June 21, 2012

لائف ان آ ۱۲ بائے ۱۲

 نوٹ:لکھ کر دوبارہ نہیں پڑھا گیا بے شمار غلطیوں کے لیے معزرت۔

مجھے پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی تھی اور اس کے فون بھی آ رہے تھے بار بار ، وہ میرے پہنچتے ہی بیگ کے ساتھ ہی گیٹ پہ آگیا میں نے ایک نظر اس کو دیکھا تو  تھکن اس کے چہرے سے عیان تھی ، اس نے مجھے جلدی سے کچھ باتیں بتائیں اور چل پڑے جیسے اسے بہت جلدی ہو جانے کی اس کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ میرے یہ اگلے کچھ دن کچھ اتنے آسان نہیں ہوں گے۔
 ،
   کمرے میں داخل ہوا تو بدبو تھی وہاں اتنی زیادہ کہ ایک لمحے کو تو سانس بھی رک گیا ، کمرے کا جائزہ لیا تو سامنے ایک چارپائی دو پرانی کرسیاں ، ایک چھوٹی صندوق اور ایک فریج اور سامنے دیوار میں ہی آلے جن میں برتن اور کچھ سامان پڑا تھا ۔ ایک کونے میں ایک پلنگ اور اس پر ایک زندہ لاش پڑی تھی ۔ پلنگ کے سامنے ایک میز پر دو لفافے تھے جن میں دوائی اور کچھ پرچیاں تھیں جن پر دوا کی ہدایات لکھی ہوئی تھیں۔ میں نے بیگ سے ایئر فریشنر نکالا اور فضا میں سپرے کر دیا لیکن اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا لیکن تب تک میں اس بدبو کا عادی ہو چکا تھا اور وہ بتدریج مجھے غائب ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔ مجھے ایک کوڑا جننے والے بچے کی بات یاد ا گئی جب اس سے سوال کیا گیا کہ اس کو کوڑے کے ڈھیروں سے بدبو نہیں آتی تو وہ بول کہ یہ بدبو اس کے جسم میں داخل ہو گئی ہے اس کے نفس کو مار دیا ہے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔۔
   یہ سردیوں کی شام تھی سو اندھیرا جلد ہی پھیل گیا کمرے میں گیس کا ہیٹر پہلے سے ہی جل رہا تھا ، باہر نکلنا یا دروازہ کھلا رکھنا بھی مکن نہیں تھا مجھے لگا کہ میری یہ رات بہت سخت ہو گی کیونکہ اتنی سردی میں میرا یہاں پہلی بار آنا ہوا تھا میں نے اپنے بیگ میں ایک ناول ،  موبائل کا  جارجر اور ٹیبلٹ معہ ہیڈ فون  لایا تھا کہ وقت اچھا گزر جائے گا کہ یہاں تین دن گزارنے تھے مجھے۔  اور اسی کمرے کے اندر باہر شدید سردی تھی اور اگر نہ بحی ہوتی تب بھی مجھے کمرے میں ہی رہنا تھا ، مجھے یہ دنیا ہی کوئی اور دنیا   بلکہ یہ کمرہ ہی مجھے میری کل دنیا لگی ، ایک وہ دنیا تھی جس کو میں کچھ لمحے پہلے چھوڑ کر آیا تھا جس میں وسعت ہی وسعت تھی آزادی ہی آزادی ، اور ایک یہ قید جہاں سانس لینا بھی مشکل تھا ۔ مگر اس اتنی وسیع دنیا میں بھی میں نے فرار کی اتنی راہیں تلاش کر رکھی تھیں ، دوست ، کتابیں ، فلمیں ، کھیل اور جانے کیا کیا ، خود کو مصروف رکھنے کے لیے ۔ لیکن یہاں تو سب مختلف تھا البتہ وقت تھا یہاں کہ میں وہ کام کر سکوں جو کرنا چاہوں ۔ لیکن عجب حالت تھی کہ کچھ بھی نہ ہو سکا مجھ سے ، اس دنیا میں جہان سب کچھ تھا میرے لیے میں اپنے کچھ کنٹیکٹس کے ساتھ گھنٹوں فون پر بات کر لیتا تھا پورا پورا دن ٹیکسٹنگ کرتے گزرری ، کوئی کتاب اتھا لیتا تو  جب تک ختم نہ ہو جاتی نہ کھانے کا ہوش نہ سونے کا ، کوئی فلم سیریز یا سیزن  شروع کرتا تو ختم ہونے تک چین نہ آتا ، اسی خیال سے ناول ، ٹیبلٹ اور موبائل چارجر وغیرہ ساتھ لایا تھا کہ جو دل چاہا کر لوں گا۔ لیکن ان چیزوں کو دیکھتے ہی اکتاہٹ ہونے لگی ۔ بے معنی لگنے لگیں یہ سب چیزیں ، شاید یہ ساری چیزیں اس ایک کمرے کی دنیا میں مس فٹ تھیں۔ تینوں کام کرنے کی کوشش کی  لیکن دوسرے ہی لمحے ہی بیزار ہو گیا   
کونے میں پڑی مردہ لاش کھانسی ، شاید اس کی دوا کا جو اثر ختم ہو چکا تھا ، اور اب وہ محسوس کر سکتی تھی اپنے ارد گرد چیزیں ، اس نے میری طرف اجنبی نظروں سے دیکھا اور پوچھا کہ کب آئے ہو ۔ میں نے اسکو پانی پلایا پھر ہر آدھے گھنٹے بعد وہ مجھے اجنبی نظروں سے دیکھتی  اور زندہ لاش پوچھتی کہ کب آئے ہو ۔ شاید اس کو کسی کا انتظار تھا  یا راہ دیکھ دیکھ کر اس کی گمشدہ یاداشت میں بس یہی جملہ بچا تھا ، جو وہ ادا کر دیتی  ، میں جب بھی یہاں آتا تو سوچتا کہ شاید وہ اگلی بار نہیں رہے گی ، اور دل میں یہ خواہش بھی ہوتی کہ وہ نہ ہی رہے ، لیکن جانے کیوں اس کی سانسوں کی آخری ڈوری ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ میں نے فریج کھولا  اس کے کھانے کے لیے چیزیں جمع کیں  اور کمرے کے سامنے چھوٹا سا کچن تھا  اسمیں گرم کیں اور اس کو کھلانے لگا ، اس کو وہ خوارک بھی حلق سے اتارتے مشکل پیش آرہی تھی  بے بسی  اس  زندہ لاش کی انکھوں سے جھلک رہی تھی اور تھکن ماتھے کی سلوٹوں سے واضح تھی ۔
زندگی ایکسپلور تو کرنے والے تو ملکوں ، سمندروں اور جزیروں پہ گھومتے ہیں لیکن  جس نے زندگی کو سمجھنا ہو وہ اس بارہ ضرب بارہ کے کمرے میں آ جائے ، کچھ تلخ ترین حقیقتیں اس کی زندگی بارے ساری غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں کو منٹوں میں ملا میٹ کر دیں گی۔ میرے سوچ یکدم بہت سمٹ گئی تھی میں جانے کتنی دیر  زندگی اور بے بسی کا آپسی تعلق سوچتا رہا۔ حیرت انگیز طور پر رات گزرتی ہی جا رہی تھی ۔ میں نے ساچا تھا کہ ایک ایک لمحہ رک جائے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا مجھے شدید احساس ہوا کہ وقت کٹ ہی جاتا ہے اوررات گزر ہی جاتی ہے ،  اور نیند بھی آ ہی جاتی ہے ۔رات کے کسی پہر میری انکھ لگ گئی صبح انکھ کھلی دستک سے زندہ لاش کے کپڑے بدلنے والا ایا تھا  اور اس نے آدھے گھنٹے میں یہ کام اور کچھ صفائی کرنی تھی  اور اسی وقت میں مجھے اپنے باہر کے کام کرنے تھے کھانا وغیرہ کھانا تھا باہر جا کر کہ کل سے کچھ بھی کھایا پیا نہ تھا اور زندہ لاش کے لیے بھی کچھ لے کر جانا تھا میں جلدی  سے انے والے کو ہدایات دے کر باہر نکلا گھنٹوں بعد تازہ ہوا میں آیا تو  میرا دم سا گھٹنے لگا  ۔۔۔۔۔

3 comments:

  1. اتنا سسپینس۔۔۔؟ خیر ہے امتیاز بھائی؟

    ReplyDelete
  2. قصہ کیا شاہ جی؟۔
    سسپنس کے بعد ۔۔۔۔۔۔کچھ ایویں سی بات کردی تو خاطر۔۔۔۔۔جمع رکھئے گا

    ReplyDelete
  3. زندگی ایکسپلور تو کرنے والے تو ملکوں ، سمندروں اور جزیروں پہ گھومتے ہیں لیکن جس نے زندگی کو سمجھنا ہو وہ اس بارہ ضرب بارہ کے کمرے میں آ جائے
    _____________________________________________________________

    بات بہت عمدہ ہے اگر مضمون پر نظر ثانی کرتے اور اس بات کے کیے مناسب تمہید اور اضافہ فرمالیتے تو بات پھڑکا کر رکھ دیتی۔

    ReplyDelete