November 25, 2012

نیئک محترم

میں ہسپتال کے پرائیویٹ روم میں کرسی پہ پیٹھ کر ہیٹر کی جالی کے ڈنڈے گن رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور میں شمار بھول گیا ، فون کرنے والے کو دو تین گالیاں دینے کے بعد میں نے فون اٹھایا اور نہایت اخلاق سے اسلام علیکم کہا ، آگے سے جو آواز آئی تو گویا کان کے پردے پھٹنے لگے  فون کو کان سے دور کیا ، سوچا کہ اتنی اونچی آواز سے بولنا تھا تو فون کرنے کی کیا ضرورت تھی براہ راست  بھی آواز پہنچ ہی رہی تھی ، دوسری طرف کوئی انتہائی تھکی ہوئی پنجابی میں ہمکلام تھا ، سلام دعا کے بعد پتہ چلا کہ نیئک کی فون ہے اور نیئک فیصل آباد سے اسلام باد آیا ہوا ہے ،  تفصیلات   پتا لگیں کہ نیئک کو ایک چھوٹا بھی میسر ہے گویا جوڑی پوری ہے ، اور نیئک جی ایٹ مرکز انے پہ رضا مند ہو گیا ، میں ہسپتا ل کے کاموں مین مصروف ہو گیا ایک گھنٹے بعد دوبارہ کال ائی میں کال ریسیو کر کے فورآ موبائل سے چھ فٹ دور کھڑا ہو گیا  تب کانوں کو کچھ سکون ملا ، پتہ چلا کہ نیئک بمعہ اپنے چھوٹے کے وہاں پہنچ چکا ہے ، جب میں نیچے گیا تو نیئک نے گیٹ کے باہر سے مجھے دیکھا اور پھر ایک طرف کو چھپ گیا ، گویا نیئک شرمیلی طبیعت کا مالک تھا ، میں چل کر نئیک کے پاس گیا ، نیئک واقعی نیئک تھا ، نیئک کا منہ جو پہلے سے کھلا ہوا تھا مزید کھل گیا نیئک ہینکی بینکی شخصیت کا مالک تھا ، ساتھ ہی نیئک کا چھوٹا تھا جو  بنا ہیلمٹ اتارے میرے سامنے کھڑا ہو گیا ، سوچا  شاید یہ نیئک سے بھی زیادہ شرمیلا ہے  ،   ، بمشکل چھوٹے کا ہیلمٹ اتروایا ، تو واہ جناب ، نیئک تو نیئک ، نیئک کا چھوٹا سبحان اللہ،،

خیر نیئک اور چھوٹے کو لیکر میں ہسپتال کے کمرے میں آ گیا ، وہاں مجھ پہ آشکار ہوا کہ نیئک بے وجہ نیئک نہیں بنا ، نیئک کی معاملہ فہمی ، سمجھداری اور مریض کی پرسش حال اور تسلی دینے کی مثال اس رہتی دنیا میں نہیں مل سکے گی ، نیئک نے میرے مریض کے سامنے پہلے تو موت کی باتیں شروع کر دیں ، پھر ساتھ حوصلہ بھی دیا کہ فکر نہ کریں یہ دوا دارو موت کو ایک منٹ بھی دور نہیں کر سکتے ، پھر مریض کے مرض کی مماثلت مین ایک اور مریض کا حال جب سنانا شروع کیا تو میرے مریض کی انکھیں باہر کو آنا شروع ہو گئیں اور رنگ پیلا پڑنا شروع ہو گیا ، موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے میں نے گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ، لیکن سلام ہے نیئک کی عقل و دانش اور رازداری و پردہ داری پہ کہ جو ایک بات میں نے کسی کو نہیں بتائی تھی اسی کا زکر سب کے سامنے لیکر بیٹھ گیا ، مجبورآ مین نے استاز سے درخواست کی کہ باہر چل کر ہوٹل میں بیٹھتے ہیں
      ہم تینوں ہوٹل کی طرف چل پڑے ، راستے میں نیئک کا طرز گفتگو چبا چبا کر بولنا اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ہنسنا ہر راہ چلتے کو ایسا بھاتا کہ گردن کو ایک سو اسی پر ایسے گھماتے کہ  چاہے گردن ٹوٹے تو ٹوٹ جائے لیکن  دیدار سے محروم نہ رہ جائیں ، ، راستے میں چلتے چلتے نیئک اپنے کندھوں ، کمر اور گردن کو ہر تھوڑی دیر بعد ایسی حرکت دیتا کہ گویا مائیکل جیکسن کے گانے ڈینجرس  کا سٹیپ کر رہا ہے اور مجھے بار بار دیکھنا پڑتا کہ نیئک کے کان میں ہینڈز فری تو نہیں لگے ہوئے ، ، پوٹل مین پہنچ کر گفتگو شروع ہوئی ، نیئک سے مل کرایسا محسوس ہوا کہ اس سے پہلی بار مل رہا ہوں یا نہیں لیکن یہ احساس ضرور ہوا کہ آخری ملاقات ہے،  چھوٹا ایک حالات کے ستائے ہوئے چھوٹے کی طرح چپ ہی رہا ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایسی بات کرتا چھوٹی سی کہ پھر اس کو چپ کرانا مزید بھی ضروری ہو جاتا ، ، اس کی واحد بات جو مجھے پسند آئی وہ یہ تھی کہ وہ جاہل اور سنکی سے ملاقات کا متمنی تھا میں نے اسی وقت اسے دعا دی کہ وہ تجھے گود یعنی اپنی نئیکی میں لے لے۔نیئک کو ایک ایسی شخصیت کی کال آرہی تھی جو فیسبک و ٹویئٹر کا منٹو اور پطرس بخاری بننے کی کوشش کرتا رہتا یہ اور بات کہ سوچ اس نے جہازی پائی تھی۔ نیئک نے اس سے ملنے جانا تھا، صد شکر ہزار۔۔۔


  نیئک واقعی گہرے سانوے (سانولے رنگ سے معزرت کے ساتھ) رنگ کا آدمی تھا ، حالات نے شاید اس اسکو تپا تپا کر ایسا کر دیا تھا ۔

 

نیئک ہر موضوع پر بات کر سکتا تھا ، اور وہ بھی بغیر سانس لیے ، سانس کے بجائے اس کے منہ سے لعاب باہر آتا تھا ،وہ انتہائی کنفوزں سے بات کرتا تھا،، چاہے بات مرغ پالنے کی ہو یا بٹیر،  گھوڑوں کی مالش کرنی ہو یا کتوں کو نہلانا ہو ، نیئک جس کے متعلق بھی بات کرتا اس کی عزت تار تار کر دیتا ، پوری دنیا ہی اس کوپاگل دکھائی دیتی اور وہ واحد سیانا۔

 

 
تھوڑی ہی دیر میں اس کا چھوٹا سو گیا اور مجھے اس کی باتیں ایسے سننی پڑیں جیسے میں اس کا چھوٹا بن گیا ہوں جب وہ رخصت ہوا تو دل میں لڈو پھوتٹنے لگے ، واپسی میں دل میں یہی خیال آتا رہا کہ کوئی کالا کتا بھی اس کا چھوٹا نہ بنے۔



اور تو اور کسی نے مجھ پہ یہ احسان نہیں کیا ، میں نے خود نیئک سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور اب میں اپنے سوا کسی کو کوسنے بھی نہیں دے سکتا

 

پی ایس ۔۔۔۔

مجھے اسی روز ہی بلاگستان کی نیئر سلطانہ کا بھی فون ایا تھا ، وہ بھی ملنا چاہ رہا تھا اور اس ملاقات کے فورآ بعد یعنی اگلے دن ، اب سوال یہ کہ نیئر سلطانہ کون ، تو بات بات پہ نیئر سلطانہ کی طرح  رونے ڈالنا تو کوئی ان صاحب سے سیکھے  ۔
اب  نیئک سے ملاقات کے بعد نیئر سلطانہ سے ملنا  کا خیال
فیض نے کیا خوب کہا ہے

ہمت التجا نہیں باقی
ضبط کا حوصلہ نہیں باقی