آماں کو اس بستر پہ لیٹے چھ سال ہو گئے تھے ، وہ سوچنے سمجھنے ، پہچاننے کی صلاحیت بہت عرصہ پہلے کھو چکی تھیں، وہ ایک بستر پہ پڑی رہیں ، کوئی زی شعور انسان اتنا عرصہ بستر پہ نہیں رہ سکتا، یہ اللہ کی حکمت تھی کہ زماں و مکاں سے لا علم کر دیا گیا انکو ، کبھی بات بھی کرتیں تو کسی اور دور کی ، ان کے زہن میں بھی وہی تین چار جگہیں جہاں انہوں نے بیشتر زندگی گزاری تھی گھومتی رہتی ، اماں کو کھانا کھلانا بہت مشکل تھا ، کبھی تو کھا لیتیں ،اور اگر ضد پہ اڑ جاتیں تو منہ نہ کھولتی ، ان کا کمرہ گھر کے کونے میں تھا جس کو باہر سے بھی رستہ جاتا تھا اور اندھر ٹی وی لائونج سے بھی ، لیکن ٹی وی لائونج والا دروازہ اکثر بند رہتا تھا ۔ آماں کو دیکھ کر دل بڑا دکھتا تھا کوشش کے با وجود بھی ان کے لیے کچھ کر نہیں پاتا تھا ، صفائی کا بہت مسئلہ تھا ، نرس آتی تو تھی لیکن اماں کو بلکل شعور نہ تھا ، سو لگاتار صفائی رکھنا بلکل ممکن نہ تھا ، پیپمر وغیرہ اتار پھینکتیں بدبو بھی رہنے لگی ان کے کمرے میں
۔ یہ گھر کا سب سے مشکل دور تھا ، ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی ، ایسے وقت میں اپنی اولاد کے علاوہ اور اکثر تو اپنی اولاد بھی ساتھ نہیں دے پاتی۔ سب کو عادت سی ہو گئی اور شاید ان کو بھی ، وہ نہ شکوہ ، کوئی فرمائش ، نہ ہی کبھی درد یا تکلیف کی شکایت ۔ اور نہ کبھی کچھ مانگتیں۔ ان کے ساتھ رہ کر ہوں لگنے لگا کہ شاید انکو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ، ہمیں عادت سی ہو گئی ان کے ایسے ہی رہنے کی۔ ان کی یہ حالت ہمیں نارمل لگناے لگی ، شاید اس لیے بھی کہ بیمار ہونے کے بعد ہی ان کواس گھر لایا گیا تھا ، اور اس گھر نے انکو قریب سے اسی حالت میں دیکھا تھا۔ پر سب اپنی جگہ بے بس بھی تھے ، کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے،
۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ، وہ جب تک ہیں تو لیٹی ہیں ، جب چلی جائیں گی تو ان کی تکلیف ہی کم ہو گی ، گھر پہ کچھ فرق نہ پڑے گا۔ بس ایک تکلیف جو انکو دیکھ کر ہوتی تھی وہ کم ہو جائے گی ، ان کی زمہ داری کم ہو جائے گی ۔ اماں کو کبھی کوئی ملنے نہ آیا تھا ان کے رشتہ داروں میں سے جن کے وہ ساری عمر صدقے واری جاتی رہیں ،جن پہ اپنا سب کچھ لٹاتی رہیں، سب مصروف ہو گئے اپنے کاموں میں ، اور اماں نے شاید رستہ دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا خود کو اس دنیا سے لاتعلق کر کے۔ بلکہ وہ تو اس اس گھر والوں کا بھی نہ انتظار کرتیں، انہوں نے اپنی کوئی اور ہی دنیا بسائی ہوئی تھی جس میں کچھ بچے اور عورتیں تھیں جن سے وہ کبھی کبھی باتیں کرتیں جو پاس بیٹھا ہوتا اس کو بھی انہی کے متعلق بتاتی رہتی ، یا کوئی پرانی بات جو ان کے زہن میں آجاتی اس کا پوچھتی بار بار۔
پھر اماں کی طبیعت بہت بگڑ گئی، وہ چلانے لگیں، مطلب انکو تکلیف زیادہ ہو گئی تھی ورنہ تو پچھلے سالوں میں شاید درد سے بھی رشتہ توڑ چکی تھیں کہ کبھی ایسا نہ کیا تھا، ڈآکٹر کو دکھایا تو اسنے وہی دوائیاں جاری رکھنے کو کہا۔ عالم نزع تھا ان پہ ، گھر میں سب کو اندازہ ہو چکا تھا ، رات بمشکل گزری صبح سات بجے کے قریب اماں اس دنیا سے چلی گئیں ، ایسے مسکینی میں گئیں کہ دل ازردہ ہو گیا ، ایک بوجھ اترا لیکن دل بوجھل ہو گیا ،
ایک مہینہ تو ماتم میں ہی گزرا ، مہمان آتے رہے ، مصروفیت رہی ، جمعرات کو لوگ زیادہ بلائے جاتے، لیکن پھر حالات بدلنے شروع ہو گئے ، اس کے بعد پائوں سیدھے نہیں ہوئے ، وقت نے اپنے دھارے پہ کر لیے پورے گھر کو ، جس طرف موڑتا ہم پڑتے جاتے ، سب کچھ اس تیزی سے ہوتا رہا کہ سمجھ سے بالاتر تھا ، کچھ بیماریاں ، کچھ چیزیں جیسے چھپی بیٹھیں تھیں یا اماں ان کو روکے بیٹھی تھیں ، ا ن کے جانے کے انتظار میں تھیں ، جیسے چھ سال کے سارے واقعات اب چھ مہینے میں ہونا تھے ، ہمیں کبھی نہیں پتہ ہوتا کہ کون کیا ہے ، اور اس سے ہمارے لیے کیا کیا ہے ، یہ بات میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ اماں نے نہ جانے کیا کیا روک رکھا ہے جو وہ یوں ہیں، تب لگتا تھا ہماری بے بسی ساتھ لے جائیں گی اور اس کرب سے ہمیں چھٹکارہ دلا دیں گی ، لیکن اس کا اندازہ لگانا تب بہت مشکل تھا ، سمجھ نہیں اتی تھی ، ہمیشہ یہی لگتا کہ کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا ، آسانی ہو گی مزید ان کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی ، لیکن وہ گئیں تو گویا بند ٹوٹ گیا ، ساری آزمائشیں سیلاب کی طرح بہتی سر پہ آن پہنچیں ۔۔ ان کو روکنے والا ، جس کی برکت سے وہ رکی تھیں وہ جا چکا تھا، بظاہر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں تھیں ، تو بھی وہ بہت کچھ کر رہی تھیں ،
ہم یہ بات کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے کون ہمارے زندگی میں کیا ہے اور اس کے ہونے سے کیا کیا ہے ، پتہ تب چلتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں
بلا امتیاز
October 17, 2016
January 28, 2013
ہتھ دکھائی (اصلی ڈفری پوسٹ)
نوٹ: نقالوں سے ہوشیار ، ڈفری پوسٹ کو پڑھ کر پہچانیں،
پچھلی ڈفری پوسٹ انوکھا لاڈلا اصلی نہیں تھی ، سینٹی منٹل ہونے والوں پہ "آہو" ۔
پچھلی ڈفری پوسٹ انوکھا لاڈلا اصلی نہیں تھی ، سینٹی منٹل ہونے والوں پہ "آہو" ۔
زیرا چہرے پہ کمینی ہنسی سجائے ہر کسی کو دیکھ کر دور سے ہاتھ دکھاتا اور زیر لب کہتا یہ ہاتھ دیکھا ہے میرا تیرے بوتھے پہ چھاپ دوں گا ، اور بہت سے کام آتے مجھے اس سے ، اور جواب میں اگلا بندہ بڑا مشکور ہو کر کہتا کہ بس ٹھیک ٹھاک ، اے ون ، تم سنائو اور یہ سننے ہی زیرے کا ہاتھ اور باچھیں مزید پھیل جاتیں اور پیلے دانت مزید نمایاں ہو جاتے اوراگر سامنے والے کے ساتھ کوئی بچپنی رنجش ہوتی اسی کمینی ہنسی کے ساتھ ہاتھ کو ہتھیار بنا کر اس کے شجرہ نسب میں غیر قانونی مداخلت کرتا اور مفہول ممنون و مشکور ہی ہوا جاتا ، پس زیرا اسی ہتھ دکھائی کی وجہ سے بڑا خوش اخلاق سمجھا جاتا تھا
کالج سے واپسی پہ راستے میں نجومی بیٹھتا تھا رمضان عرف رمضو نجومی ، ایک روز سب اس کے پاس جا بیٹھے ، باری باری ہاتھ دکھانے لگے ، ، فاجے نی الٹا ہاتھ آگے کیا ۔ رمضو نے ہاتھ کو بہت مقدس چیز کی طرح ہاتھوں میں تھام لیا اور گویا مفکرانہ و مدبرانہ سوچ میں ڈوب کر سر جھکا لیا اور دوبارہ سر اٹھایا تو ایسے ہلایا جیسے اس نے اس دنیا کا کوئی اہم راز جان لیا ہو اور بولا یہ کوئی عام ہاتھ نہیں ہے ، ایسے ہاتھ کروڑوں ہاتھوں میں ایک ہوتا ہے اس پہ کوئی لکیر نہیں بلکل صاف ہے ، یہ نایاب ہے اور بہت خوشقسمتی کی علامت ہے ، اتنے میں کاکا بولا رمضو استاد کوئی نایاب ہاتھ نہیں یہ ،فاجے کے ہاتھ کی لکیریں کسی اور جگہ منتقل ہو گئی ہیں ، یہ سننا تھا کہ شمسے نے آواز لگائی رمضو کوڑا ہی اوئے ، اس پہ ہمارے قہقے اور رمضو کوڑا کے نام سے علاقے میں مشہور ہو گیا ، اور ابھی تک اسی نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے لیکن جب بلایا جاتا تو پھر اس کی قوالی پورا بازار سنتا ہے ، تین مہینے بعد اس نے کالج کا راستہ چھوڑا اور چھ مہینے بعد شہر، اور فاجے کا پچھلے پنچ پر بیٹھ کر الٹا ہاتھ ہمیشہ جیب میں رکھنے کی منطق بھی سمھ آئی۔ ،
اعزاز روز شام کو راجہ بازار نکل جاتا ضروری کام کا بہانہ بنا کر ، ساجد عرف مُلاں پیچھے اس کے خلاف فتوے ٹھوکنے شروع کر دیتا کہ یہ ضرور وہاں کچھ ہاتھ دکھاتا ہو گا ، اس پہ مُلاں کی بیستی خراب ہوتی کہ تجھے کیا لگے چاہے وہ ہاتھ دکھاتا ہو ، ہاتھ کراتا ہو یا کرواتا ہو ، ، لیکن شک ہمیں بھی تھا کہ اعزازے کو یہ مفرد اعزاز حاصل تھا کہ وہ کالونی کے ایک گھر کی دیوار سے اترتے ہووے پکڑا گیا تھا ، ، محلے والوں اور پولس سے لترول کروانے کے بعد روتے وے ہمیں بتایا کہ اصل بندہ تو اندر سے شور پڑنے پہ دروازے کے رستے نکل لیا تھا میں نے تو کچھ کیا بھی نی تھا ، میں تو دیوار پہ چڑھ کر صرف دیکھ رہا تھا ، شور مچا تو مجھے دیوار سے اترنے میں دیر ہو گئی اور پکڑا گیا ، ، خیر نام جو اعزاز رکھا تھا اس کے ابے نے ، ستارے تو اس نے لگوانے تھے لیکن جگہ اس سے غلط سیلیکٹ ہو گئی تھی لگوانے کی بس ، ایک دن فون آیا اعزازے کا کہ میں ہسپتال میں ہوں پہنچو ، وہاں پہنچے تو اعزازے کی کوئی جگہ ایسی نی نظر آتی تھی جہاں اگلوں نے ڈنڈا نہ برسایا ہو ، اور سب سے زیادہ اس واحد جگہ پہ جو چھپی ہوئی تھی اور اعزا الٹا پڑا تھا کہ سیدھا لیٹنے کی تشریف میں سکت نہیں تھی، پتہ لگا کہ موصوف زنانہ بازار میں رش والی جگہ پہ "نو گو ایریا " میں ہاتھ لینڈ کرانے کی کوشش میں دھرا گیا تھا، اور اس پارٹی کی کال پہ سب بھائی لبیک کہتے وے اس پہ ٹوٹ پڑے ، اور دکاندار کا موقع پہ بیان کہ "روز اتھے مشکاں مارنے آندا اے" نے جلتی پہ تیل والا کام کیا ، ہسپتال میں پولیس بھی انتظار میں موصوف کی مہمان نوازی کرنے ، بڑی مشکل سے مک مکا کرایا ، پھر پھر اعزازے کا وہی رونا میں نے کچھ نہیں کیا تھا میں تو صرف دیکھتا تھا ، وہ ایک انٹرا وسکلر انجیکشن بزریعہ دست لگانے والا گروہ تھا انٹرا وسکلر ٹیکے تو بچپن میں سب نے ہی لگوائے ہونے نہیں تو گیلانی اور شیری کی ویڈیو سب کو یاد ہی ہونی، جو چلتے چلتے ہاتھ کی صفائی دکھا کر ایک طرف سے نکل جاتا اور متعلقہ پارٹی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ اعزاز کی لعنتی شکل دیکھنے کو ملتی ، ، اس ڈاکٹر گروپ کی ہاتھ صفائی سے اعزازے کی یہ حالت دیکھ کر مُلاں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بولا ، یار " تو ہتھ ہی لا لیندا کم تو کم "
اعزاز روز شام کو راجہ بازار نکل جاتا ضروری کام کا بہانہ بنا کر ، ساجد عرف مُلاں پیچھے اس کے خلاف فتوے ٹھوکنے شروع کر دیتا کہ یہ ضرور وہاں کچھ ہاتھ دکھاتا ہو گا ، اس پہ مُلاں کی بیستی خراب ہوتی کہ تجھے کیا لگے چاہے وہ ہاتھ دکھاتا ہو ، ہاتھ کراتا ہو یا کرواتا ہو ، ، لیکن شک ہمیں بھی تھا کہ اعزازے کو یہ مفرد اعزاز حاصل تھا کہ وہ کالونی کے ایک گھر کی دیوار سے اترتے ہووے پکڑا گیا تھا ، ، محلے والوں اور پولس سے لترول کروانے کے بعد روتے وے ہمیں بتایا کہ اصل بندہ تو اندر سے شور پڑنے پہ دروازے کے رستے نکل لیا تھا میں نے تو کچھ کیا بھی نی تھا ، میں تو دیوار پہ چڑھ کر صرف دیکھ رہا تھا ، شور مچا تو مجھے دیوار سے اترنے میں دیر ہو گئی اور پکڑا گیا ، ، خیر نام جو اعزاز رکھا تھا اس کے ابے نے ، ستارے تو اس نے لگوانے تھے لیکن جگہ اس سے غلط سیلیکٹ ہو گئی تھی لگوانے کی بس ، ایک دن فون آیا اعزازے کا کہ میں ہسپتال میں ہوں پہنچو ، وہاں پہنچے تو اعزازے کی کوئی جگہ ایسی نی نظر آتی تھی جہاں اگلوں نے ڈنڈا نہ برسایا ہو ، اور سب سے زیادہ اس واحد جگہ پہ جو چھپی ہوئی تھی اور اعزا الٹا پڑا تھا کہ سیدھا لیٹنے کی تشریف میں سکت نہیں تھی، پتہ لگا کہ موصوف زنانہ بازار میں رش والی جگہ پہ "نو گو ایریا " میں ہاتھ لینڈ کرانے کی کوشش میں دھرا گیا تھا، اور اس پارٹی کی کال پہ سب بھائی لبیک کہتے وے اس پہ ٹوٹ پڑے ، اور دکاندار کا موقع پہ بیان کہ "روز اتھے مشکاں مارنے آندا اے" نے جلتی پہ تیل والا کام کیا ، ہسپتال میں پولیس بھی انتظار میں موصوف کی مہمان نوازی کرنے ، بڑی مشکل سے مک مکا کرایا ، پھر پھر اعزازے کا وہی رونا میں نے کچھ نہیں کیا تھا میں تو صرف دیکھتا تھا ، وہ ایک انٹرا وسکلر انجیکشن بزریعہ دست لگانے والا گروہ تھا انٹرا وسکلر ٹیکے تو بچپن میں سب نے ہی لگوائے ہونے نہیں تو گیلانی اور شیری کی ویڈیو سب کو یاد ہی ہونی، جو چلتے چلتے ہاتھ کی صفائی دکھا کر ایک طرف سے نکل جاتا اور متعلقہ پارٹی کو پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ اعزاز کی لعنتی شکل دیکھنے کو ملتی ، ، اس ڈاکٹر گروپ کی ہاتھ صفائی سے اعزازے کی یہ حالت دیکھ کر مُلاں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ بولا ، یار " تو ہتھ ہی لا لیندا کم تو کم "
عینی میرے پچھلے محلے رہتی تھی اور مجھے پہلا عشق اس سے ہونا لازم تھا کہ اس کے گھر کی پچھلی دیوار میرے گھر کے ساتھ مشترک تھی ، اور میری پتنگ اس کی چھت پہ اور اس کے کپڑے میری چھت پہ (یاد رہاے سکھانے کے لیے لائے جانے والا کپڑے ) اکثر پائے جاتے ، عینی نیڈو میرے بہترین دوست کے ساتھ ٹیوشن پڑھتی اور دانے یعنی عدنانے کی بہن کی پکی دوست تھی ، ، اور ہم تینوں یک جان تین قالب، احساس ہوا کہ تینوں ہم ایک دوسرے تیسرے سے کچھ چھپا رہا ، تینوں کو ایک دوسرے پہ یہی شک ، عینی چھت پہ مجھے ٹیم دیتی ٹیوشن سے پہلے ، ٹیوشن میں نیڈو کو اور ٹیوشن سے واپسی پہ دانی کی بہن سے ملنے کے بہانے دانی کو ، ، عینی کی کیمسٹری کی پریکٹیکل کی کاپی میں نے ، فزکس کی دانی نے ، اور بیالوجی کی نیڈو نے بنائی ، تینوں اپنی جگہ اس کی محبت میں شرابور تھے ، تینوں نے کنجوسی جو شروع کر رکھی تھی ، کہ نیڈو اس کو ایزی لوڈ کراتا ، دانی گفٹ بھیجتا اور میں کنگلا دوڑ دوڑ اس کے گھر کے کام کرتا چھت مشترک کے فائدے۔۔ ،
ایک دفعہ ہم تینوں روڈ ناپ رہے تھے کہ عینی گزری دانی ندیدو کی طرح اسکو دیکھنے لگا ، نیڈو کو غیرت آ گئی اس نے کہا میری ہے ، میں نے چھلانگ ماری کہ میری ہے ، ، تینوں نے فیصلہ کیا کہ کل سیالی گرائونڈ میں پہنچ جانا فیصلہ ہو گا، اگلے دن ہم پہنچے پہلے تو دلیلیں اور خرچے و خدمت کے حصاب سے میری بنتی ، تینوں کے راز ایک دوسرے کے سامنے کھلے بات ہاتھا پائی تک پہنچ آئی اتنے میں فرید عرف نائی بھاگتا ہوا آیا نہ ہمیں روکا ، نہ چھڑایا ، اتنا کہہ کر واپس ہو لیا کہ عینی جیلے کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی ، ہم نے اس کو گالیاں دیں اور ایک دوسرے کو لاتیں اور مکے کہ ایک دم زہن میں آیا کہ کیا ، عینی بھاگ گئی اس چنگھڑ کے ساتھ ؟؟؟ جیلے جہاز کے ساتھ ؟؟
صاحب ہر کسی کا ہاتھ دکھایا ہوا تکلیف دیتا ہے ، لیکن بچی جب ہاتھ دکھا جائے تو بہت پھٹتی ہے صاحب ، وہ ہم تینوں کو ایک دوسرے کے سامنے کانا کر گئی ، کافی دن ایک دوسرے کے سامنے نی آ سکے ، اب بھی جب اگٹھے بیٹھتے ہیں اور اس کی ہاتھ دکھائی یاد آ جائے تو بیغرتو کی طرح دانت نکالتے ہیں ، ،پھر تھوڑے سے شرمندہ اور پھر قہقے
November 25, 2012
نیئک محترم
میں ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں کرسی پہ پیٹھ کر ہیٹر کی جالی کے ڈنڈے گن رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور میں شمار بھول گیا ، فون کرنے والے کو دو تین گالیاں دینے کے بعد میں نے فون اٹھایا اور نہایت اخلاق سے اسلام علیکم کہا ، آگے سے جو آواز آئی تو گویا کان کے پردے پھٹنے لگے فون کو کان سے دور کیا ، سوچا کہ اتنی اونچی آواز سے بولنا تھا تو فون کرنے کی کیا ضرورت تھی براہ راست بھی آواز پہنچ ہی رہی تھی ، دوسری طرف کوئی انتہائی تھکی ہوئی پنجابی میں ہمکلام تھا ، سلام دعا کے بعد پتہ چلا کہ نیئک کی فون ہے اور نیئک فیصل آباد سے اسلام باد آیا ہوا ہے ، تفصیلات پتا لگیں کہ نیئک کو ایک چھوٹا بھی میسر ہے گویا جوڑی پوری ہے ، اور نیئک جی ایٹ مرکز انے پہ رضا مند ہو گیا ، میں ہسپتا ل کے کاموں مین مصروف ہو گیا ایک گھنٹے بعد دوبارہ کال ائی میں کال ریسیو کر کے فورآ موبائل سے چھ فٹ دور کھڑا ہو گیا تب کانوں کو کچھ سکون ملا ، پتہ چلا کہ نیئک بمعہ اپنے چھوٹے کے وہاں پہنچ چکا ہے ، جب میں نیچے گیا تو نیئک نے گیٹ کے باہر سے مجھے دیکھا اور پھر ایک طرف کو چھپ گیا ، گویا نیئک شرمیلی طبیعت کا مالک تھا ، میں چل کر نئیک کے پاس گیا ، نیئک واقعی نیئک تھا ، نیئک کا منہ جو پہلے سے کھلا ہوا تھا مزید کھل گیا نیئک ہینکی بینکی شخصیت کا مالک تھا ، ساتھ ہی نیئک کا چھوٹا تھا جو بنا ہیلمٹ اتارے میرے سامنے کھڑا ہو گیا ، سوچا شاید یہ نیئک سے بھی زیادہ شرمیلا ہے ، ، بمشکل چھوٹے کا ہیلمٹ اتروایا ، تو واہ جناب ، نیئک تو نیئک ، نیئک کا چھوٹا سبحان اللہ،،
خیر نیئک اور چھوٹے کو لیکر میں ہسپتال کے کمرے میں آ گیا ، وہاں مجھ پہ آشکار ہوا کہ نیئک بے وجہ نیئک نہیں بنا ، نیئک کی معاملہ فہمی ، سمجھداری اور مریض کی پرسش حال اور تسلی دینے کی مثال اس رہتی دنیا میں نہیں مل سکے گی ، نیئک نے میرے مریض کے سامنے پہلے تو موت کی باتیں شروع کر دیں ، پھر ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ فکر نہ کریں یہ دوا دارو موت کو ایک منٹ بھی دور نہیں کر سکتے ، پھر مریض کے مرض کی مماثلت مین ایک اور مریض کا حال جب سنانا شروع کیا تو میرے مریض کی انکھیں باہر کو آنا شروع ہو گئیں اور رنگ پیلا پڑنا شروع ہو گیا ، موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ، لیکن سلام ہے نیئک کی عقل و دانش اور رازداری و پردہ داری پہ کہ جو ایک بات میں نے کسی کو نہیں بتائی تھی اسی کا زکر سب کے سامنے لیکر بیٹھ گیا ، مجبورآ مین نے استاز سے درخواست کی کہ باہر چل کر ہوٹل میں بیٹھتے ہیں
ہم تینوں ہوٹل کی طرف چل پڑے ، راستے میں نیئک کا طرز گفتگو چبا چبا کر بولنا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنا ہر راہ چلتے کو ایسا بھاتا کہ گردن کو ایک سو اسی پر ایسے گھماتے کہ چاہے گردن ٹوٹے تو ٹوٹ جائے لیکن دیدار سے محروم نہ رہ جائیں ، ، راستے میں چلتے چلتے نیئک اپنے کندھوں ، کمر اور گردن کو ہر تھوڑی دیر بعد ایسی حرکت دیتا کہ گویا مائیکل جیکسن کے گانے ڈینجرس کا سٹیپ کر رہا ہے اور مجھے بار بار دیکھنا پڑتا کہ نیئک کے کان میں ہینڈز فری تو نہیں لگے ہوئے ، ، پوٹل مین پہنچ کر گفتگو شروع ہوئی ، نیئک سے مل کرایسا محسوس ہوا کہ اس سے پہلی بار مل رہا ہوں یا نہیں لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ آخری ملاقات ہے، چھوٹا ایک حالات کے ستائے ہوئے چھوٹے کی طرح چپ ہی رہا ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایسی بات کرتا چھوٹی سی کہ پھر اس کو چپ کرانا مزید بھی ضروری ہو جاتا ، ، اس کی واحد بات جو مجھے پسند آئی وہ یہ تھی کہ وہ جاہل اور سنکی سے ملاقات کا متمنی تھا میں نے اسی وقت اسے دعا دی کہ وہ تجھے گود یعنی اپنی نئیکی میں لے لے۔نیئک کو ایک ایسی شخصیت کی کال آرہی تھی جو فیسبک و ٹویئٹر کا منٹو اور پطرس بخاری بننے کی کوشش کرتا رہتا یہ اور بات کہ سوچ اس نے جہازی پائی تھی۔ نیئک نے اس سے ملنے جانا تھا، صد شکر ہزار۔۔۔
نیئک واقعی گہرے سانوے (سانولے رنگ سے معزرت کے ساتھ) رنگ کا آدمی تھا ، حالات نے شاید اس اسکو تپا تپا کر ایسا کر دیا تھا ۔
نیئک ہر موضوع پر بات کر سکتا تھا ، اور وہ بھی بغیر سانس لیے ، سانس کے بجائے اس کے منہ سے لعاب باہر آتا تھا ،وہ انتہائی کنفوزں سے بات کرتا تھا،، چاہے بات مرغ پالنے کی ہو یا بٹیر، گھوڑوں کی مالش کرنی ہو یا کتوں کو نہلانا ہو ، نیئک جس کے متعلق بھی بات کرتا اس کی عزت تار تار کر دیتا ، پوری دنیا ہی اس کوپاگل دکھائی دیتی اور وہ واحد سیانا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس کا چھوٹا سو گیا اور مجھے اس کی باتیں ایسے سننی پڑیں جیسے میں اس کا چھوٹا بن گیا ہوں جب وہ رخصت ہوا تو دل میں لڈو پھوتٹنے لگے ، واپسی میں دل میں یہی خیال آتا رہا کہ کوئی کالا کتا بھی اس کا چھوٹا نہ بنے۔
اور تو اور کسی نے مجھ پہ یہ احسان نہیں کیا ، میں نے خود نیئک سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اب میں اپنے سوا کسی کو کوسنے بھی نہیں دے سکتا
پی ایس ۔۔۔۔
مجھے اسی روز ہی بلاگستان کی نیئر سلطانہ کا بھی فون ایا تھا ، وہ بھی ملنا چاہ رہا تھا اور اس ملاقات کے فورآ بعد یعنی اگلے دن ، اب سوال یہ کہ نیئر سلطانہ کون ، تو بات بات پہ نیئر سلطانہ کی طرح رونے ڈالنا تو کوئی ان صاحب سے سیکھے ۔
اب نیئک سے ملاقات کے بعد نیئر سلطانہ سے ملنا کا خیال
فیض نے کیا خوب کہا ہے
ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی
October 21, 2012
گاڑی برائے فروخت
اندر باہر سے جینوئن ہے جی گاڑی ـ اپنے رنگ اور کمپنی کنڈیشن میں ہے ـاور پرانی گاڑی ہے سٹیل باڈی ـ اجکل کی کاریں تو پیپر باڈی ہیں لگی اور رول ہو گئی ـ پیس گاڑی ہے ـ سکریچ لیس ہے بلکل صاف ـ چابی لیں اور ڈرائیو کریں ـ روپے کا کام نہیں ہے گاڑی میں ـ رکھنے والی گاڑی تو ہے ہی یہی نئی کاریں صرف ششکے ہیں ـ پسند اپنی اپنی ہوتی ہے مگر مجھے بہت پسند ہے جی گاڑی اور آپکو بھی ضرور پسند آئے گی ـ بس اپنے دیکھتے ساتھ پسند کر لینی ہے ـ مٹھائی کا ڈبہ اور بیانہ تیار رکھیں ـ اور یہ قیمت یقین کریں صرف آپکے لیے ہے ورنہ اس سے بیس ہزار اوپر مانگ رہا تھا اپنے بچوں کی طرح رکھا ہے مالک نے اس گاڑی کوـ
یہ وہ نقشہ تھا جو ڈیلر نے اٹھاسی کرولا کا کھینچا تھا ـ پرانی گاڑیوں میں اگر چہ زیادہ پرانی ہو چکی ہے مگر پھر بھی اچھی گاڑی سمجھی جاتی ہے خاص طور پر پہاڑی راستے اور کچے کے لیے ـ سو ڈیلر کی بتائی ہوئی گاڑی دیکھنے پہنچ گیا بمع چار دوستوں کے ساتھ جو جہاں بھی گئے چھت اور دروازہ انگلیوں کے ساتھ بجا کر واپس آ گئے پتہ انکو ککھ کا نہیں لگتاـ پہلی نظر جو گاڑی پہ پڑی تو خیال آیا کہ ہر کسی کو میں ہی ملا ہوں بنانے کے لیے ، پوری دنیا کو چونا لگانے کی مشق کرنے کے لیے میں ہی ہاتھ آیا ہوں ـ یا میرے ماتھے پہ بدھو لکھا ہے یا میں شکل سے وہ لگتا ہوں خیر نظر ڈیلر پہ ڈالی تو وہ روایتی ڈھیٹ پنے سے مسکرا دیا تھا گاڑی کی چھت سے رنگ اڑا ہوا تھا اور درازے کی ہتھیاں بھی رنگ کھو چکی تھی ـ پوچھنے پہ بتایا جی اپنے رنگ میں ہے ـ تیل لینے جائے ایسا اپنا رنگـ چاروں دروازوں پہ چابی کی سکریچیں ہوں گویا ـ ڈیلر بولا او یہ لیکاں لُوکاں کل ہی کوئی بچہ مار گیا ہے آجکل کے بچے بھی نا بس ـ بادل نخواستہ باقی گاڑی بھی دیکھنے لگا سلف مارا تو گاڑی کھانس کر خاموش ـ آواز آئی کہ لوکا جیا چھنڈا مارو جی ـ دل چاہا کہ ڈیلر کو آگے جونت کر چھنڈا مروائوں ـ بمشکل سٹارٹ ہوئی گاڑی تو واقعی کمپنی کنڈیشن میں تھی کہ نہ اس کے بعد کوئی چیز تبدیل ہوئی تھی ابھی تک نہ ٹھیک سے ریپیئر ـ ہر جگہ مکینک نے جگاڑ لگا رکھا تھا اور چلتے وقت ہر چگاڑ دھاڑ رہا تھا ـ
ڈیلر بھانپ گیا بولا جی بس ہلکی پھلکی ٹک پرچون لگے گی میرا دوست بولا سر جی یہ تو آپ تھوک پرچون لگا رہے ہیں ڈیلر سمجھ گیا کہ سائنس فیل ہو گئی ہےـ جی وہ چھوٹے نے دیکھی تو اس کو ابھی اتنی سمجھ نہیں میں نے میں نے کہآ کہ بڑے کو بھیجنا تھا ـ وہ ہنس کر بولا کہ میں مصروف تھا میں نے کہا کہ میں تمھاری نہیں بڑے کی بات کر رہا ہوں ـ اب وہ بات آگے پیچھے کرنے لگاـ چھوڑیں سر آپکو ایک اور گھر کی گاڑی دکھاتا ہوں اپنی نظر کی گاڑی ہے وہ تو ـ دوست بولا نی جی ہمیں تو یہی گاڑی پسند ہےـ ڈیلر زرا پریشان سا ہو گیاـ ہم نے کہا جو بھی ہو گاڑی تو مظبوط ہے پرانی گاڑی میں اتنا ہتھ پلا تو کرنا پڑتا ہے ـ اس نے پوچھا واقعی؟؟ ہماری تسلی کرانے پہ پھر سے اسکی کہانیاں سٹارٹ ہو گئیں ہم نے کہا بیانہ کر لیں ـ پھر ہم نے جو ریٹ لگایا تو وہ غصے میں آ گیا بولا یہ کونسا ریٹ لگا رہے ہیں کہا کہ اپنے جو قیمت بتائی تھی اس گاڑی کی تھی جو منہ سے بتائی تھی اور ہم نے اس گاڑی کی قیمت لگائی ہے جو سامنے ہے ـ اور یہ بھی بیس ہزار اوپر لگائے ہیں صرف آپکی وجہ سےـ پھر منگوائیں مٹھائی وہ دانت پیس کر رہ گیا بولا جائیں آپ ـ یہ کہہ کر تھوڑا چلے کہ دوست نےپہچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا ـ اور مالک نے اپنی بچی بھی اسی حالت میں رکھی ہوئی ہے کیا ۔۔۔۔۔ قہقے
یہ وہ نقشہ تھا جو ڈیلر نے اٹھاسی کرولا کا کھینچا تھا ـ پرانی گاڑیوں میں اگر چہ زیادہ پرانی ہو چکی ہے مگر پھر بھی اچھی گاڑی سمجھی جاتی ہے خاص طور پر پہاڑی راستے اور کچے کے لیے ـ سو ڈیلر کی بتائی ہوئی گاڑی دیکھنے پہنچ گیا بمع چار دوستوں کے ساتھ جو جہاں بھی گئے چھت اور دروازہ انگلیوں کے ساتھ بجا کر واپس آ گئے پتہ انکو ککھ کا نہیں لگتاـ پہلی نظر جو گاڑی پہ پڑی تو خیال آیا کہ ہر کسی کو میں ہی ملا ہوں بنانے کے لیے ، پوری دنیا کو چونا لگانے کی مشق کرنے کے لیے میں ہی ہاتھ آیا ہوں ـ یا میرے ماتھے پہ بدھو لکھا ہے یا میں شکل سے وہ لگتا ہوں خیر نظر ڈیلر پہ ڈالی تو وہ روایتی ڈھیٹ پنے سے مسکرا دیا تھا گاڑی کی چھت سے رنگ اڑا ہوا تھا اور درازے کی ہتھیاں بھی رنگ کھو چکی تھی ـ پوچھنے پہ بتایا جی اپنے رنگ میں ہے ـ تیل لینے جائے ایسا اپنا رنگـ چاروں دروازوں پہ چابی کی سکریچیں ہوں گویا ـ ڈیلر بولا او یہ لیکاں لُوکاں کل ہی کوئی بچہ مار گیا ہے آجکل کے بچے بھی نا بس ـ بادل نخواستہ باقی گاڑی بھی دیکھنے لگا سلف مارا تو گاڑی کھانس کر خاموش ـ آواز آئی کہ لوکا جیا چھنڈا مارو جی ـ دل چاہا کہ ڈیلر کو آگے جونت کر چھنڈا مروائوں ـ بمشکل سٹارٹ ہوئی گاڑی تو واقعی کمپنی کنڈیشن میں تھی کہ نہ اس کے بعد کوئی چیز تبدیل ہوئی تھی ابھی تک نہ ٹھیک سے ریپیئر ـ ہر جگہ مکینک نے جگاڑ لگا رکھا تھا اور چلتے وقت ہر چگاڑ دھاڑ رہا تھا ـ
ڈیلر بھانپ گیا بولا جی بس ہلکی پھلکی ٹک پرچون لگے گی میرا دوست بولا سر جی یہ تو آپ تھوک پرچون لگا رہے ہیں ڈیلر سمجھ گیا کہ سائنس فیل ہو گئی ہےـ جی وہ چھوٹے نے دیکھی تو اس کو ابھی اتنی سمجھ نہیں میں نے میں نے کہآ کہ بڑے کو بھیجنا تھا ـ وہ ہنس کر بولا کہ میں مصروف تھا میں نے کہا کہ میں تمھاری نہیں بڑے کی بات کر رہا ہوں ـ اب وہ بات آگے پیچھے کرنے لگاـ چھوڑیں سر آپکو ایک اور گھر کی گاڑی دکھاتا ہوں اپنی نظر کی گاڑی ہے وہ تو ـ دوست بولا نی جی ہمیں تو یہی گاڑی پسند ہےـ ڈیلر زرا پریشان سا ہو گیاـ ہم نے کہا جو بھی ہو گاڑی تو مظبوط ہے پرانی گاڑی میں اتنا ہتھ پلا تو کرنا پڑتا ہے ـ اس نے پوچھا واقعی؟؟ ہماری تسلی کرانے پہ پھر سے اسکی کہانیاں سٹارٹ ہو گئیں ہم نے کہا بیانہ کر لیں ـ پھر ہم نے جو ریٹ لگایا تو وہ غصے میں آ گیا بولا یہ کونسا ریٹ لگا رہے ہیں کہا کہ اپنے جو قیمت بتائی تھی اس گاڑی کی تھی جو منہ سے بتائی تھی اور ہم نے اس گاڑی کی قیمت لگائی ہے جو سامنے ہے ـ اور یہ بھی بیس ہزار اوپر لگائے ہیں صرف آپکی وجہ سےـ پھر منگوائیں مٹھائی وہ دانت پیس کر رہ گیا بولا جائیں آپ ـ یہ کہہ کر تھوڑا چلے کہ دوست نےپہچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا ـ اور مالک نے اپنی بچی بھی اسی حالت میں رکھی ہوئی ہے کیا ۔۔۔۔۔ قہقے
October 9, 2012
میری کانی محبت
شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز تھیں ، سڑک کے بیچ دو اینٹوں کے درمیاں گُلی نہایت توازن کے ساتھ رکھی تھی اور شکور کے ہآتھوں میں ترشا ہوا ڈنڈا اور شکور کی آنکھوں میں خون اترا تھا ، پورا محلہ جانتا تھا کہ شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئی گُلی کا راستہ آج تک کوئی مائی کا لال نہ روک سکا ، جب شکور گلی میں ڈنڈا اٹھا کر آتا تو مائیں اپنے بچوں کو مرغی کہ ڈربے میں بند کر دیتیں کہ کہیں شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئے گلی سے خوف کھا کر ان کے لال کی شلوار پیلی اور گیلی نہ ہو جائے
شکور کی دہشت اس قدر تھی کہ جب اسکا ڈنڈا گُلی پہ بجتا تو اس کی آواز سے ہی محلے کے بلب فیوز ہو جاتے تھے، کھیل کے اصولوں کے مطابق کسی نے گلی سے بیس فٹ کے فاصلے پہ ٹھہرنا تھا سر پر کفن باندھ کر میں خود شکور کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔۔ پیٹھ پیچھے چوٹ کھانا مرد کی شان نہیں سو پیٹھ شکور کی طرف کر کے تھوڑا سکڑ کر پیچھے ہاتھ رکھ لیے کہ گُلی پیٹھ پر نہ لگ جائے
،
،
شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز اور میری شکور پر ، کہ یکدم میری نگاہ اٹھی اور ایسی اٹھی کہ اٹھی ہی اٹھی پھر پانج دن تک اپنی جگہ پر نہیں آ کر بیٹھ نہیں سکی ،کن اکھیوں سے شکور کی طرف دیکھا تو وہ شکور کے پیچھے سے چلتے ہوئے آ رہی تھی ، اس کی چال میں ٹڈی کا اچھال تھا ، ، اس کا رنگ ایسا ڈارک گوبری برائون کہ کرس گیل بھی اسکے سامنے دھندلا جائے ، ٹانگے جتنا قد ، خوفصورت چہرہ ، بھیسن کی دم نما چٹیا، اس نے سابقہ سفید اور موجود کالے رنک کے دوپٹے کو جو لہرایا تو اس کی گٹرانہ خوشبو سے باد صبا مدہوش اور پورا محلہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا ، اس کی بھینگی انکھوں میں جمی پالک کی مستانگی ، اس کے بل کھاتی کمر کہ جیسے نچلا دھڑ اوپر والے دھڑ سے گویا کھسک گیا ہو ، ہو بہ ہو نانا کے ٹی وی کی طرح جو آخری آیام میں اپنی تصویر ٹیڑھی کر بیٹھتا تھا اور جوتے کھانے پہ ہی سدھی ہوتی تھی تصویر، اس کے چاکلیٹ کیچڑی پائوں ، وہ جو مسکرائے تو پیٹ میں مروڑ پڑ جائے ، اور اس پہ اسکی بے ڈھنگی جوانی ۔ اس کو دیکھ کر میرے سارے حور پری کے تصور دھرے کے دھرے رہ گئے
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ، ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔
میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے،
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ، ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔
میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے،
August 5, 2012
میرے متعلق
چونکہ فدوی بچپن سے ہی کبھی مصائب الہامی سے 'بےفکرمند' نہیں ہوا اس لیے فدوی 'بےغم زدہ طبیعت' کا مالک بن گیا ۔ اور ایسی مخمصے کی ہنس دکھ کیفیت پائی کہ کوئی جو خود ہنس رہا ہو مجھے دیکھے تو روتا ہوا سمجھے اور اگر خود رو رہا ہو تو مجھے ہنستا ہوا سمجھے۔
اور یہ میرا دل ،بلکہ کتے کی دم ، اس دل میں خواہشوں کے غول در غول ہول اٹھتے ہیں اس قدر کہ اگر عمرہ عیار کی زنبیل ، نیٹو سپلائی کے کنٹینرز اور مارکیٹ میں سب سے بڑے والی ہارڈ ڈسک میں بھی ان کو کوزوانا چاہوں تو جگہ کم پڑ جائے اور ہر خواہش آیسی مہنگی کہ کسی ایک کو پورا کرنے لگو تو فرعون کا خزانہ اور صدر صاحب کا بینک اکائونٹ کم پڑ جائے۔ خیر کچھ ایسی بھی خواہشیں جو کہ نہ تو بعید از قیاس ،نہ ہی بعید ازرضامندی متعلقہ پارٹی اور نہ ہی فاصلے میں بعید از دو تین فرلانگ تھیں اور انکا شمار از من پسند خواہشات_ناجائزات تھا ۔لیکن ایک ازلی تھکاوٹ جو ہمیشہ سے میری گرویدہ رہی ہے ، اس قدر کہ صفحہ ہستی کو ایسا صفحہ سستی بنا رکھا ہے جس میں ایک بھی سطر چستی نہیں۔ کوچہ جاناں پتہ نہیں کون جاتا ہو گا ۔ فرہاد کوئی زہنی مریض ہی ہو گا ورنہ ہم سے تو اس معاملے میں ککھ پن کر دو نہیں ہوئے کبھی ، سامنے والی کے لیے جتنی دیر میں ہم سیڑھیاں چڑھ کر چھت تک جاتے ، اتنی دیر میں محلے کے کچھ جوانمرد اپنے خطوط بھی پہنچا چکے ہوتے اور اگلی ملاقات کا متن اور جائے وقوعہ بھی کا بھی تعین کر چکے ہوتے۔ محلے کے میاں فصیحتوں نے بڑی نصیحتیں کیں کہ میاں چھوٹے موٹے کام سے کبھی کوئی نہیں مرا ، بھلے سے نہ بھی مرا ہو مگر رسک لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
پھر سفر چاہے انگریزی والا ہو یا اردو والا ہمارا واحد مشغلہ رہا ہے۔ سنا تھا کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے ، برسا ہا برس کے بعد ہمیں سفر سے پی ٹی اور کمر درد ہی ملا ۔ البتہ پچھلے دنوں ظفر کی وسیلہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑے جانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو حقیقت کا پتہ لگا۔ سفر تو انتا کر چکا کہ کبھی سوچتا ہوں کہ زندگی سے سفر نکال دوں تو مجھ میں سے پیچھے ڈھائی سال کا بغیر نیکر کے منہ میں چوسنی لیے بچہ ہی بچے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ میرا دل ،بلکہ کتے کی دم ، اس دل میں خواہشوں کے غول در غول ہول اٹھتے ہیں اس قدر کہ اگر عمرہ عیار کی زنبیل ، نیٹو سپلائی کے کنٹینرز اور مارکیٹ میں سب سے بڑے والی ہارڈ ڈسک میں بھی ان کو کوزوانا چاہوں تو جگہ کم پڑ جائے اور ہر خواہش آیسی مہنگی کہ کسی ایک کو پورا کرنے لگو تو فرعون کا خزانہ اور صدر صاحب کا بینک اکائونٹ کم پڑ جائے۔ خیر کچھ ایسی بھی خواہشیں جو کہ نہ تو بعید از قیاس ،نہ ہی بعید ازرضامندی متعلقہ پارٹی اور نہ ہی فاصلے میں بعید از دو تین فرلانگ تھیں اور انکا شمار از من پسند خواہشات_ناجائزات تھا ۔لیکن ایک ازلی تھکاوٹ جو ہمیشہ سے میری گرویدہ رہی ہے ، اس قدر کہ صفحہ ہستی کو ایسا صفحہ سستی بنا رکھا ہے جس میں ایک بھی سطر چستی نہیں۔ کوچہ جاناں پتہ نہیں کون جاتا ہو گا ۔ فرہاد کوئی زہنی مریض ہی ہو گا ورنہ ہم سے تو اس معاملے میں ککھ پن کر دو نہیں ہوئے کبھی ، سامنے والی کے لیے جتنی دیر میں ہم سیڑھیاں چڑھ کر چھت تک جاتے ، اتنی دیر میں محلے کے کچھ جوانمرد اپنے خطوط بھی پہنچا چکے ہوتے اور اگلی ملاقات کا متن اور جائے وقوعہ بھی کا بھی تعین کر چکے ہوتے۔ محلے کے میاں فصیحتوں نے بڑی نصیحتیں کیں کہ میاں چھوٹے موٹے کام سے کبھی کوئی نہیں مرا ، بھلے سے نہ بھی مرا ہو مگر رسک لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
پھر سفر چاہے انگریزی والا ہو یا اردو والا ہمارا واحد مشغلہ رہا ہے۔ سنا تھا کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے ، برسا ہا برس کے بعد ہمیں سفر سے پی ٹی اور کمر درد ہی ملا ۔ البتہ پچھلے دنوں ظفر کی وسیلہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑے جانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو حقیقت کا پتہ لگا۔ سفر تو انتا کر چکا کہ کبھی سوچتا ہوں کہ زندگی سے سفر نکال دوں تو مجھ میں سے پیچھے ڈھائی سال کا بغیر نیکر کے منہ میں چوسنی لیے بچہ ہی بچے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
July 12, 2012
خواہش
" یہ راض آشکاروں کہ میری پہلی صہیلی سائمہ بھی اصی وجہ صے ناراز ہوئی مجھ صے ۔ "
۔ چرواہے کو "چار وا ہا" اور لکھنا تو کچھ بھی نہیں صاحب ، ایک روز استاد محترم نے اپنی جوتی کے ہاتھ مجھے بلانے کا پیغام بھجوایا ، استاد محترم بہت شفیق تھے کبھی خود نہ آتے جب بھی مجھے بلانا ہوتا اپنی جوتی اتار کر میری طرف اچھال دیتے اور پھر کہتے کہ یہ لے کر میرے پاس آ ، ایک بار جب میں ان کے سامنے پہنچا تو میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ، میرا دل موم ہو گیا ان کی بیٹی کا خیال آتے ہی ، میں نے کہا سر میں نے آپکو معاف کیا ، وہ بولے احمق تیرا کیا علاج ہے تو نے " ستارہ عمتیاز " بھی عین سے لکھا ہے ، ، میں نے کہا شریف خاندان کا چشم و چراغ ہو ، محلے کی لڑکی ستارہ کے ساتھ اپنا نام لکھ کر اسکا کردار داغدار نہیں کر سکتا یہ اور بات کہ محلے میں زبانی کلامی ہر کسی کے سامنے اس کے نام کے ساتھ اپنا نام ہی لگاتا کرتا تھا ، لیکن دستاویزی ثبوت رکھنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا تھا یہ اور بات کہ صرف زبانی پہ بھی کافی کچھ ہو گیا تھا میرا ساتھ ۔
زمانہ لاعلمی میں اقوام کی جمع اقوامیں ، زہن کی حمع ازھان اور عوام کی جمع اعوائم اور تراکیب و محاورے 'اونچی 'دکان کا چھوٹا دکان دار' اور 'ہينگ لگے نہ پھٹکری اور نائی کی شیو بھی خوب آئے' مکمل کیے تو استاد محترم نے مجھے بابائے اردو بےادب' کا خطاب دے دیا ، اور مجھے بڑے پیار سے بولے کہ تو انتائی' غیر متوقع اردو بولتا ہے ، اتنی میٹھی عزت جس کی سمجھ مجھے ابھی کچھ دن پہلے یعنی دس سال بعد سمجھ آئی میری دور اندیشی کی عمدہ مثال ہے ۔ پھر پھٹکری آج تک سوائے نائی کے کسی کے پاس استعمال ہوتے نہ دیکھی نہ سنی ، اور پھر محاورے بنانے والے تو جہاں محاورہ منہ لگے وہیں لکھ لیتے ہیں کہ دوبارہ ویسا نزول ممکن نہیں ہوتا تو ان میں خالی جگہ پر کرنے کے کیا معنی اور پھر خالی جگہ دیکھ کر جو الفاظ میرے زہن میں وقوع زیر ہوتے ہیں وہ استعمال کردوں اگر تو ایک بار تو امتحانی پرچہ بھی پھڑ پھڑا اٹھتا ۔
ان حالات میں جب بلاگستان میں قدم رکھا تو زہن میں یہی خیال تھا کہ یہاں استاتزہ ملیں گے تو میری ، بھی اردو سنور جائے گی یہاں اخلاق ،صداقت اور حق جیسے بلاگر ہوں گے جو میری روحانی تربیت کریں گے ، شگفتہ اور شائستہ ایسے کہ میں بولوں گا تو زبان سے شیرینی ٹپکے گی اور سامنے مکھیوں کا ڈھیر لگ جائے گا ، بلاگر کوئی ایسا استاد ملے گا جو ابتدا سے اردو کے اسرار و رموز مجھ پہ آشکار کرے گا ، کوئی ایسا عالم دین صفت ہو گا کہ میریے اندر کی دنیا روشن کر دے گا، کوئی دانا مجھے حکایات سعدی کے سبق آموز قصے سنائے گا ، کوئی پطرس جیسا لطیف مزاح کی روح میری طبیعت کا خاصہ بنا دے گا۔ عرض میں ایک ششماہی پروگرام میں ایسا ہو جائوں گا، محلے والے میری مثالیں دیا کریں گی ، عورتیں دعائوں میں اپنے بیٹوں کو مجھ جیسا اور لڑکیاں اپنے خوابوں میں مجھ جیسا چاہا کریں
لیکن صاحب ایک سو گیارہ خواب آنکھوں میں سجا کر جب یہاں پہنچا تو یہاں ادب آداب اور حسن سلوک کی مثالیں تو ایک طرف ، ملے ہی ایسے کہ جن کا تعارف ہی بد تمیز تھا اور جن کا اوڑھنا بچھونا اور منہ کھولنا ہی بد تمیزی تھا ، سستے مزاق سے جان چھڑانا چاہتا تھا تو یہاں ملے ،ایسے ڈفرانہ ڈرامے کہ ہر بات چھ معنوی ہونے لگی اور خواہش اور جو مولبی ملا تو ایسا کہ اس کے انگریزی اے بی سی اور اس کے ایبریویشنز ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے ، حکایات رومی و سعدی اور سعدی کی بکری کا زکر تو کیا ہوتا ، لالے کی بکری کے تزکرے ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتے ، اور اردو میری کیا خاک ٹھیک ہوتی کہ جعفری قاعدہ پڑھ کر جو تھوڑی بہت الف بے آتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ طبعت میں لطافت کیا آتی کہ یہاں تو ہر وقت چخ چخ چخ ۔ پہلے تو زرا دھچکا لگا پھر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور سب اپنا اپنا پایا تو نعرہ لگا موج ملنگاں دی۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)