December 19, 2010

زہنی استعداد و انسانی نفسیات

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو  سکتا کہ انسان کا دماغ اس کے جسم میں مرکزی   حیثیت رکھتا ہے ، اور انسان کے ہر عمل میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ  انسان کا دماغ بھی محظ ایک عضو ہے باقی اعضاء کی طرح اور باقی اعضاء کو برابری حیثیت حاصل ہے،
 دماغ کا کام باقی اعضاء کو مدد فراہم کرنا ہوتا ہے  فقظ ، نہ کہ ان کو اپنی مرضی پر چلانا یا ان پر اپنے فیصلے مسلط کرنا۔۔
 یہاں جو سب سے اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا انسان اپنے دماغ کے تابع ہے یا دماغ انسان کے۔۔
انسان کے زہن کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو باقی جسم پر ہأوی ہو جاتا  ہے ۔۔ زہن بنیادی طور پر جارحیت پسندانہ اور  توسیع پسندانہ عزائم کا حامل ہوتا ہے۔ کیونکہ  زہن    جسم کے باقی ہر عمل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے ، تو اگر انسانی زہن کو کھلا چھوڑا جائے تو  یہ انسانی   اعضاء پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرتا اور ان کا مددگار ہونے کے بجائے ان پر اپنا تسلط حاصل کرتا ہے  جس سے باقی اعضاء  زہن کی دانست کے زیر اثر آ جاتے ہیں ،جس سے انسان اپنے باقی جسم کو ان کی استعداد کے مطابق بروئے کار نہیں  لا سکتا۔
اگر  غٔور کیا جائے ہم میں سے سبھی لوگ اپنے زہن کی اجارہ داری کے سامنے سرتسلیم خم کر چکے ہوتے ہیں۔  اور جب بھی کبھی ایسا ہو کہ آپ کا کمانڈ اور کنٹرول صرف ایک حصے کے زیر اثر آ جائے اور وہ باقی حصوں کے ساتھ انصاف نہ کر پائے تو اس   کے نتیجے میں انسان کا جسم نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔۔
کہتے ہیں کہ جو لوگ ہاتھی کو سدھآرتے ہیں وہ اس کے پائوں کو ایک چھوٹی سی رسی کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے ، وہ رسی انتہائی کمزور ہوتی ہے کہ ہاتھی کہ پائوں کی محظ ایک چھوٹی سی   جنبش کے ساتھ ٹوٹ جائے  لیکن وہ ایسی کوشش نہیں کرتا کیونکہ وہ رسی اس کے پائوں کے ساتھ اسکو بچپن میں سدھارتے وقت  باندھی جاتی ہے ، تب وہ توڑنے کی کوشش کرتا ہے  لیکن توڑ نہیں   پاتا تو پھر وہ دوبارہ کبھی ایسی کوشش ہی نہیں کرتا۔۔
کیونکہ اس کے زہن میں یہ بات  بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ  وہ رسی کو نہیں توڑ سکتا۔ 
یہ زہنی اجارہ داری یا ہٹ دھرمی کی عمدہ مثال ہے ۔یہاں رسی کو توڑنا  پائوں  کا کام تھا اور پائوں کو ہی کرنا چاہیے نا کہ زہن انسان کو ڈکٹیٹ کروائے کہ  وہ یہ کام نہیں کر سکتا۔ زہن کا کام صرف پائوں کے اس کام میں مدگار ثابت ہونے تھا کہ کس طرح وہ  احسن طریقے سے یہ رسی توڑ سکتا ہے۔ نہ کہ پورے جسم کا ٹھیکہ دار بن کر یہ فیصلہ کرے  کہ پائوں یہ کام نہیں کر سکتا۔اس کا زہن  جسم کی استعداد میں کمی کا باعث بنا رہا ہے۔  اور یہی  نفساتی کمزوری کا وہ عنصر ہوتا ہے  جو  
 زہن , انسان میں  پیدا کر کے اس کو کمزور کر دیتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

5 comments:

  1. ہم سب کے ذہنوں پر بھی بہہہہہہت سے سوالات طاری ہیں کہ شاہ آخر فیس بُک سے کہاں بھاگ گیا اور وہ بھی کسی کو بتائے بغیر۔۔۔

    ReplyDelete
  2. بہت زبردست
    ہم خاص کر پاکستانی مسلمان ہاتھی کی طرح کمزور سی رسی سے ہی بندھے ہوئے ہیں۔
    دماغ کنٹرولڈ ہیں۔
    رسی توڑنا تو دور کی بات رسی ہلانے کا بھی نہیں سوچ سکتے۔خوف عجیب خوف۔
    کہ ہزار سال جینےکا ارادہ ھے اور کل کا سوچنا نہیں چاھتے۔
    بس روزانہ صبح ہوتی ھے۔حیلے بہانے کرتے رات ہو جاتی ھے۔

    ReplyDelete
  3. ميں نے سُنا ہے کہ ہاتھی کا دماغ اس کی جسامت کے لحاظ سے بہت ہی چھوٹا ہوتا ہے اسلئے اس کا دماغ باقی اعضاء کو قابو کرنے کی بجائے اعضاء کے قابو ميں رہتا ہے ۔ اور کمزور رسی کو توڑنے کی کوشش نہ کرنا اس پر دلالت کرتا ہے ۔
    آپ ايک بلی کو کسی جگہ بند کر ديجئے ۔ جب تک وہ رہا نہ ہو جائے نت نئے طريقے آزماتی رہے گی ۔
    ہاتھی بچپن ميں ايک بار مغلوب ہو جائے تو ساری زندگی رہائی کا نہيں سوچ سکتا دماغ کی کمزوری کی وجہ سے

    ReplyDelete
  4. یار کچھ فلسفہ زیادہ تیز نہیں ہوگیا؟

    ReplyDelete
  5. استاز کچھ سمجھ نی لگی مجھے
    :(

    ReplyDelete