May 10, 2011

کر لو گل

گھر میں کل کسی سے گفتگو ہو رہی  تھی تو انہوں نے زندگی  کو ایک  نعمت کہا  اور اس کے مثبت پہلوئوں پر بات شروع کر دی  انداز گفتگو قدرے مختلف لگا لیکن زہن سے خیال کو رد کر دیا  کہ یہ تو معمول کی گفتگو کا حصہ ہو گا ۔ لیکن جب یہی موضوع طوالت اختیار کر گیا تو دل میں سوچا کہ ایسی کوئی کتاب تو گھر میں آئی نہیں نئی جس میں فلسفہ حیات  کے بارے میں پڑھ کر یہ باتیں اخز کی گئیں ہوں پھر کیا وجہ ہے اس قصے کی۔  چار نا چار سنتا رہا جب بات اسی موضوع پر ب دستور جاری رہی اور باقاعدہ لیکچر کی شکل اختیار کر گئی تو سوچ میں پڑھ گیا کہ اخر معاملہ کیا ہے لیکن  پھر بھی سمجھنے سے قاصر۔ میں نے کافی دیر کے بعد آہستگی سے پوچھا کہ تمہید تو خوب باندھ دی اب تمثیل بھی بیان کر دی جائے لیکن بجائے  سوال کا جواب ملنے کے گفتگو کا رخ ایک ایک سو اسی ڈگری کا پلٹا کھا کر خودکشی پر جا پہنچا  اور پھر خود کشی کے انفرادی ، معاشرتی اور مزہبی  نقصانات کنوانے کے بعد مجھے سے پوچھا گیا کہ دو دن پہلے میں جو عجیب شکل کی رسی خرید کر لایا ہوں وہ کس مْقصد کے لیے لائی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی میری وہ پوسٹ "آج" جس میں چوبیس گھنٹے میں موت کا حوالہ دیا گیا  اپنے متعلق سے اس کے بارے میں دریافت کیا گیا تو سارا معاملہ واضح ہوا۔ تو میں نے ہنس کر کہا کہ غلطی سے خودکشی سے پہلے ہی  وہ پوسٹ بپبلش کر دی ورنہ بعد میں کرنی چاہیے تھی اور سیے وہ   وہ انگریزی فلموں کا آلہ قتل نما چیز میں رسی کودنے کی ایکسرسائز کے لیے لایا ہوں۔
تب ان کو احساس ہوا کہ وہ غلط ہو گئے کچھ بہرحال۔۔ کر لو گل۔۔
لیکن یہ کیا میرے گھر میں بلاگ کا ربط کیسے پتہ چلا ، میرے گھر والے فقط اتنا جانتے ہیں کہ میں اردو ٹائپ کرتا ہوں بلاگ کا تو کبھی بتایا ہی نہیں ۔ خاص طور پر ربط کا تو کسی کو نہیں پتا ۔ یعنی میری غیر موجودگی میں میرے لیپ ٹاپ کی بغیر وارنٹ تلاشی لی جاتی رہتی ہے اور وہاں سے ہاتھ لگا یہ ۔ اور یہ آخری بات تھی جو میں چاہتا تھا  کہ میرے گھر والوں کو میرے بلاگ کا پتہ چلے  کہ مجھے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا پڑے کہ گھر والے کیا کہیں گیں ہمارا ہونہار پتر آدھا نفسیاتی مریض ہے :ڈ: ڈ۔ نہ جی فیر ایسے بلاگ کا کیا ککھ فائدہ ہونا ہے ۔ کر لو گل۔۔
بات منہ سے نکلی تو کوٹھے پر تو پہنچانی ہی چاہیے اب   میں ان کمنٹ فروشوں سے بھی بڑا تنگ ہوں ۔ یاد رہے کمنٹ فروش کہہ رہا تبصرہ نگا ر نہیں۔ کمنٹ فروش وہ بلاگر ہیں جو اس مقصد کے لیے کمنٹ کرتے ہیں کہ وہ بھی بلاگر ہیں تو دوسرے کا حوصلہ بڑھا رہے ہوتے ہیں ، یا جوابی کمنٹ کی آس میں کمنٹ کرتے ہیں یا تعلق و دوستی کی بناء پر کمنٹ کرتے ہیں۔ تحریر ہر نہیں، جبکہ تبصرہ نگار وہ ہوتا ہے جو بلاگر نہ ہو صرف تحریر کو پڑھ کر کمنٹ کرے ، پورے بلاگستان میں ایک ہی تبصرہ نگار ہے وہ ہے انانی موس لیکن لوگوں کو اس کے تبصرے کچھ پسند ہی نہیں آتے ۔ لیکن بندہ اچھا ہے   وہ جو بھی ہے۔بس زرا  پیار سے پیش آنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ فقط۔۔۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی کمنٹ فروشوں کی تو مجھے سمجھ نی آتی کہ اپنے بلاگ پر میں نے چھتیس کے فونٹ میں بلا امتیاز لکھوایا ہوا ہے لیکن جو کمنٹ کرنے آتا ہے وہ امتیاز ، شاہ جی ، یا بلے جو سارے میرے نام رہے ہیں کبھی نہ کبھی ان سے  پہچانا جاتا رہا ہوں وہ استعمال کرتے رہتے ہیں بلکہ کچھ  تبصرے تو میں نے ڈیلیٹ ہی کر دیئے کہ ان میں وہ نک استعمال کیا گیا جو تین چار لوگوں کے علاوہ کوئی جانتا ہی نہیں  اور میرا بلاگ اتنے رومانوی نام کا متحمل نہیں ہو سکتا  تھا،  کر لو گل،
جس کے بلاگ پر کمنٹ کرتا ہوں وہ بھی بلا امتیاز کے نام سے لیکن جواب میں انہی ناموں سے مخاطب کیا جاتا ہے ، یعنی کمنٹَ بلا امتیاز کرتا ہے جواب شاہ جی وصول کرتا ہے، جناب اپنی اپنی قبر ہے دونوں کی ۔ کر لو گل
پہلے اس کا مورد الزام فیس بک کو ٹھہراتا تھا لیکن اب تو اس کو چھوڑے ہوئے بھی مدت ہی بیت گئی ہے۔۔ پر طرز بلاگراں ہے کہ بدلتا ہی نہیں ۔۔کر لو گل۔
بلاگ کا نام بدلنے کی کوشش کری جا سکتی ہے ویسے ۔ یا انگزیزی والے بلاگ کی طرح ایک گمنام بلاگ بنا لوں کہ فیر کہہ کر دکھائے کوئی مجھے شاہ جی یا بلا  یا امتیاز یا   تاز ۔ کر لو گل


May 4, 2011

فارسی کلام

فارسی کا شوق پیدا ہوئے تو کافی عرصہ ہو چکا ہے لیکن اپنی روایتی  سستی اور ازلی سہل پسندی کی وجہ سے ابھی تک فارسی کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہو سکی۔ البتہ کبھی کبھی گولڑہ شریف جانا ہوتا ہے ایک حلقہ احباب میں جن کو فارسی پہ کافی عبور حاصل ہے اور وہ رومی و حافظ جیسے   شعراء کو بکثرت پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ سو ایسی محفل کے ایک کونے میں خاموشی سے بیٹھ کر تشنگی کم کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ 
اس حلقے سے شناسا کرنے والا ایک دیرینہ دوست عاکف تھا کچھ دن پہلے اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے ایک کلام سنوایا اور سمجھایا بھی جو بہت زیادہ پسند آیا اسی لیے آپ حضرات کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں
اس کلام کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو زبانی یاد کرنا بہت مشکل ہے ، بہت کم لوگ اس کو یاد کر سکے ہیں  باوجود بہت کوشش کے۔ دو   زبان میں لکنت رکھنے والے افراد جن میں ایک ایک بوڑھا اور دوسرا نوجوان تھا ان کے انداز گفتگو  پہ ہے یہ کلام۔
فارسی سے لگائو رکھنے والوں کے لیے بلا شبہ ایک گوہر ہے۔ پیر نصیر الدین شاہ کا کلام ہے یہ۔