شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز تھیں ، سڑک کے بیچ دو اینٹوں کے درمیاں گُلی نہایت توازن کے ساتھ رکھی تھی اور شکور کے ہآتھوں میں ترشا ہوا ڈنڈا اور شکور کی آنکھوں میں خون اترا تھا ، پورا محلہ جانتا تھا کہ شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئی گُلی کا راستہ آج تک کوئی مائی کا لال نہ روک سکا ، جب شکور گلی میں ڈنڈا اٹھا کر آتا تو مائیں اپنے بچوں کو مرغی کہ ڈربے میں بند کر دیتیں کہ کہیں شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئے گلی سے خوف کھا کر ان کے لال کی شلوار پیلی اور گیلی نہ ہو جائے
شکور کی دہشت اس قدر تھی کہ جب اسکا ڈنڈا گُلی پہ بجتا تو اس کی آواز سے ہی محلے کے بلب فیوز ہو جاتے تھے، کھیل کے اصولوں کے مطابق کسی نے گلی سے بیس فٹ کے فاصلے پہ ٹھہرنا تھا سر پر کفن باندھ کر میں خود شکور کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔۔ پیٹھ پیچھے چوٹ کھانا مرد کی شان نہیں سو پیٹھ شکور کی طرف کر کے تھوڑا سکڑ کر پیچھے ہاتھ رکھ لیے کہ گُلی پیٹھ پر نہ لگ جائے
،
،
شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز اور میری شکور پر ، کہ یکدم میری نگاہ اٹھی اور ایسی اٹھی کہ اٹھی ہی اٹھی پھر پانج دن تک اپنی جگہ پر نہیں آ کر بیٹھ نہیں سکی ،کن اکھیوں سے شکور کی طرف دیکھا تو وہ شکور کے پیچھے سے چلتے ہوئے آ رہی تھی ، اس کی چال میں ٹڈی کا اچھال تھا ، ، اس کا رنگ ایسا ڈارک گوبری برائون کہ کرس گیل بھی اسکے سامنے دھندلا جائے ، ٹانگے جتنا قد ، خوفصورت چہرہ ، بھیسن کی دم نما چٹیا، اس نے سابقہ سفید اور موجود کالے رنک کے دوپٹے کو جو لہرایا تو اس کی گٹرانہ خوشبو سے باد صبا مدہوش اور پورا محلہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا ، اس کی بھینگی انکھوں میں جمی پالک کی مستانگی ، اس کے بل کھاتی کمر کہ جیسے نچلا دھڑ اوپر والے دھڑ سے گویا کھسک گیا ہو ، ہو بہ ہو نانا کے ٹی وی کی طرح جو آخری آیام میں اپنی تصویر ٹیڑھی کر بیٹھتا تھا اور جوتے کھانے پہ ہی سدھی ہوتی تھی تصویر، اس کے چاکلیٹ کیچڑی پائوں ، وہ جو مسکرائے تو پیٹ میں مروڑ پڑ جائے ، اور اس پہ اسکی بے ڈھنگی جوانی ۔ اس کو دیکھ کر میرے سارے حور پری کے تصور دھرے کے دھرے رہ گئے
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ، ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔
میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے،
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ، ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔
میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے،
ھاھاھاھاھھاھا
ReplyDeleteتو بلا نہیں کتا ھے
بلکہ کتا کنجر
اخــیــــــــــــــر پوسٹ
تیرے پہ دن میں دو پوسٹیں لکھنا بنتا ھے
بلال باؤ نے کہا بھی کہ اپنے لفظ ضائع مت کریں
پر تو چوی کینٹے فیس بک پہ بیٹھا لفظ ھگتا رھتا ھے
شرم کر ذلیلا
یار پلیز تو تعریف نہ کیا کر ، کہیں میں سچ نہ سمجھ بیٹھوں ، سند کا درجہ رکھتی تیری تعریف ، آئی میں اٹ
DeleteIs it a parody of someone? Ir your real story? :p
ReplyDeleteواہ سر برسوں پرانے راز سے پردہ اٹھایا ، اپنے دل کی داستاں لکھی اور اپکو پیروڈی لگ رہی، میرے جزبات مجروع کرے اپ نے خدارا ، بہت سکھ ہوا
Deleteکھمبے کے نیچے ادبی اعتبار سے درست نہیں
ReplyDeleteکھمبے کے سائڈ میں ہی ہو سکتے ہیں آپ
گٹر کا اسعتمال بھی غلط ہے
جی جناب عالی ،
Deleteشاوا بھئی شاوا :)
ReplyDeleteتواڈی پوسٹ دا انتظار ہے جی
Deleteبری بات شاہ ۔۔۔ استاد کی لینے کی نہیں ہو رہی :ڈ
ReplyDeleteفرینڈلی فائر ہوا ، :ڈ
Deleteحضرت! بڑی ظالم تفریح لی ہے آپ نے۔۔۔۔
ReplyDeleteمظلوم تو پھر تفریح نہیں ہو سکتی نا جناب :ڈ
Deleteہاہاہا ۔۔۔ پالک مستانہ ہوتا ہے یہ مجھے یہ تحریر پڑھ کے پتہ چلا :پ
ReplyDeleteجی خان بھائی ، پالک مستانہ ہوتا ہے ، اپکو پتہ لگی
Deleteہاہاہاہاہا
ReplyDeleteاب بلاگستان والا کوئی ناکام عشق کی پوسٹ لکھ کر دکھائے؛ڈڈ
اعلی بہت ہی اعلی
جناب تسی تو پہلے ہی انکار کر بیٹھے ہیں کہ کوئی محبت نی ہوئی
Deleteمولبی، غور سے پڑھ۔۔۔ مجھے تو کبھی عشق ہوا ای نی۔ تو نے ہی ایک دفعہ لکھا تھا کہ۔۔۔ آہو
ReplyDeleteاب بیلن، سوٹے، وائپر۔۔۔ :ڈ
شاہ جی، در فٹے منہ تیرا :ڈ
پیلا صئی کہتا، کہ ساری "بکواس" تو وہیں کر آتا۔ یہاں تو رہند کھوند ہی بچتی فیر۔
مزے دار۔ :ڈ
استازی لکھتے وے خیال آتا رہا کہ استاز کا اثر ہو گیا مجھ ، پہ وے ، تیری جھلک ہے اس تحریر میں ۔
Deleteرہند کھوند ۔۔ اعلی :ڈ
السلام علیکم
ReplyDeleteبہت خوب طنز و مزاح پیدا کیا آپ نے امتیاز بھائ :)
'' پیٹھ پیچھے چوٹ کھانا مرد کی شان نہیں سو پیٹھ شکور کی طرف کر کے تھوڑا سکڑ کر پیچھے ہاتھ رکھ لیے کہ گُلی پیٹھ پر نہ لگ جائے''
واہ کیا نکتہ اٹھایا ہے،ہم تو آپ کی ذہانت کےاور بھی معترف ہو گئے ہیں اب-
وعلیکم اسلام
Deleteشکریہ جی ، یہ تو اپ کی زرہ نوازی ہے کہ آپ اس چیز کی معترف ہو گئی ہیں جو مجھ میں سرے سے موجود ہی نہیں ،
میری زہانت ۔۔۔
السلام علیکم
ReplyDeleteاو نئ جی ''عشق،مشک اور ذہانت چھپائے نہیں چھپتی''
آپکی مکرنے کی کوشش فضول ہے :)
ڈفر کے ساتھ آپکی wits کی duel نظر سے گزری ہیں-
(Lubna Syed)