January 13, 2011

Mid Night پاگل پن

بچے  آگ کو بھی پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلیے نہیں کہ وہ ناسمجھ ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ بہادر ہوتے ہیں۔
 ، ہم اپنے اندر خٔوف پالتے رہتے ہیں  اور یہ خوف ہمیں اندر سے کمزور اور 
کھوکھلا بنا دیتے ہیں۔ طرح طرح کے خٔوف بلخصوص
  ہم اپنے کل کو بچانے کے لیے اپنا آج دائو پر لگا" fear of tommorow"
دیتے ہیں ۔ وہ کل جو دیکھا بھی نہیں اس کے لیے اپنا آج جو ہمارے ہاتھ میں ہے وہ  گنوا دیتے ہیں۔
خواب دیکھنے سے ڈرنے  لگتے ہیں۔ اور خٔود اپنے خٔوابوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔کسی چیز کو کھو دینے کا خٔوف ،اس چیز کو کھونے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے
اپنی موجودہ نوکری میں میں بھی اپنے اندر کی آزادی کھو چکا ہوں ۔ 
 کے نام پر میں نے اپنے اندر secure and stable,permanent  job   
کا بہادر انسان مار دیا ہے اور اس کی جگہ ایک ڈرپوک انسان کو بٹھا دیا ہے اپنے اندر اتنے خٔوف پیدا کر لیے ہیں کہ  میرے اندر کے اندیشوں کا قد میرے خوابوں سے بھی بڑا ہو گیا ہے  ، میں کہ کبھی  کہتا  تھآ کہ 
save your  resignation letter on desktop .
آج  کبھی جاب چھوٹ جانے کا خیال بھی آ جائے تو جمع تفریق میں لگ جاتا ہوں۔ ہم زندگی میں رسک لینے سے ڈرتے ہیں۔ اور با آسانی زندگی ایک خول but life is worth a riskمیں رہ کر گزارنے پرآمادہ ہو جاتے ہیں۔  
میں کبھی سوچتا ہوں کہ میںکس چیز سے ڈرتا ہوں ۔ اپنے خوابوں کے پیچھے کیوں نہیں جاتا ۔ کیا خوف ہے میرے اندر ، کیا میں بھوکا مر جانے سے ڈرتا 
Such a coward and freak i amہوں۔  
یا اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اس سفر میں کچھ آسائشیں جو اب مجھے میسر ہیں وہ چھن جائیں گی۔ ایک فلم کی ایک لائن ہے۔۔
Every dream deserves a fighting chance..
میں  اس راہ پر چلنے کو تیار ہوں جو مجھے دوسروں نے دکھائی ہے یعنی ساٹھ سال میں ریٹائرمنٹ اور پھر ماہانہ پنشن ۔ لیکن اپنے لیے نئی راہ خٔود دریافت کرنے کو تیار نہیں ہوں ۔ حتی کہ اپنی منزل خود متعین کرنے کو بھی تیار نہیں۔ ساٹھ سال میں جب میں ریٹائر ہوں گا تو یہی خیال ہو میرے زہن میں زندگی  یہی بات ہو گی تیس سال کی نوکری میں اپنے لیے ایک پل بھی نہیں جیا۔۔
Million dollar Baby ki aik line  sahi yaad  nahi
 ......کچھ ایسے ہے کہ
ُ"People die every day , washing dishes , cleaning floors, and at the time of death thier death , thier final thought is they never had thier chance , they never had thier shot"
اور اب خٔود کو دیکھتا  ہوں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ان دو سالوں میں فقط دو سالوں میں مجھ میں اتنا دم ہی نہیں رہا کہ میں پہلے کی طرح سوچ بھی سکوں اور ان تو یوں لگتا ہے کہ شاید 
I would never be myself again...
میرے ایک کزن نے جب میں نے اپنی موجودہ جاب جائن کی تھی اس وقت کہا تھا ایک جملے جو مجھے اج بلکل صحیح لگا رہا ہے کہ ۔۔
today imtiaz loses imtiaz..
ہم لوگ سوچوں اندیشوں اور تحفظآت کے گرداب میں پھنس کر پوری عمر ضائع کر دیتے ہیں اور ہمیں احساس بھی  نہیں ہوتا کہ ہم کتنے ڈر پوک ہو چکے ہیں۔۔
اور ہم اپنے اندر کے  خوف کو عقلمندی کا لبادہ اوڑھا کر خٔود کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کو مجبوری کا نام دے دیتے ہیں بوڑھے ماں باپ ، بیوی ، چھوٹے چھوٹے بچے "same old lame excuses"- 
درحقیقت فیصلہ کرنے کی قوت ہی اپنے خوف کے ہاتھ گروی رکھ  ، چکے ہوتے ہیں۔ اور ایسی سوچوں کو بچگانہ سوچ کا نام دے کر خود کوبھلانے کی کوشش  کرتے ہیں جیسا کہ اس وقت آپ میرے متعلق سوچ رہے ہوں گے۔  
Throughout our lives we yearn for a moment of glory, and at the time of death we find out , we had none...

12 comments:

  1. شاہ جی،آپ نہایت ہی ڈرپوک بندے ہو!!!!۔
    ایک دفعہ جس راستے پہ قدم رکھ دیا اب پچھتانا کیا؟
    حیلے بہانے چھوڑٰیں۔
    جو ہے جیسا ہے پر قناعت کریں اللہ میاں کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں۔
    مٹی کا پتلا تو ہے ہی پچھتانے والا۔

    ReplyDelete
  2. محترم ۔ ميں ايک پاگل آدمی ہوں ۔ اور آپ جانتے ہں کہ پاگل آدمی بہت بہادر ہوتا ہے کيونکہ اسے کسی عمل کے انجام کا شعور نہيں ہوتا ۔ ميں جب اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں کی بنا پر اچانک مگر سوچ سمجھ کر پونے باون سال کی عمر ميں پکی ملازمت سے مستعفی ہو گيا تھا تو لوگوں نے مجھے پاگل کہا تھا ۔ پھر چند سال بعد اُنہی لوگوں نے مجھے بہت سمجھدار کہا
    آدمی کو چاہيئے کہ پہلے اللہ پر يقين کامل کرے کہ وہ ہی خالق ۔ رازق اور مالک ہے پھر اچھے اصولوں پر رہے تو کبھی نہ بھوکا مرے گا نہ پچھتائے گا

    ReplyDelete
  3. Every decision we make carries with it some degree of risk. Some of these risks are immediate, while others can take years to come to fruition. Some can lavishly reward us, while others may punish us for hours or years. collectivly life is all about taking risks and having dare to make your dreams come true. :)

    ReplyDelete
  4. آدھی رات کے پاگل پن پر کیا ڈرنا ۔۔ رات گئی بات گئی بھول جائیں :)

    ReplyDelete
  5. ایک تو انگریزی زیادہ ہے اس تحریر میں
    تو طاہر ہے میری سمجھ سے باہر ہے
    دوسری بات یہ کہ بھائی جان، پچھتاوے بھی بندے کو بڑا ذلیل کرتے ہیں، کل کے خوف کے علاوہ
    اس لیے جو ہوچکا ، اس پر پچھتانا، جو کیا جاسکتا ہے، اس کی ہمت بھی چھین لیتا ہے۔

    ReplyDelete
  6. Shah gee........... koi Nai baat bataoo..... yeah Fear too Azzal say Abbad tak rahay ga......Jis Qadar Emaan Kamzoor houn gay Khouf bhi utna hee Powerful hoga.....

    ReplyDelete
  7. سہی سہی بتا شاہ جی نوکری کا تو ایویں نام لیا تو نے، تیرا اپنی مشوق کت ساتھ نو دو گیارہ ہونے کا ارادہ ہے یا وہ کسی کے ساتھ نو فروری سے پہلے ہی نس گئی؟

    ReplyDelete
  8. اک اچھے خیال کو درمیان میں انگریزی کے جملوں سے آخر کیوں آلودہ کیا گیا ہے؟

    ReplyDelete
  9. Bilal... I completely understand your point of view... We as Human Beings have no peace what so ever we do... Responsibilities are taking a toll on us... and we still struggle to make every other important relation a pleasant one.... but on what price?
    The market situation is not good any where... there is no stability in jobs any more... in Dubai, I have seen, people arriving for work just to receive a sudden termination letters... then it comes to realization that what to do next...? we do not have jobs... we dont seem to get any new job any time soon and we have pile of people to feed... thats a fear of responsibility, which takes takes the toll on one's health and mind...
    There are very few people left in the world who do not compromise on their principles OR islamic principles... whether they are left with a job or left in a desert of nowhere... and as Mr. Iftikhar Ajmal said, people will tout you as an emotional fool or stupid to take these kind of decisions... but then the only thing which matters is your peace of mind that you have not compromised with any wrong doing...
    Difficult thing to do buddy... but only difficult things and efforts take a person on peek...

    The focal point of your article is "loosing of you"... and I completely agree on that... when we realize that we have some one with in ourselves, towards whom we have some responsibilities... at that time, we actually do not have TIME... its very late to cheer a person with in yourself... We as ourselves loose our own battle on the way of fighting for other's battles.... for winning others, we loose the most important part of the life and that is... "I... the person"...

    I realize that not lots of people will understand what i wrote above but I will try to write it in Urdu as well so I can describe clearly what I want to write....

    Best of luck with your future...

    ReplyDelete
  10. ضیاء بھیا نے بڑی خوبصورت بات کی کہ جتنا ایمان کمزور ہوگا اُتنے ہی ڈرپوک ہوں گے ہم۔ اور بات بھی یہی ہے کہ جب کلمے والا یقین ہمارے اندر سے نکل جائے تو پھر بندہ خالق کو بھُلا کر مخلوق سے ڈرنے لگتا ہے۔ انسان کی وہی فیلینگز ہوتی ہیں جنکا ذکر آج آپنے کیا۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ شاید رزق اللہ نہیں نوکری دیتی ہے، بال بچوں کو اللہ نہیں میں اپنی محنت سے پالتا ہوں، میری کامیابی کا انحصار اللہ کے چاہنے پر نہیں بلکہ میری اپنی عقل ، ذھانت اور محنت پر ہے

    ReplyDelete
  11. @یاسر جاپانی
    جی بندہ تو میں ڈرپوک ہوں کوئی شک نہیں
    لیکن میں نے کب کہا کہ میں پچھتا رہا ہوں
    میرا مدعا تو صرف اتنا ہے کہ پہلے یہاں آنا درست فیصلہ تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں
    کہ ایکدرست فیصلہ کر کے انسان سو جائے۔۔
    اللہ کا شکر بے جی ہر حال میں ۔ اور اللہ کی دی صلاحتیوں کو بھرپور استعمال کرنا بھی
    اسی شکر باری تعالِی کا تقاضا ہے۔ اور صبر بھی اسی کو کہتے ہیں کہ اپنی تئیں ہر ممکن کوشش کریں
    اور اس کے بعد سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں
    ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو صبر نہیں کہتے۔۔
    @افتخار صاحب
    جی بلکل ۔۔
    ہم اجکل اپنے اندر نہ صرف خٔوف پالتے ہیں بلکہ ان کو اپنے اردگرد بھی پھیلاتے ہیں۔۔اور اپنے انے والی
    نسلوں میں بھی منتقل کر رہے ہیں۔۔
    میرا ایک کزن آج کل جاب چھوڑ کر کچھ اپنا کام شروع کرنے کا سوچ رہا ہے۔
    اس کی عمر بمشکل تیس سال ہے۔۔ میری جاب اس سے بات ہوئی تو میں نے اس کے فیصلے کو بہت اچھا کہا اور اس کے عمل کو سراہا تو وہ حیران ہوا
    اور کہا کہ اسنے جتنے لوگوں سے بھی یہ بات کی انہوں نے اس کو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے سختی سے منع کیا ہے۔۔
    اور اسکو اسکا پاگل پن کہا۔۔میری بات بھی میری عمر اس سے کم ہونے کی وجہ سے
    میری نا سمجھی سمجھ کر اگنور کر گیا ہو گا۔۔
    لیکن یہ کیسا خوف ہے کہ ایک تیس سال کا پڑھا لکھا اور اپنی فیلڈ میں چار سالہ اچھآ تجربہ کار
    بھی فیصلہ کرنے سے گبھرا رہا ہے۔۔۔
    @عاصہ خان
    اپنے تھوڑے سے الفاظ میں ایک تفصیلی پیغام دیا ہے۔۔
    اور جہاں تک خطرات کی بات ہے تو وہ گھر میں اپکے بستر پر بھی پہنچ آتے ہیں۔۔
    @حجاب
    اپکی بات سن کر بے ساختہ پروین شاکر کا شعر یاد آ گیا۔۔

    رات وہ درد دل میں اٹھا
    صبح تک چین نہ آیا لوگو
    @جعفر
    یار انگریزی وہ بھی ٹوٹی ہوئی اس لیے کہ یہ سب میں نے صرف اپنے لیے لکھا
    اور میں کہنا چاہتا تھا سو جو لفظ ملے جس زبان میں ملے ٹوٹے پھوٹے انداز میں کہہ ڈالے
    اور میں پچھتانے کی بات نہیں کر رہا موجودہ جگہ سے آگے بڑھنے کی خواہش نہ ہونے پر خوفزدہ ہوں
    @ضیاء
    بجا فرمایا جناب آپنے۔۔
    بس یہی بات میں نے کبھی کسی کتے کو بھی سڑک کنارے بھوک سے مرتے نہیں دیکھا
    لیکن پھر بھی ڈرتا ہوں کہ میں ایک انسان کہیں بھوک سے نہ مر جائوں
    @ڈفر
    یار میری ساری معشوقوں کی شادی ہو گئی ہے۔۔
    اسی رسک نہ لینے کی وجہ سے ورنہ ۔۔ کم سے کم ایک تو میرے ساتھ دوڑنے کو تیار تھی
    گھر سے نہیں یونیورسٹی میں دوڑ کے مقابلے میں
    @ابوشامل
    بس ایک حقیر سا طالب علم ہوں۔۔ سو سہارے ڈھونڈنے پڑے۔۔
    @عمران اقبال۔
    میں یہی کہوں گا کہ آپ نے میری پوسٹ کے بجائے میرے زہن کو پڑھ کر تبصرہ کیا ہے۔۔
    بس صرف ایک نکتے پر مجھے کبھی کبھی احساس ہوتا کہ شاید ہم خود فریبی کا شکار ہیں
    وہ یہ کہ ہم اپنی کم حمتی اور اپنی کمزوری کا وزن اپنی قریبی رشتوں کو دیتے ہیں جو کبھی صحیح بھی ہوتا ہے
    لیکن ہمیشہ نہیں۔ لیکن اس خٔوف کی بڑی وجہ یہی رشتے ہوتے ہیں جن کو مضبوط کرتے کرتے ہم خود
    بہت کمزور ہو جاتے ہیں۔
    دوران نوکری ہم اپنے اصولوں پر سمجھوطہ کیے بغیر کام کر سکتے ہیں
    لیکن اس کے لیے بھی پروموشن نہ ہونے کا خوف اور باس کی ناراضگی کا خوف
    اپنے دل سے نکالنا ہو گا۔۔
    یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمارا قد بحیثیت انسان بڑا نہیں ہونے دیتی ۔
    اور انہی چیزوں میں الجھ کر ہماری شخصیت وہ نشونما نہیں پا سکتا جو اسکو وقت کے ساتھ پانی چاہیے۔۔
    جو بھی عوامل ہوں نتیجہ یہی سامنے آتا ہے کہ
    ہم آزاد نہیں ہیں ۔۔ بظاہر ہم بھلے ہی آزاد ہوں ہمارے زہن جکڑ ے ہوئے ہیں طرح طرح
    کے اندیشوں میں ۔۔
    اور جیسے اپنے کہا انہی چیزوں سے بالاتر ہو کر ہی انسان پانے عروج پہ پہنچتا ہے پر اسکے لیے اسکو مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔۔
    @عادل بھیا
    جی ہم اسباب میں الجھ کر مسبب اسباب کو بھلا بیٹھے ہیں۔۔

    ReplyDelete
  12. ہے اب اس مامور میں قیدِ غمِ الفت اسد
    ہم نے یہ مانا کے دہلی میں رہیں کھاوے گے کیا

    ReplyDelete