August 19, 2010

کبھی دیر نہیں ہوتی

خلاف معمول ہم چار دوست  سنجیدہ تھے اور سنجیدگی میں پریشانی کا عنصر بھی نمایاں تھآ ، ہماری نشست پشاور کے مشہور ہوٹل خیبر چرسی تکہ پہ تھی جو کہ عین اسلامیہ کالج پشاور کی مخالف سمت میں ہے کھآنے کے انتظآر میں تھے عام حالات میں تو ہماری محفل قہقوں سے بھرپور ہوتی لیکن یہ مستقبل کے اندیشے تھے جو ہم پہ اس لمحہ غالب تھَےہم اسلامیہ کالج سے اپنی انٹرمیڈیت کی ٹرانسکرپٹ لینے آئے تھَے ، ،اسلامیہ کالج سابقہ سرحداور موجودہ خیبر پختونخواہ کی سب سے بڑی اور مشہور درسگاہ ہے ، یہ درسگاہ مختلف حوالوں سے بہت ممتاز حیثیت رکھتی ہے، چاہے اس کی وجہ اس کی دلکش عمارت ہو، خیبر پختون خواہ کی قدیم ترین درسگاہ ہو، یا اس کا اونچا میرٹ ، یا وہ سو روپے کا نوٹ جس پہ اس کی تصویر ہے یا قائداعظم کا اس سے تعلق کہ وہ اپنی وراثت کا ایک حصہ اس درسگاہ کو دے کر آئے تھے اس کے سبھی حوالے اس کی عظمت کا باعث تھے اور پھر اسی جداگانہ پن اور احساس فخر سے اس کے طلباء بھی سرشار رہتے تھے۔ یہ درسگاہ طلباء کو خواب دکھانا جانتی اور پھر ان کو اپنے خوابوں کے پیچھے دیوانہ وار بھگانا بھی۔اور شاید یہ اسی درسگاہ کی پرواز تھی کہ جس نے ہمارے پر جلا دیےتھےشاید کہیں اور ہوتے تو ہمیں اپنے نمبر بہت بہتر لگتے لیکن اپنے اونچے خوابوں کے سامنے ہمیں اپنےنمبر کہیں کم دکھآئی دیے ، سو ہمارے چہرے مایوس تھے اور ہم مستقبل کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے ہمارے برابر میں کچھ لوگ بیٹھَے تھَے ، ہمارے بلکل قریب ہونے کی وجہ سے ہماری باتیں سن رہے تھے ان میں سے ایک ہم سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں ، ہم سننا تو نہیں چاہتے تھے پر وہ اتنے پیار سے بولے کہ چاہتے ہوئے بھی اور عمر کا لحاظ کرتے ہوئے ہم ان کی بات سننے لگے اگے ان کی بات انہی کی زبانی سنیئے
   میں نے میٹرک دوسری ڈویژن میں کیا ، ایف اے میں تین سال لگائے،اور تین ہی سال میں بی-اے بھی تیسری  ڈویژن میں عام سے مظآمیں ہی  کر پایا، گھر والوں کو مجھ سے کچھ خآص امید نہ تھی سو انہوں نے مستقبل کے متعلق پوچھنا ہی نہیں کہ کیا کرنا چاہتے ہو، پہلے تو گھر پڑا رہا لیکن کچھ دن کے بعد اکتاہٹ ہونے لگی تو ایک دوست سے بات ہوئی اس کے نتیجے میں نے گھر آ کر بتایا کہ میں سی-اے کرنا چاہتا ہوں،پہلے تو بہت ہنسے اور یہی سمجھے کہ میں مزاق کر رہا ہوں لیکن جب میں نے ان کو یقین دلایا کہ میں سنجیدہ ہوں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے لگے، کہنے لگے اب آخری عمر میں سی-اے کرو گے ، عرض والد سے لیکر بھائی بہن سبھی نے مجھے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ، جب گھر سے مایوسی ہوئی تو محلے میں دوستوں کو بتایا وہ بھی مزاق اڑانے لگے حتی کہ محلے کہ بزرگ آ آ کر مجھے سمجھانے لگے  ہر کوئی وقت اور عمر کے تعنے دیتا ،حد تو یہ ہو گئی کہ محلے کا ایک نشئی جس کوا پنا ہوش نہ تھا اور ہر وقت ایک درخت کے نیچے مدہوش پڑا رہتا تھآ وہ بھی مجھے سمجھآنے لگا نہ معلوم یہ کسی دوست کی شرارت تھی یہ اس کی ہمدردی۔۔۔ بحرہال مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں کوئی غلط کام کر بیٹھا ہوں سو اپنی تئین شرمندہ ہونے لگا اور معافی مانگنے کا سوچنے لگا لیکن تب احساس ہوا کہ میں چوری ڈکیٹی یا قتل تو نہیں کرنے جا رہا پھر اتنی مخالفت کیوں تو بس ٹھآن لی کہ اب کر کے دکھآنا ہے جب سی-اے میں داخلہ لیا تو نہ ٹھیک سے معمولی حساب کتاب آتا تھا اور نہ ہی انگریزی پڑھ سکتا تھآ کیونکہ بی-اے تو بوٹی کے زریعے کیا تھآ، لیکن آج میں ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہوں۔
  اس کے بعد وہ بولے کہ انسان کو کبھی دیر نہیں ہوتی وہ کبھی لیٹ نہیں ہوتا جس دن اور جس وقت وہ کسی کام کو کرنے کا اٹل ارادہ کر لیتا ہے وہی وقت اس کام کو کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔اور  وقت کے ساتھ بھاگتے بھاگتے اکثر لوگ لڑکھرا جاتے ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو دوبارہ سے نئے حوصلے سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہیں ۔ورنہ تو لوگ اپنے ضائع شدہ وقت کے احساس زیاں میں اپنی پوری عمریں بےکار گزار دیتے ہیںہم اکثر صرف یہ کہہ کر کہ اب بہت دیر ہو گئی اور اب کچھ نہیں ہو سکتا کہہ کر زندگی میں بہت کچھ کھودیتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح میری اس تمہید کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے میرا دوست۔۔ ابھی دوبئی سے واپس آیا ہے ۔واپس آنے کی وجہ ، نوکری میں مسائل اور کچھ جدباتی غلطیاں  ہیں وہاں تین سال اس نے بینک میں سیلز کی نوکری کی اور یہاں سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری لیکر گیا تھآ  سو ادھا تیتر ، آدھا بٹیر بن کے لوٹآ ہے۔ اس سے جب بات ہوئی تو اس کو جب کہا کہ وہ واپس کمپیوٹر سائنس میں آئے تو اس نے بھی یہی بات کہی کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے تو یہ کہانی زہن میں گھوم گئی،پہلے اس کو پاکستان میں رہنے پر اور پھر واپس کمپیوٹڑ سائنس میں آنے پر آمادہ کیا ، ابھی اس کا ایک اچھی  جگہ انٹرویو کروایا ہے اور خّود تیاری بھی کروائی ہے، کل اسکا انٹڑویو ہے وہاں مجھے معلوم ہے کہ یہ اس کے لیے نہایت ایم ہے لیکن یہ میرے لیے بھی بہت اہم ہے کہ میں کم سے کم ایک ایسی مثآل دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو باہر سے آکر واپس اپنے ملک میں ابتدائی سالوں میں ہی سیٹل ہوا ہو کیونکہ یہاں تو ہر کوئی یہاں سے بھآگ جانے کا ہی مشورہ دیتا ہے۔۔اور میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں بھآگ جانا اور چھوڑ کر چلے جانا کہاں کا اپشن ہے ، لڑنے کے لیے یہی جگہ ہے کہ یہاں حالات نامسائب ہیں اور بھآگ جانے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے۔۔لو جی میں پھر جزباتی ہو گیا اور میرے بھآشن شروع ہونے والے اور میرے دوست ویسے بھی کہتے ہیں کہ میرے پاس ہر وقت کے لیے ایک کہانی اور ایک مثال تیار یوتی ہے اس لیے پہلے ہی بھآگ رہا۔۔ بہرحال میرے دوست کے لیے دعا کیجنَے گا۔۔

10 comments:

  1. اگر ہماری قوم کا کم از کم پڑھا لکھا طبقہ يہ بات سمجھ لے کہ دير کبھی نہيں ہوتی صرف محنت اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے تو ہمارا مُلک خوشحالی ک طرف گامزن ہو جائے

    ReplyDelete
  2. یہ تو نے مجھے سنانے کے لیے لکھا ہے ناں؟

    ReplyDelete
  3. اللہ مالک جی سب کا۔
    ویسے میں سوچ رہا ہوں۔کاروبار وغیرہ کئے بغیر بینک میں سرمایہ کاری کروں اور خنزیر خوری کروں اور پاکستان میں شان سے زندگی گذاروں۔
    باہر پلٹ ایک دوست اسی طرح سیٹ ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ھے۔کاروبار کیلئے پاکستان میں جھوٹا ہونا لازمی ھے۔
    اس میں بھی کامیاب ہونے کی گارنٹی نہیں۔
    روز روز کا خنزیر کھانے سے بہتر ھے سال میں ایک دفعہ آنکھیں بند کر کے کھا لوں۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لگتا ھے کچھ جل گیا ہوں میں۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  4. بہت اچھی بات لکھی ہے شاہ جی میں بھی انشاءاللہ اب قران حفط کرنے کا اٹل ارادہ کرتا ہوں...... کیونکہ دیر تو کبھی نہیں ہوتی اور سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی........ اور یاسر بھائی جذبات میں کچھ زیادہ ہی آگئے ورنہ سب جانتے ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں ان پر کوئی باضمیر انسان عمل نہیں کر سکتا.......... عمر نے کل 3 لفظ پڑھے اور اس میں سے بھی بیچ کا لفظ B کہا گئے :grins: :grins: :grins:

    ReplyDelete
  5. ضیا بھیا پاکستان میں ضمیر ہے کِس کا؟؟؟ جسکا ہے وہ چاہے پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ۔۔۔ کھپتا ہی رہے گا۔۔۔ اور جس جس کا نہیں ہے۔۔۔ اُنکے بھی پڑھے لکھے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ زرداری کی مثال آپکے سامنے ہے۔۔۔ عیش ہی کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. ایسی ہمت بڑھانے والی پوسٹ لکھنے کا بہت شکریہ

    اللہ آپ کے دوست کو کامیابی سے نوازے آمین

    ReplyDelete
  7. شاہ جی
    میں بھی آرہا ہوں واپس پھر
    مجھے بھی کوئی نوکری شوکری کا بندوبست کرکےدے

    ReplyDelete
  8. شاید اچھی تحریر ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  9. @بھوپال صاحب
    درست فرمایا اپ نے۔
    @یاسر
    جی میں نے اٹل فیصلے کا کہا تھا آپ اس کو الٹ فیصلہ سمجھ کر کیسے کیسے ارادے کر بیٹھَے
    @ضیاء
    اللہ اکبر
    اللہ تیری لیے آسانیاں پیدا کرے
    انشاءاللہ
    @ عین لام میم
    ہاہاہا ۔۔ جناب شاید اپ کو غلط فہمی ہوئی
    @عمر
    (:
    یار یہ پوسٹ لکھتے ہوئے ایک سے زیادہ بار تیرا خیال آیا اور وہ باتیں زہن میں جو ہمارے اور میڈم کے درمیان ہوئیں تھیں

    @عادل
    پوسٹ پہ آنے کا شکریہ۔۔
    @احمد عرفان
    بلاگ پر خوش آمدید۔۔
    پسندیدگی کا شکریہ
    @جعفر
    یار آ جا یار ، میری جگہ تو کام کرنا شروع کر دے
    میرا کیا ہے
    میں تیری جگہ کام کر لوں گا

    ReplyDelete
  10. hmmmmmmmmmm.bohat acha.bohat acha.sachi hay or bat mai wajan.wasay aik dost tu sudar gaya app ka........ ab dosra .......

    ReplyDelete