیٹ کے سامنے سے گزر ہوا یہاں تک سڑک کے آسار موجود تھے ، لیکن اصل مرحلہ اس سے آگے شروع ہو گا ،اس کے بلکل آگے کھنڈرات ٹیکسلا شروع ہونے تھے ، جب اس دوراہے پر پہنچے تو وہاں ایک بورڈ آویزاں تھا ، لیکن مست کا تعین نہیں کیا گیا تھا ، اور جو سڑک کھنڈرات کی طرف جاتی ہے ، وہ نسبنآ پختہ تھی جبکہ خانپور روڈ بلکل خستہ ہے تو باہر کے ممالک سے آنے والے سیاح خانپور روڈ ہی کو کھنڈرات سمجھ کر ادھر ہی گھوم پھر کر واپس اپنے ملکوں کو چلے جاتے ہیں ، اس سے آگے سنگ تراشوں کا بازار ہے ، شاید یہ فن اب پاکستان میں بیت کم جگہوں پر اپنایا جاتا ہو گا ، اس میں خاص طور پر قبروں کے کتبے اور ڈیکوریشن کی جیزیں پتھر سے بنائی جاتی ہیں ، یہاں ذرائع کے مطابق دنیا کا سب سے بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ہے ایک طرف ٹیکسلا کے میوزم کی دیوار دوسری طرف پتھر توڑنے والے کاریگر درمیاں میں ایک کلومیٹر سے بھی بڑا کیچڑ کا ذخیرہ ، اس زخیرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خشک سالی میں بھی نہیں سوکتا ، کیونیکہ گھروں کی سیورج کا سارا پانی یہں جمع ہوتا ہے ، کیچڑ میں پتھر کے سیمنٹ نما زرات کیچڑ کی گرفت کو مضبوط تر کر دیتے ہیں ، کیونکہ پہلے یہاں سڑک ہوا کرتی تھی اس لیے گاڑیوں کو اسی ذخیرے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے ، ہمارے آگے ایک بابا جی سائیکل پر اس دریا کو عبور کرنے کی کوشش کرنے لگے ، باباجی نے پائنچے گھٹنوں سے اوپر چڑیائے ، قمیض اتار کر شاپر میں ڈالی جو سٹینڈ سے باندھی ، اللہ اکبر کے نعرے لگا کر گویا وہ پل صراط عبور کرنے کو نکل پڑے ، ابھی کچھ ہی آگے گئے تھے کہ ایک دکان میں سے نوجوان نے دور سے باباجی کو والحانہ سلام کیا بابا جی نے بھی گرم جوشی دکھائی اور دونوں یاتھوں سے کسی لیڈر کی طرح اس کا جواب دینےلگے ، ایک دم سائیکل بدکی ، اور بابا جی سائیکل سمیت کیچڑ کی آغوش میں چلے کئے ، باباجی سر سے پاّئوں تک کیچڑ میں لت مت ، نوجوان کو صلواتِن سنانے لگے ، ایک دو درد ل حضرات بابا جی کی مدد کے لیے آگے بڑھے ، بمشکل وہ بابا جی تک پہنچے دونوں ایک ایک طرف سے باباجی کو تھاما ، اور ان کو آٹھانے لگے ، بجائے اس کے کہ وہ بابا جی کو اٹھاتے ،الٹا خود ویاں باباجی پر گر پڑے ، بابا جی کی صلواتیں مزید اونچی ہو گئیں اوران میں دو ناموں کا آضافہبھی، اسی اثنا میں چار پانچ بچے آئے وہاں ، بچوں کی یہ قسم صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہے ، بغیر چپل ، صرف کالی بنیاں میں جو کبھی صفید یوا کرتی ہو گی ، رنگ گندمی ، گندمی اس کیے کہ اگر کبھی دّھویا جائے تو غالبآ گندمی ہی ہو گا ، یہ اور بات کہ آن کا دھلا ہوا کبھی کسی نے نہیں دیکھا ، انھوں نے بنا دیکھے ہی اپنے سویمنگ پول میں چھلانکیں مار دیں ، وہ روزانہ ویاں نیآتے ہیں ، اور ان کی چھلانگوں سے چھینٹے بابا جی پر آڑنے لگے ، اسی اثناء میں وہاں کچھ غیرملکی گورے بھی پہنچ آئے ، جو غالبا اس سڑک کو کھنڈرات سمجھ کر اس طرف آ نکلے ، ان میں چھھ کے قریب نواجون لڑکے اور لڑکیاں تھے ،وہ بہت خوش ہوئے سمجھے کہ یہاں کوئی فیسٹیول ہو ریا ہے ، وہ بھی شڑٹیں اتار کیچڑ میں کود پڑے اور ایک دوسرے پہ کیچڑ پھینکنے لگے ، کچھ جزباتی نوجوان اپنے جزبا ت کی تاب نہ لاتے ہوئے بیچ میں کود پڑے ، گورے لوگ باباجی کی جوان دلی جو حادثاتی طور پر وقوع پزیر ہوئی تھی سے بہت متاثر ہوئے اور ان کے ساتھ تصویریں کھنچوانے لگے ، بابا جی بہت جوان نظر انا شروع ہو کئے ایک دم سے ، خیر ہم نے جانا تھا سفر میں کچھ دیر کے لیے چہرے پہ مسکراہٹ آئی تھی ، گاڑی کا سلف لگتے ہی سب کو جیسے سانپ سونگھھ ہو ، اس سے آگے سڑک کا کوئی نام و نشان نہیں تھا ، بہت سے لوگ تو یہ ماننے سے ہی انکاری تھے کہ یہاں کبھی سڑک بھی ہوا کرتی تھی ، پر میں نے دو سال کی محنت کے بعد کم سے کم ۸ ایسی جگہ ڈھونڈ نکالی تھی جس سے یہ گماں ہوتا تھا کہ یہاں کبھی سڑک بھی یوا کرتی تھی ،اس راستے میں دو چیزیں تھیں ایک کھڈے اور دوسری بڑے کھڈے ، کیونکہ گاڑی کی بریک نہیں تھی تو چھوٹے کھڈوں سے چلتے ہوئے بڑے کھڈے سے گزرتے ہوئے ڈرائیور ایک نعرہ مارتا جس سے سب سمجھ جاتے کہ گاڑی طوفانی ہچکولا کھانے والی ہے ، لیکن اکثر ڈرائیور یا تو بھول جاتا یا لیٹ نعرہ مارتا ، بس کون کون سے درد نکلتے اور کہا کہا سے نکلتے مت پوچھیں اگر کھانا جی بھر کر کھا کر سفر کو نکلے ہیں تو خوب ہضم ہو گا ، بلکہ ایسا ہضم ہو گا کہ معدہ پہ دبائو کی وجہ سے بخارات بن کر تابکاری کے اثرات والے زہریلی ڈکاروں کی صورت گاڑی میں موجود ستم زدہ لوگوں پہ ایک قیامت اور دھائیں گے، اگر آپ خالی پیٹ ہیں تو معدہ خالی ہونے کی وجہ سے باقی اعضاء معدے کی طرف سرکیں گے ، اور اندر سے ایسی آوازیں آہیں گی جیسے پرانی راڈو کی گھڑیوں کے اندر سے آتی تھیں جب گاڑی بل آخر ہری پور کے اڈے کی طرف پہنچی تو ویاں دو قطاریں لگی ہوئی تھیں ایک طرف آنے والوں کے عزیز و اقارب جو کہ مٹھائی اور پھولوں کے ہار لیے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف ورثاء لیکن ان دونوں قطاروں والوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ وہ ان کی رشتہ دار غازی ہے یا شہید ، سو وہ ہر دو طرح سے تیار ہوتے ہیں ، کہ جانے کس وقت کس قطار میں شامل ہونا پر جائے اور وقت آنے پہ وہ عورتیں قطار کے ساتھ ماتھ حلیہ بدلتی ہیں وہ قابل دید ہوتا ہے ، ویاں پہ ایک فلاحی ہسپتال
نے عوام کی فلاح کے لیے ایک ایمبولنس اور خصوصی تربیت دی ہوئی "نروسیں" تعینات کی ہوئی ہیں ، خصوصی تربیت اس لیے کہ وہاں پہنچنے والے بیشتر لوگوں کا سانس رکا ہوا ، نبض بند اور دھڑکن ختم ہو چکی ہوتی ہے عام "نروس" تو ان کو مردہ سمجھ کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دے ، لیکن ان کوکسی دوائی کی ضرورت نہیں ہوتی بس ان کو یہ یقین دلانا ہوتا ہے کہ وہ صحیح سلامت پہنچ چکے ہیں ہری پور ، تو وہ آٹھھ کھڑے ہوتے ہیں ، کپڑے جھاڑ کر گھروں کو روانہ ہو جاتے ہیں، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔