October 17, 2016

9 نومبر 2015

آماں کو اس بستر پہ لیٹے چھ سال ہو گئے تھے ، وہ سوچنے  سمجھنے ، پہچاننے کی صلاحیت بہت عرصہ پہلے کھو چکی  تھیں، وہ ایک بستر پہ پڑی رہیں ، کوئی زی شعور انسان اتنا عرصہ بستر پہ نہیں رہ سکتا،  یہ اللہ کی حکمت تھی کہ زماں و مکاں سے لا علم کر دیا گیا انکو ، کبھی بات بھی کرتیں تو کسی اور دور کی ، ان کے زہن میں بھی وہی تین چار جگہیں جہاں انہوں نے بیشتر زندگی گزاری تھی گھومتی رہتی ، اماں کو کھانا کھلانا بہت مشکل تھا ، کبھی تو کھا لیتیں ،اور اگر ضد پہ اڑ جاتیں تو منہ نہ کھولتی ، ان کا کمرہ گھر کے کونے میں تھا جس کو باہر سے بھی رستہ جاتا تھا اور اندھر  ٹی وی لائونج سے بھی ، لیکن ٹی وی لائونج والا دروازہ اکثر بند رہتا تھا ۔ آماں کو دیکھ کر دل بڑا دکھتا تھا کوشش کے با وجود بھی ان کے لیے کچھ کر نہیں پاتا تھا ، صفائی کا بہت مسئلہ تھا ، نرس آتی تو تھی لیکن  اماں کو بلکل شعور نہ تھا ، سو لگاتار صفائی رکھنا بلکل ممکن نہ تھا ،  پیپمر وغیرہ اتار پھینکتیں بدبو بھی رہنے لگی ان کے کمرے میں
۔ یہ گھر کا سب سے مشکل دور تھا ، ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی ، ایسے وقت میں اپنی اولاد کے علاوہ اور اکثر تو اپنی اولاد بھی ساتھ نہیں دے پاتی۔ سب کو عادت سی ہو گئی اور شاید ان کو بھی ، وہ نہ شکوہ ،  کوئی فرمائش ، نہ ہی کبھی درد یا تکلیف کی شکایت ۔ اور نہ کبھی کچھ مانگتیں۔ ان کے ساتھ رہ کر ہوں لگنے لگا کہ شاید انکو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں ، ہمیں عادت سی ہو گئی ان کے ایسے ہی رہنے کی۔ ان کی یہ حالت ہمیں نارمل لگناے لگی ، شاید اس لیے بھی کہ بیمار ہونے کے بعد ہی ان کواس گھر لایا گیا تھا ، اور اس گھر نے انکو قریب سے اسی حالت میں دیکھا تھا۔ پر سب اپنی جگہ بے بس  بھی تھے ، کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے،
 ۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے ہونے یا نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا ، وہ جب تک ہیں تو لیٹی ہیں ، جب چلی جائیں گی تو ان کی تکلیف ہی کم ہو گی ، گھر پہ کچھ فرق نہ پڑے گا۔ بس ایک تکلیف جو انکو دیکھ کر ہوتی تھی وہ کم ہو جائے گی ، ان کی زمہ داری کم ہو جائے گی ۔ اماں کو کبھی کوئی ملنے نہ آیا تھا ان کے رشتہ داروں میں سے جن کے وہ ساری عمر صدقے واری جاتی رہیں ،جن پہ اپنا سب کچھ لٹاتی رہیں، سب مصروف ہو گئے اپنے کاموں میں ، اور اماں نے شاید رستہ دیکھنا بھی چھوڑ دیا تھا خود کو اس دنیا سے لاتعلق کر کے۔ بلکہ وہ تو اس  اس گھر والوں کا بھی نہ انتظار کرتیں، انہوں نے اپنی کوئی اور ہی دنیا بسائی ہوئی تھی جس میں کچھ بچے اور عورتیں تھیں جن سے وہ کبھی کبھی باتیں کرتیں جو پاس بیٹھا ہوتا اس کو بھی انہی کے متعلق بتاتی رہتی ، یا کوئی پرانی بات جو ان کے زہن میں آجاتی اس کا پوچھتی بار بار۔
پھر  اماں کی طبیعت بہت بگڑ گئی، وہ چلانے لگیں، مطلب انکو تکلیف زیادہ ہو گئی تھی ورنہ  تو پچھلے سالوں میں شاید درد سے بھی رشتہ توڑ چکی تھیں کہ کبھی  ایسا نہ کیا تھا، ڈآکٹر کو دکھایا تو اسنے وہی دوائیاں  جاری رکھنے کو کہا۔ عالم نزع تھا ان پہ ، گھر میں سب کو اندازہ  ہو چکا تھا ، رات بمشکل گزری صبح سات بجے کے قریب اماں  اس دنیا سے چلی گئیں ، ایسے مسکینی  میں گئیں کہ دل ازردہ ہو گیا ، ایک بوجھ  اترا لیکن دل بوجھل ہو گیا ،
ایک مہینہ تو  ماتم میں ہی گزرا ، مہمان آتے رہے ، مصروفیت رہی ، جمعرات کو  لوگ زیادہ بلائے جاتے، لیکن پھر حالات بدلنے شروع ہو گئے ، اس کے بعد پائوں سیدھے نہیں ہوئے ، وقت نے اپنے دھارے پہ کر لیے پورے گھر کو ، جس طرف موڑتا ہم پڑتے جاتے ، سب کچھ اس تیزی سے ہوتا رہا کہ سمجھ سے بالاتر تھا ، کچھ بیماریاں ، کچھ چیزیں جیسے چھپی بیٹھیں تھیں یا اماں ان کو روکے بیٹھی تھیں ، ا ن کے جانے کے انتظار میں تھیں ، جیسے چھ سال کے سارے واقعات اب چھ مہینے میں ہونا تھے ، ہمیں کبھی نہیں پتہ ہوتا کہ کون کیا ہے ، اور اس سے ہمارے لیے کیا کیا ہے ، یہ بات میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ  اماں نے نہ جانے کیا کیا روک رکھا ہے جو وہ یوں ہیں، تب لگتا تھا ہماری بے بسی ساتھ لے جائیں گی اور اس کرب سے ہمیں چھٹکارہ دلا دیں گی ، لیکن اس کا اندازہ لگانا تب بہت مشکل تھا ، سمجھ نہیں اتی تھی ، ہمیشہ یہی لگتا کہ کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا ، آسانی ہو گی مزید ان کے لیے بھی اور  ہمارے لیے بھی ، لیکن وہ گئیں تو گویا بند ٹوٹ گیا ، ساری آزمائشیں  سیلاب کی طرح بہتی سر پہ آن پہنچیں ۔۔ ان کو روکنے والا ، جس کی برکت سے وہ رکی تھیں وہ جا چکا تھا، بظاہر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں تھیں ، تو بھی وہ بہت کچھ کر رہی تھیں ،
ہم یہ بات کبھی بھی نہیں سمجھ سکتے کون ہمارے زندگی میں کیا ہے اور اس کے ہونے سے کیا کیا ہے ، پتہ تب چلتا ہے جب وہ اپنا سب کچھ سمیٹ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور ہم خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں