November 25, 2012

نیئک محترم

میں ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں کرسی پہ پیٹھ کر ہیٹر کی جالی کے ڈنڈے گن رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور میں شمار بھول گیا ، فون کرنے والے کو دو تین گالیاں دینے کے بعد میں نے فون اٹھایا اور نہایت اخلاق سے اسلام علیکم کہا ، آگے سے جو آواز آئی تو گویا کان کے پردے پھٹنے لگے  فون کو کان سے دور کیا ، سوچا کہ اتنی اونچی آواز سے بولنا تھا تو فون کرنے کی کیا ضرورت تھی براہ راست  بھی آواز پہنچ ہی رہی تھی ، دوسری طرف کوئی انتہائی تھکی ہوئی پنجابی میں ہمکلام تھا ، سلام دعا کے بعد پتہ چلا کہ نیئک کی فون ہے اور نیئک فیصل آباد سے اسلام باد آیا ہوا ہے ،  تفصیلات   پتا لگیں کہ نیئک کو ایک چھوٹا بھی میسر ہے گویا جوڑی پوری ہے ، اور نیئک جی ایٹ مرکز انے پہ رضا مند ہو گیا ، میں ہسپتا ل کے کاموں مین مصروف ہو گیا ایک گھنٹے بعد دوبارہ کال ائی میں کال ریسیو کر کے فورآ موبائل سے چھ فٹ دور کھڑا ہو گیا  تب کانوں کو کچھ سکون ملا ، پتہ چلا کہ نیئک بمعہ اپنے چھوٹے کے وہاں پہنچ چکا ہے ، جب میں نیچے گیا تو نیئک نے گیٹ کے باہر سے مجھے دیکھا اور پھر ایک طرف کو چھپ گیا ، گویا نیئک شرمیلی طبیعت کا مالک تھا ، میں چل کر نئیک کے پاس گیا ، نیئک واقعی نیئک تھا ، نیئک کا منہ جو پہلے سے کھلا ہوا تھا مزید کھل گیا نیئک ہینکی بینکی شخصیت کا مالک تھا ، ساتھ ہی نیئک کا چھوٹا تھا جو  بنا ہیلمٹ اتارے میرے سامنے کھڑا ہو گیا ، سوچا  شاید یہ نیئک سے بھی زیادہ شرمیلا ہے  ،   ، بمشکل چھوٹے کا ہیلمٹ اتروایا ، تو واہ جناب ، نیئک تو نیئک ، نیئک کا چھوٹا سبحان اللہ،،

خیر نیئک اور چھوٹے کو لیکر میں ہسپتال کے کمرے میں آ گیا ، وہاں مجھ پہ آشکار ہوا کہ نیئک بے وجہ نیئک نہیں بنا ، نیئک کی معاملہ فہمی ، سمجھداری اور مریض کی پرسش حال اور تسلی دینے کی مثال اس رہتی دنیا میں نہیں مل سکے گی ، نیئک نے میرے مریض کے سامنے پہلے تو موت کی باتیں شروع کر دیں ، پھر ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ فکر نہ کریں یہ دوا دارو موت کو ایک منٹ بھی دور نہیں کر سکتے ، پھر مریض کے مرض کی مماثلت مین ایک اور مریض کا حال جب سنانا شروع کیا تو میرے مریض کی انکھیں باہر کو آنا شروع ہو گئیں اور رنگ پیلا پڑنا شروع ہو گیا ، موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ، لیکن سلام ہے نیئک کی عقل و دانش اور رازداری و پردہ داری پہ کہ جو ایک بات میں نے کسی کو نہیں بتائی تھی اسی کا زکر سب کے سامنے لیکر بیٹھ گیا ، مجبورآ مین نے استاز سے درخواست کی کہ باہر چل کر ہوٹل میں بیٹھتے ہیں
      ہم تینوں ہوٹل کی طرف چل پڑے ، راستے میں نیئک کا طرز گفتگو چبا چبا کر بولنا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنا ہر راہ چلتے کو ایسا بھاتا کہ گردن کو ایک سو اسی پر ایسے گھماتے کہ  چاہے گردن ٹوٹے تو ٹوٹ جائے لیکن  دیدار سے محروم نہ رہ جائیں ، ، راستے میں چلتے چلتے نیئک اپنے کندھوں ، کمر اور گردن کو ہر تھوڑی دیر بعد ایسی حرکت دیتا کہ گویا مائیکل جیکسن کے گانے ڈینجرس  کا سٹیپ کر رہا ہے اور مجھے بار بار دیکھنا پڑتا کہ نیئک کے کان میں ہینڈز فری تو نہیں لگے ہوئے ، ، پوٹل مین پہنچ کر گفتگو شروع ہوئی ، نیئک سے مل کرایسا محسوس ہوا کہ اس سے پہلی بار مل رہا ہوں یا نہیں لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ آخری ملاقات ہے،  چھوٹا ایک حالات کے ستائے ہوئے چھوٹے کی طرح چپ ہی رہا ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایسی بات کرتا چھوٹی سی کہ پھر اس کو چپ کرانا مزید بھی ضروری ہو جاتا ، ، اس کی واحد بات جو مجھے پسند آئی وہ یہ تھی کہ وہ جاہل اور سنکی سے ملاقات کا متمنی تھا میں نے اسی وقت اسے دعا دی کہ وہ تجھے گود یعنی اپنی نئیکی میں لے لے۔نیئک کو ایک ایسی شخصیت کی کال آرہی تھی جو فیسبک و ٹویئٹر کا منٹو اور پطرس بخاری بننے کی کوشش کرتا رہتا یہ اور بات کہ سوچ اس نے جہازی پائی تھی۔ نیئک نے اس سے ملنے جانا تھا، صد شکر ہزار۔۔۔


  نیئک واقعی گہرے سانوے (سانولے رنگ سے معزرت کے ساتھ) رنگ کا آدمی تھا ، حالات نے شاید اس اسکو تپا تپا کر ایسا کر دیا تھا ۔

 

نیئک ہر موضوع پر بات کر سکتا تھا ، اور وہ بھی بغیر سانس لیے ، سانس کے بجائے اس کے منہ سے لعاب باہر آتا تھا ،وہ انتہائی کنفوزں سے بات کرتا تھا،، چاہے بات مرغ پالنے کی ہو یا بٹیر،  گھوڑوں کی مالش کرنی ہو یا کتوں کو نہلانا ہو ، نیئک جس کے متعلق بھی بات کرتا اس کی عزت تار تار کر دیتا ، پوری دنیا ہی اس کوپاگل دکھائی دیتی اور وہ واحد سیانا۔

 

 
تھوڑی ہی دیر میں اس کا چھوٹا سو گیا اور مجھے اس کی باتیں ایسے سننی پڑیں جیسے میں اس کا چھوٹا بن گیا ہوں جب وہ رخصت ہوا تو دل میں لڈو پھوتٹنے لگے ، واپسی میں دل میں یہی خیال آتا رہا کہ کوئی کالا کتا بھی اس کا چھوٹا نہ بنے۔



اور تو اور کسی نے مجھ پہ یہ احسان نہیں کیا ، میں نے خود نیئک سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اب میں اپنے سوا کسی کو کوسنے بھی نہیں دے سکتا

 

پی ایس ۔۔۔۔

مجھے اسی روز ہی بلاگستان کی نیئر سلطانہ کا بھی فون ایا تھا ، وہ بھی ملنا چاہ رہا تھا اور اس ملاقات کے فورآ بعد یعنی اگلے دن ، اب سوال یہ کہ نیئر سلطانہ کون ، تو بات بات پہ نیئر سلطانہ کی طرح  رونے ڈالنا تو کوئی ان صاحب سے سیکھے  ۔
اب  نیئک سے ملاقات کے بعد نیئر سلطانہ سے ملنا  کا خیال
فیض نے کیا خوب کہا ہے

ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی



October 21, 2012

گاڑی برائے فروخت

اندر باہر سے جینوئن ہے جی گاڑی ـ اپنے رنگ اور کمپنی کنڈیشن میں ہے ـاور پرانی گاڑی ہے سٹیل باڈی ـ اجکل کی کاریں تو پیپر باڈی ہیں لگی اور رول ہو گئی ـ پیس گاڑی ہے ـ سکریچ لیس ہے بلکل صاف ـ چابی لیں اور ڈرائیو کریں ـ روپے کا کام نہیں ہے گاڑی میں ـ رکھنے والی گاڑی تو ہے ہی یہی نئی کاریں صرف ششکے ہیں ـ پسند اپنی اپنی ہوتی ہے مگر مجھے بہت پسند ہے جی گاڑی اور آپکو بھی ضرور پسند آئے گی ـ بس اپنے دیکھتے ساتھ پسند کر لینی ہے ـ مٹھائی کا ڈبہ اور بیانہ تیار رکھیں ـ اور یہ قیمت یقین کریں صرف آپکے لیے ہے ورنہ اس سے  بیس ہزار اوپر مانگ رہا تھا اپنے بچوں کی طرح رکھا ہے مالک نے اس گاڑی کوـ

یہ وہ نقشہ تھا جو ڈیلر نے اٹھاسی کرولا کا کھینچا تھا ـ پرانی گاڑیوں میں اگر چہ زیادہ پرانی ہو چکی ہے مگر پھر بھی اچھی گاڑی سمجھی جاتی ہے خاص طور پر پہاڑی راستے اور کچے کے لیے ـ سو ڈیلر کی بتائی ہوئی گاڑی دیکھنے پہنچ گیا بمع چار دوستوں کے ساتھ جو جہاں بھی گئے چھت اور دروازہ انگلیوں کے ساتھ بجا کر واپس آ گئے پتہ انکو ککھ کا نہیں لگتاـ پہلی نظر جو گاڑی پہ پڑی تو خیال آیا کہ ہر کسی کو میں ہی ملا ہوں بنانے کے لیے ، پوری دنیا کو چونا لگانے کی مشق کرنے کے لیے میں ہی ہاتھ آیا ہوں ـ یا میرے ماتھے پہ بدھو لکھا ہے یا میں شکل سے وہ لگتا ہوں خیر نظر ڈیلر پہ ڈالی تو وہ روایتی ڈھیٹ پنے سے مسکرا دیا تھا گاڑی کی چھت سے رنگ اڑا ہوا تھا اور درازے کی ہتھیاں بھی رنگ کھو چکی تھی ـ پوچھنے پہ بتایا جی اپنے رنگ میں ہے ـ تیل لینے جائے ایسا اپنا رنگـ چاروں دروازوں پہ چابی کی سکریچیں ہوں گویا ـ  ڈیلر بولا او یہ لیکاں لُوکاں 
کل  ہی کوئی بچہ مار گیا ہے آجکل کے بچے بھی نا بس  ـ بادل نخواستہ باقی گاڑی بھی دیکھنے لگا سلف مارا تو گاڑی کھانس کر خاموش ـ آواز آئی کہ لوکا جیا چھنڈا مارو جی ـ دل چاہا کہ ڈیلر کو آگے جونت کر چھنڈا مروائوں ـ بمشکل سٹارٹ ہوئی گاڑی تو واقعی کمپنی کنڈیشن میں تھی کہ نہ اس کے بعد کوئی چیز تبدیل ہوئی تھی ابھی تک نہ ٹھیک سے ریپیئر ـ ہر جگہ مکینک نے جگاڑ لگا رکھا تھا اور چلتے وقت ہر چگاڑ دھاڑ رہا تھا ـ

ڈیلر بھانپ گیا بولا جی بس ہلکی پھلکی ٹک پرچون لگے گی میرا دوست بولا سر جی یہ تو آپ تھوک پرچون لگا رہے ہیں ڈیلر سمجھ گیا کہ سائنس فیل ہو گئی ہےـ جی وہ چھوٹے نے دیکھی تو اس کو ابھی اتنی سمجھ نہیں میں نے میں نے کہآ کہ بڑے کو بھیجنا تھا ـ وہ ہنس کر بولا کہ میں مصروف تھا میں نے کہا کہ میں تمھاری نہیں بڑے کی بات کر رہا ہوں ـ اب وہ بات آگے پیچھے کرنے لگاـ چھوڑیں سر آپکو ایک اور گھر کی گاڑی دکھاتا ہوں اپنی نظر کی گاڑی ہے وہ تو ـ دوست بولا نی جی ہمیں تو یہی گاڑی پسند ہےـ ڈیلر زرا پریشان سا ہو گیاـ ہم نے کہا جو بھی ہو گاڑی تو مظبوط ہے پرانی گاڑی میں اتنا ہتھ پلا تو کرنا پڑتا ہے ـ اس نے پوچھا واقعی؟؟ ہماری تسلی کرانے پہ پھر سے اسکی کہانیاں سٹارٹ ہو گئیں ہم نے کہا بیانہ کر لیں ـ پھر ہم نے جو ریٹ لگایا تو وہ غصے میں آ گیا بولا یہ کونسا ریٹ لگا رہے ہیں کہا کہ اپنے جو قیمت بتائی تھی اس گاڑی کی تھی جو منہ سے بتائی تھی اور ہم نے اس گاڑی کی قیمت لگائی ہے جو سامنے ہے ـ اور یہ بھی بیس ہزار اوپر لگائے ہیں صرف آپکی وجہ سےـ پھر منگوائیں مٹھائی وہ دانت پیس کر رہ گیا بولا جائیں آپ ـ یہ کہہ کر تھوڑا چلے کہ دوست نےپہچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا ـ اور مالک نے اپنی بچی بھی اسی حالت میں رکھی ہوئی ہے کیا ۔۔۔۔۔ قہقے

October 9, 2012

میری کانی محبت

 شکور کی نگاہیں  گُلی پر مرکوز تھیں ،  سڑک کے  بیچ دو اینٹوں کے درمیاں گُلی  نہایت توازن کے ساتھ رکھی تھی اور شکور کے ہآتھوں میں ترشا ہوا ڈنڈا اور شکور  کی آنکھوں میں خون  اترا تھا ، پورا محلہ جانتا تھا کہ شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئی گُلی کا راستہ آج تک کوئی مائی کا لال نہ روک سکا ، جب شکور گلی میں ڈنڈا اٹھا کر آتا تو مائیں اپنے بچوں کو مرغی کہ ڈربے میں بند کر دیتیں کہ کہیں شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئے گلی  سے خوف کھا  کر ان کے لال کی شلوار پیلی اور گیلی نہ ہو جائے
 شکور  کی دہشت  اس قدر تھی کہ جب  اسکا ڈنڈا  گُلی پہ بجتا تو اس کی آواز سے ہی محلے کے بلب فیوز  ہو جاتے  تھے، کھیل کے اصولوں کے مطابق کسی نے گلی سے بیس فٹ کے فاصلے پہ ٹھہرنا تھا سر پر کفن باندھ کر میں خود شکور کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔۔ پیٹھ پیچھے چوٹ کھانا مرد کی شان نہیں سو پیٹھ شکور کی طرف کر کے تھوڑا سکڑ کر پیچھے ہاتھ رکھ لیے کہ گُلی پیٹھ پر نہ لگ جائے
 ،
   شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز اور میری شکور پر ، کہ یکدم میری  نگاہ اٹھی اور ایسی اٹھی کہ اٹھی ہی اٹھی پھر پانج دن تک اپنی جگہ پر نہیں آ کر بیٹھ نہیں سکی ،کن اکھیوں سے شکور کی طرف دیکھا تو  وہ شکور کے پیچھے  سے چلتے ہوئے آ رہی تھی ، اس کی چال میں ٹڈی کا اچھال تھا ، ، اس کا رنگ ایسا ڈارک گوبری برائون کہ کرس  گیل  بھی اسکے سامنے  دھندلا جائے  ، ٹانگے جتنا قد  ، خوفصورت چہرہ ، بھیسن کی دم نما چٹیا، اس نے سابقہ سفید اور موجود  کالے رنک کے دوپٹے کو جو لہرایا تو اس کی گٹرانہ  خوشبو سے باد صبا  مدہوش اور پورا محلہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا ، اس کی بھینگی انکھوں میں جمی پالک کی  مستانگی ،  اس کے بل کھاتی کمر  کہ جیسے نچلا دھڑ اوپر والے دھڑ سے گویا کھسک گیا ہو ، ہو بہ ہو نانا کے ٹی وی کی طرح  جو آخری آیام میں اپنی تصویر ٹیڑھی کر بیٹھتا تھا اور جوتے کھانے پہ ہی سدھی ہوتی تھی تصویر،  اس کے چاکلیٹ کیچڑی پائوں ،   وہ جو مسکرائے تو پیٹ میں مروڑ پڑ جائے ،  اور اس پہ اسکی بے ڈھنگی جوانی ۔ اس کو دیکھ کر میرے سارے حور پری کے تصور دھرے کے دھرے رہ گئے
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک  کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ،   ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔ 
   میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق  نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک  کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا  مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے، 

August 5, 2012

میرے متعلق

چونکہ فدوی  بچپن سے ہی کبھی مصائب الہامی  سے 'بےفکرمند'  نہیں ہوا اس لیے فدوی  'بےغم زدہ طبیعت' کا مالک بن گیا  ۔ اور ایسی مخمصے کی ہنس دکھ کیفیت پائی کہ کوئی جو خود ہنس رہا ہو مجھے دیکھے تو روتا ہوا سمجھے اور اگر خود  رو رہا   ہو تو مجھے  ہنستا ہوا سمجھے۔
اور یہ میرا دل  ،بلکہ کتے کی دم ، اس دل میں خواہشوں کے غول در غول  ہول اٹھتے  ہیں اس قدر کہ اگر عمرہ عیار کی  
زنبیل ، نیٹو سپلائی کے کنٹینرز اور مارکیٹ میں  سب سے بڑے والی ہارڈ ڈسک  میں بھی ان کو کوزوانا چاہوں تو جگہ کم پڑ جائے اور ہر خواہش آیسی مہنگی کہ  کسی ایک کو پورا کرنے لگو تو  فرعون کا خزانہ اور صدر صاحب کا بینک  اکائونٹ کم پڑ جائے۔ خیر کچھ ایسی بھی خواہشیں جو کہ نہ تو  بعید از قیاس ،نہ ہی   بعید ازرضامندی متعلقہ پارٹی اور نہ ہی فاصلے میں  بعید از دو تین فرلانگ  تھیں اور انکا شمار از من پسند خواہشات_ناجائزات تھا ۔لیکن ایک ازلی تھکاوٹ جو ہمیشہ سے میری گرویدہ رہی ہے ، اس قدر کہ صفحہ ہستی کو ایسا صفحہ سستی بنا  رکھا ہے جس میں ایک بھی سطر چستی نہیں۔ کوچہ جاناں پتہ نہیں کون جاتا ہو گا ۔ فرہاد کوئی زہنی مریض ہی ہو گا ورنہ ہم سے تو اس معاملے میں ککھ پن کر دو نہیں ہوئے کبھی ، سامنے والی کے لیے جتنی دیر میں ہم سیڑھیاں  چڑھ کر چھت تک جاتے ، اتنی دیر میں محلے کے کچھ جوانمرد اپنے خطوط بھی پہنچا چکے ہوتے  اور اگلی ملاقات کا متن اور جائے وقوعہ بھی کا بھی تعین کر چکے ہوتے۔ محلے کے میاں فصیحتوں نے بڑی نصیحتیں کیں کہ میاں چھوٹے موٹے کام سے کبھی کوئی نہیں مرا ، بھلے سے نہ بھی مرا ہو مگر رسک لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
پھر سفر چاہے انگریزی والا ہو یا اردو والا ہمارا واحد مشغلہ رہا ہے۔ سنا تھا کہ  سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے ، برسا ہا برس کے بعد ہمیں سفر سے پی ٹی اور کمر درد  ہی ملا ۔ البتہ پچھلے دنوں ظفر کی وسیلہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑے جانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو حقیقت کا پتہ لگا۔ سفر تو انتا کر چکا کہ کبھی سوچتا ہوں کہ زندگی سے سفر نکال دوں تو مجھ میں سے پیچھے ڈھائی سال کا  بغیر نیکر کے منہ میں چوسنی لیے بچہ ہی بچے گا۔




جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

July 12, 2012

خواہش


جب بلاگستاں قدم رنجا فرمائے تو نیواں نیواں ہو کہ آیا  وجہ اول تو یہ کہ ہر نئی جگہ جاتے بچپن سے ہی ہاتھ پائوں پھول   جاتے ، اور پھر دل میں کچھ اندیشے بھی تھےاول تو میری املا  ایسی کہ  جیسے عربی انسٹآل کر کے کسی نے اردو لکھنے کی کوشش کی ہو ۔املا میں 'ز' اور 'ض' میں عمر بھر کنفیوز رہا ،  یہی  کچھ 'س' اور 'ص' کا رہا ،
 " یہ راض آشکاروں کہ میری پہلی  صہیلی سائمہ بھی اصی وجہ صے ناراز ہوئی مجھ صے ۔ "
۔ چرواہے کو "چار وا ہا" اور  لکھنا تو کچھ بھی نہیں صاحب ، ایک روز استاد محترم نے اپنی جوتی کے ہاتھ مجھے بلانے کا پیغام بھجوایا ، استاد محترم بہت شفیق تھے کبھی خود نہ آتے جب بھی مجھے بلانا ہوتا اپنی جوتی اتار کر میری طرف اچھال دیتے اور پھر کہتے کہ یہ لے کر میرے پاس آ ، ایک بار جب  میں ان کے سامنے پہنچا تو میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ، میرا دل موم ہو گیا ان کی بیٹی کا خیال آتے ہی ، میں نے کہا سر میں نے آپکو معاف کیا ، وہ بولے احمق تیرا کیا علاج ہے تو نے " ستارہ عمتیاز " بھی عین سے لکھا ہے ، ، میں نے کہا شریف خاندان کا چشم و چراغ ہو  ، محلے کی لڑکی ستارہ کے ساتھ اپنا نام لکھ کر اسکا  کردار  داغدار نہیں کر سکتا یہ اور بات کہ محلے میں زبانی کلامی ہر کسی کے سامنے اس کے نام کے ساتھ اپنا نام ہی لگاتا کرتا تھا ، لیکن دستاویزی ثبوت رکھنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا تھا یہ اور بات کہ صرف زبانی پہ بھی کافی کچھ ہو گیا تھا میرا ساتھ ۔ 

زمانہ لاعلمی میں اقوام کی جمع اقوامیں ، زہن کی حمع ازھان   اور عوام کی جمع اعوائم اور تراکیب و محاورے 'اونچی   'دکان  کا چھوٹا دکان دار'  اور 'ہينگ لگے نہ پھٹکری  اور نائی کی شیو بھی خوب آئے'  مکمل کیے تو استاد محترم  نے مجھے بابائے اردو بےادب' کا خطاب دے دیا ، اور مجھے بڑے پیار سے بولے کہ تو انتائی' غیر متوقع اردو بولتا ہے ، اتنی میٹھی عزت جس کی سمجھ مجھے ابھی کچھ  دن پہلے یعنی دس سال بعد سمجھ آئی میری دور اندیشی کی عمدہ مثال ہے ۔ پھر پھٹکری آج تک سوائے نائی کے کسی کے پاس استعمال ہوتے نہ   دیکھی نہ سنی ، اور پھر محاورے بنانے والے تو  جہاں محاورہ  منہ لگے وہیں لکھ لیتے ہیں کہ دوبارہ ویسا نزول    ممکن نہیں ہوتا  تو ان میں خالی جگہ پر کرنے کے کیا معنی اور پھر خالی جگہ دیکھ    کر جو الفاظ میرے زہن میں  وقوع زیر ہوتے ہیں وہ استعمال کردوں اگر تو ایک بار تو امتحانی پرچہ بھی پھڑ پھڑا اٹھتا ۔ 


 ان حالات میں جب بلاگستان میں قدم رکھا تو زہن میں یہی  خیال تھا کہ یہاں  استاتزہ ملیں گے تو میری  ، بھی اردو سنور جائے گی یہاں  اخلاق ،صداقت اور حق جیسے بلاگر ہوں گے جو میری روحانی تربیت کریں گے ، شگفتہ اور شائستہ ایسے کہ میں بولوں گا تو زبان سے شیرینی  ٹپکے گی اور سامنے مکھیوں کا ڈھیر لگ جائے گا ،   بلاگر کوئی ایسا استاد ملے گا جو ابتدا سے اردو کے اسرار و رموز مجھ پہ آشکار کرے گا ، کوئی ایسا عالم دین  صفت  ہو گا کہ میریے اندر کی دنیا روشن کر دے گا، کوئی دانا مجھے حکایات سعدی  کے سبق  آموز قصے سنائے گا ،  کوئی پطرس جیسا لطیف مزاح کی روح میری طبیعت کا خاصہ بنا دے گا۔ عرض میں ایک ششماہی پروگرام  میں ایسا ہو جائوں گا، محلے والے میری  مثالیں دیا کریں گی ، عورتیں دعائوں میں  اپنے بیٹوں کو مجھ جیسا اور لڑکیاں اپنے خوابوں میں مجھ جیسا چاہا    کریں 


لیکن صاحب ایک سو گیارہ خواب آنکھوں میں سجا کر جب یہاں پہنچا  تو یہاں ادب آداب اور حسن سلوک    کی مثالیں تو ایک طرف ، ملے ہی ایسے کہ جن کا تعارف ہی بد تمیز تھا اور جن کا اوڑھنا بچھونا اور منہ کھولنا ہی بد تمیزی تھا ، سستے مزاق سے جان چھڑانا چاہتا تھا تو یہاں ملے ،ایسے  ڈفرانہ ڈرامے  کہ  ہر بات  چھ معنوی ہونے لگی اور خواہش  اور جو مولبی ملا تو ایسا کہ اس کے انگریزی اے بی سی اور اس کے ایبریویشنز ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے ، حکایات رومی و سعدی اور سعدی کی بکری کا زکر تو کیا ہوتا ، لالے کی بکری کے تزکرے ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتے ، اور اردو میری کیا خاک ٹھیک ہوتی کہ  جعفری    قاعدہ پڑھ کر جو تھوڑی بہت الف بے آتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ طبعت میں لطافت کیا آتی کہ یہاں تو ہر وقت چخ چخ چخ ۔ پہلے تو  زرا دھچکا لگا پھر خوشی سے پھولا نہ سمایا  اور  سب اپنا اپنا پایا تو نعرہ لگا موج ملنگاں دی۔۔


June 21, 2012

لائف ان آ ۱۲ بائے ۱۲

 نوٹ:لکھ کر دوبارہ نہیں پڑھا گیا بے شمار غلطیوں کے لیے معزرت۔

مجھے پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی تھی اور اس کے فون بھی آ رہے تھے بار بار ، وہ میرے پہنچتے ہی بیگ کے ساتھ ہی گیٹ پہ آگیا میں نے ایک نظر اس کو دیکھا تو  تھکن اس کے چہرے سے عیان تھی ، اس نے مجھے جلدی سے کچھ باتیں بتائیں اور چل پڑے جیسے اسے بہت جلدی ہو جانے کی اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میرے یہ اگلے کچھ دن کچھ اتنے آسان نہیں ہوں گے۔
 ،
   کمرے میں داخل ہوا تو بدبو تھی وہاں اتنی زیادہ کہ ایک لمحے کو تو سانس بھی رک گیا ، کمرے کا جائزہ لیا تو سامنے ایک چارپائی دو پرانی کرسیاں ، ایک چھوٹی صندوق اور ایک فریج اور سامنے دیوار میں ہی آلے جن میں برتن اور کچھ سامان پڑا تھا ۔ ایک کونے میں ایک پلنگ اور اس پر ایک زندہ لاش پڑی تھی ۔ پلنگ کے سامنے ایک میز پر دو لفافے تھے جن میں دوائی اور کچھ پرچیاں تھیں جن پر دوا کی ہدایات لکھی ہوئی تھیں۔ میں نے بیگ سے ایئر فریشنر نکالا اور فضا میں سپرے کر دیا لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا لیکن تب تک میں اس بدبو کا عادی ہو چکا تھا اور وہ بتدریج مجھے غائب ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔ مجھے ایک کوڑا جننے والے بچے کی بات یاد ا گئی جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس کو کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو نہیں آتی تو وہ بول کہ یہ بدبو اس کے جسم میں داخل ہو گئی ہے اس کے نفس کو مار دیا ہے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔
   یہ سردیوں کی شام تھی سو اندھیرا جلد ہی پھیل گیا کمرے میں گیس کا ہیٹر پہلے سے ہی جل رہا تھا ، باہر نکلنا یا دروازہ کھلا رکھنا بھی مکن نہیں تھا مجھے لگا کہ میری یہ رات بہت سخت ہو گی کیونکہ اتنی سردی میں میرا یہاں پہلی بار آنا ہوا تھا میں نے اپنے بیگ میں ایک ناول ،  موبائل کا  جارجر اور ٹیبلٹ معہ ہیڈ فون  لایا تھا کہ وقت اچھا گزر جائے گا کہ یہاں تین دن گزارنے تھے مجھے۔  اور اسی کمرے کے اندر باہر شدید سردی تھی اور اگر نہ بحی ہوتی تب بھی مجھے کمرے میں ہی رہنا تھا ، مجھے یہ دنیا ہی کوئی اور دنیا   بلکہ یہ کمرہ ہی مجھے میری کل دنیا لگی ، ایک وہ دنیا تھی جس کو میں کچھ لمحے پہلے چھوڑ کر آیا تھا جس میں وسعت ہی وسعت تھی آزادی ہی آزادی ، اور ایک یہ قید جہاں سانس لینا بھی مشکل تھا ۔ مگر اس اتنی وسیع دنیا میں بھی میں نے فرار کی اتنی راہیں تلاش کر رکھی تھیں ، دوست ، کتابیں ، فلمیں ، کھیل اور جانے کیا کیا ، خود کو مصروف رکھنے کے لیے ۔ لیکن یہاں تو سب مختلف تھا البتہ وقت تھا یہاں کہ میں وہ کام کر سکوں جو کرنا چاہوں ۔ لیکن عجب حالت تھی کہ کچھ بھی نہ ہو سکا مجھ سے ، اس دنیا میں جہان سب کچھ تھا میرے لیے میں اپنے کچھ کنٹیکٹس کے ساتھ گھنٹوں فون پر بات کر لیتا تھا پورا پورا دن ٹیکسٹنگ کرتے گزرری ، کوئی کتاب اتھا لیتا تو  جب تک ختم نہ ہو جاتی نہ کھانے کا ہوش نہ سونے کا ، کوئی فلم سیریز یا سیزن  شروع کرتا تو ختم ہونے تک چین نہ آتا ، اسی خیال سے ناول ، ٹیبلٹ اور موبائل چارجر وغیرہ ساتھ لایا تھا کہ جو دل چاہا کر لوں گا۔ لیکن ان چیزوں کو دیکھتے ہی اکتاہٹ ہونے لگی ۔ بے معنی لگنے لگیں یہ سب چیزیں ، شاید یہ ساری چیزیں اس ایک کمرے کی دنیا میں مس فٹ تھیں۔ تینوں کام کرنے کی کوشش کی  لیکن دوسرے ہی لمحے ہی بیزار ہو گیا   
کونے میں پڑی مردہ لاش کھانسی ، شاید اس کی دوا کا جو اثر ختم ہو چکا تھا ، اور اب وہ محسوس کر سکتی تھی اپنے ارد گرد چیزیں ، اس نے میری طرف اجنبی نظروں سے دیکھا اور پوچھا کہ کب آئے ہو ۔ میں نے اسکو پانی پلایا پھر ہر آدھے گھنٹے بعد وہ مجھے اجنبی نظروں سے دیکھتی  اور زندہ لاش پوچھتی کہ کب آئے ہو ۔ شاید اس کو کسی کا انتظار تھا  یا راہ دیکھ دیکھ کر اس کی گمشدہ یاداشت میں بس یہی جملہ بچا تھا ، جو وہ ادا کر دیتی  ، میں جب بھی یہاں آتا تو سوچتا کہ شاید وہ اگلی بار نہیں رہے گی ، اور دل میں یہ خواہش بھی ہوتی کہ وہ نہ ہی رہے ، لیکن جانے کیوں اس کی سانسوں کی آخری ڈوری ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ میں نے فریج کھولا  اس کے کھانے کے لیے چیزیں جمع کیں  اور کمرے کے سامنے چھوٹا سا کچن تھا  اسمیں گرم کیں اور اس کو کھلانے لگا ، اس کو وہ خوارک بھی حلق سے اتارتے مشکل پیش آرہی تھی  بے بسی  اس  زندہ لاش کی انکھوں سے جھلک رہی تھی اور تھکن ماتھے کی سلوٹوں سے واضح تھی ۔
زندگی ایکسپلور تو کرنے والے تو ملکوں ، سمندروں اور جزیروں پہ گھومتے ہیں لیکن  جس نے زندگی کو سمجھنا ہو وہ اس بارہ ضرب بارہ کے کمرے میں آ جائے ، کچھ تلخ ترین حقیقتیں اس کی زندگی بارے ساری غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو منٹوں میں ملا میٹ کر دیں گی۔ میرے سوچ یکدم بہت سمٹ گئی تھی میں جانے کتنی دیر  زندگی اور بے بسی کا آپسی تعلق سوچتا رہا۔ حیرت انگیز طور پر رات گزرتی ہی جا رہی تھی ۔ میں نے ساچا تھا کہ ایک ایک لمحہ رک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا مجھے شدید احساس ہوا کہ وقت کٹ ہی جاتا ہے اوررات گزر ہی جاتی ہے ،  اور نیند بھی آ ہی جاتی ہے ۔رات کے کسی پہر میری انکھ لگ گئی صبح انکھ کھلی دستک سے زندہ لاش کے کپڑے بدلنے والا ایا تھا  اور اس نے آدھے گھنٹے میں یہ کام اور کچھ صفائی کرنی تھی  اور اسی وقت میں مجھے اپنے باہر کے کام کرنے تھے کھانا وغیرہ کھانا تھا باہر جا کر کہ کل سے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا اور زندہ لاش کے لیے بھی کچھ لے کر جانا تھا میں جلدی  سے انے والے کو ہدایات دے کر باہر نکلا گھنٹوں بعد تازہ ہوا میں آیا تو  میرا دم سا گھٹنے لگا  ۔۔۔۔۔

January 26, 2012

خدائی ردھم

سانسیں ۔ مستقل طور پر چلتی ہوئیں - ایک مناسب  وقفے کے ساتھ ۔ ابتدا کی سختی سے نالاں نہ ہی انجام سے وحشت زدہ - بس اپنی ہی دھن میں برابر چلتی رہتی ۔ نہ اتنی تیز کہ خود کو تھکا ڈآلیں نہ اتنی سست کہ ان کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے ۔ نہ  تھکن کوئی نہ عجلت ۔ نہ اتنی خاموش کہ لاشعور ہی ان کی آواز سے بیگانہ ہو جائے اور نہ اتنی آواز کہ کانوں میں مدھم سی آواز کو بھی آنے سے روکیں۔ ا ایک لڑی میں پروئی ہوئی نہ اتنی مختصر کہ شناخت ہی کھو دیں نہ اتنی طویل کہ   خود میں ہی الجھ جائیں۔ سانسوں کی مالا حیات کو رواں رکھے ہوئے ایک ساز ایک ردھم ایک تسلسل دیئے ہوئے ایک ایسا خدائی ردھم جس میں مست انسان کے جسم کا ایک ایک حصہ اپنی مستی میں کام کر رہا دوسرے حصوں کے ساتھ مل کر ایک بہائو میں اس طرح کہ جب تک یہ سانس چلتی رہیں جیات چلتی رہے جسم حرکت کرتا رہے یہ ردھم ختم تو سکوت ، خاموشی ، زندگی ختم۔ سانسیں انسان کا پہلا  عملی سبق۔

January 18, 2012

میلنکلی


یہ تب کی  بات ہے جب میں شاید سولہ برس کا تھا سکول کی چھٹیاں تھیں سردیوں کی اور گائوں آیا ہوا تھا ۔ رات کو بیت خلا جانے کی حاجت ہوئی تو گائوں میں نقشے وغیرہ تو تھے نہیں اور بیت الخلا بھی بعد میں باہر کی طرف بنا ہوا تھا میں خاموشی سے اٹھ کر جونہی باہر نکلا تو سامنے ایک عورت کو کھلے بالوں کے ساتھ بہت وحشی انداز میں دیکھ کر میری حالت خٔوف سے غیر یو گئی ایک لمحے کے لیے کانپ ہی گیا لیکن خوش قسمتی کہیئے کہ جاندنی رات تھی اور میں پہچان گیا کہ یہ چڑیل نہیں ماسی باگاں ہے لیکن ماسی بھاگاں سے  بچے تو کیا اکثر بڑے بھی ڈرتے تھے مشہور تھا کہ اس کو سردیوں کے موسم میں جن یا پری آ جاتی ہے اور گرمیوں میں چلی جاتی ہے۔ سخت سردی میں ماسی بھاگاں نے صرف عام سے 
کپڑے ہی پہن رکھے تھے اور چپل لیکن وہ بال کھولے ایک عجیب اور سرور و مستی کی کیفیت میں تھی اس نے ہاتھ کھول رکھے تھے اور اس کے بال تیز ہوا میں اڑ رہے تھے اور وہ تیز ہوا کے طمانچوں کو اپنے چہرے میں محسوس کر رہی تھی اور ایک عجیب سی سرشاری تھی اس کے چہرے پہ۔ اس نے مجھے یکسر نظر انداز کیا اور چلی گئی۔ میں اس کو جاتا دیکھتا رہا میں نے اس کے جانے کے بعد اس کی سی کیفیت میں ویسے ہی ہوا کو محسوس کرنا چاہا مجھَے بہت عجیب سا احساس ہوا ، اگلی صبح مجھے بہت تیز بخار تھا۔۔
ماسی باگاں گرمیوں کے موسم میں گھر کے سارے کام کرتی تھی   ساتھ بکریاں اور بھینسیں پالنا ، لکڑیاں کاٹنا اور کھیتوں میں گاس وغیرہ سبھی اور بہت اچھی طرح ملتی ملاتی سب سے۔ لیکن سردیوں میں جاڑے کے موسم میں ماسی بھآگاں کی طبیعت عجیب ہو جاتی تھی سب کہتے کہ یہ جن آسیب یا کوئی پری ہے ماسی کے ساتھ جو صرف جاڑے کے موسم میں آتی ہے کہونکہ ماسی جوانی میں اس موسم میں رات کو کام کرتی تھی
میں فرسٹ ایئر میں ہاسٹل میں تھا تو مشتاق صآحب میرے استاد محترم مجھَے  سریوں کی راتوں میں رات گئے بلا لیا کرتے تھے جہاں چھوٹی سے محفل ہوتی میرے کچھ اساتزہ کی ۔ وہ مجھے فیض کا نسخہ ہائے وفا کا کوئی حصہ بتاتے اور میں پڑھتا ۔ میری اصلاح بھی کرتے پڑھنے کا سلیقہ بھی انہی سے سیکھا۔
لیکن وہ ایک بات کہتے ہمیشہ کہ شاہ جی راتوں میں تیرا لہجہ عجیب ہو جاتا ہے ۔ وہ  سب بہت مسحور ہو کر سنتے مجھے ۔ خود بھی  بہت کچھ  سناتے ۔مجھے کم ہی کسی چیز کی سمجھ آتی تھی تب۔
وہاں انگریزی کے استاد حمید الرحمن صاحب بھی آتے انہوں نے مجھے ہیملٹ دیا اور کہا کہ یہ پاس رکھو، پڑھو اور سمجھو ۔ میرے لیے وہ پڑھنا ممکن نہیں تھا ۔ سمجھ کہاں آنی تھی مجھے ۔انہوں نے مجھے ہیملٹ کا کردار اور پوری کہانی سمجھائی پھر پڑھایا بھی کافی حد تک  مجھَے۔ میں نے اس کی ایک پرانی فلم بھی دیکھی اور ہیملٹ  میرے زہن میں رچ بس گیا۔  مجھے اپنی زات کا عکس نظر آنے لگا ہیملٹ میں اور آج بھی آتا ہے ، میں اب بھی سردیوں کی رات میں جاگ اٹھتا ہوں رات گئے ۔ اور مجھے یہی لگتا ہے گویا میں ہی ہیملٹ ہوں ۔ اور میں اپنے زہن کے بھوت سے ہمکلام بھی ہوتا ہوں  ، ہر وہ زہن جس میں میلنکلی ہے وہ ہیملٹ کا ہی کردار ہے  اور ہر زہن  کے ساتھ ایک بھوت ہے ، اور یہ ہوتا بھی اسی موسم میں ہے ۔ اسی موسم میں مجھے فیض دوبارہ سے یاد آتا ہے۔ میں پوری پوری رات اس کو پڑھتا رہتا ہوں۔عجیب بے قراری اور بے چینی سے ہوتی ہے۔ ایک بے چین روح کی طرح مچلتا رہتا ہوں، اس کے ساتھ انہون نے مجھے آئن سٹائن کا "دا ورلڈ ایز آئی سی اٹ" انتہائی تفصیل سے سمجھایا لیکن میرا زہن اس کو قبول نہ کر سکا۔ ۔مجھے نہیں معلوم مشتاق صآحب اور حمید الرحمن صآحب نے دانسہ مجھے ہیملٹ اور فیض  میں دھکیلا یا مجھَے اس کی ضرورت تھی ۔ شاید مجھَ اس کی ضرورت تھی۔ یہ میری میلنکولی کو اطمینان دینے کی راہ تھی بلکل ایسے ہی جیسے مائی بھاگاں اپنی میلنکولی کو پر سکون کرنے کے لیے سرد راتوں کو تیز ہوائوں اور سردی سے جا ٹکراتی تھی

پچھلے دنوں پتہ چلا کہ ایک سرد رات کو ماسی بھاگاں ایک کھیت میں ٹھٹھر کر مر گئی ۔ سب اس کی ایسی موت پر افسوس کر رہے تھے لیکن مجھے لگا کہ ماسی نے خود ایسی موت چاہی تھی ۔ اس سرد رات میں تیز ہوائوں کی چبھن اور سردی نے مائی کی مینکولی کو اتنا  مطمئن کیا کہ اس نے اسی سرور میں اپنی جان دے دی۔
مرنا سب نے ہی ہوتا ہے لیکن مائی  نے اپنہ مرضی کی موت لی ۔ ایک ایسی کیفیت کے دوران کہ جو وہ صرف اپنے لیے کرتی تھی، اس کی بے چین روح کو جاڑے کی سرد راتوں میں ہی سکون ملتا تھا ۔مجھَے اس کی موت کا کافی دکھ ہوا کہ مجھے میری میلنکولی سے روشناس کرانے والی ماسی بھاگاں ہی تھی۔