October 21, 2012

گاڑی برائے فروخت

اندر باہر سے جینوئن ہے جی گاڑی ـ اپنے رنگ اور کمپنی کنڈیشن میں ہے ـاور پرانی گاڑی ہے سٹیل باڈی ـ اجکل کی کاریں تو پیپر باڈی ہیں لگی اور رول ہو گئی ـ پیس گاڑی ہے ـ سکریچ لیس ہے بلکل صاف ـ چابی لیں اور ڈرائیو کریں ـ روپے کا کام نہیں ہے گاڑی میں ـ رکھنے والی گاڑی تو ہے ہی یہی نئی کاریں صرف ششکے ہیں ـ پسند اپنی اپنی ہوتی ہے مگر مجھے بہت پسند ہے جی گاڑی اور آپکو بھی ضرور پسند آئے گی ـ بس اپنے دیکھتے ساتھ پسند کر لینی ہے ـ مٹھائی کا ڈبہ اور بیانہ تیار رکھیں ـ اور یہ قیمت یقین کریں صرف آپکے لیے ہے ورنہ اس سے  بیس ہزار اوپر مانگ رہا تھا اپنے بچوں کی طرح رکھا ہے مالک نے اس گاڑی کوـ

یہ وہ نقشہ تھا جو ڈیلر نے اٹھاسی کرولا کا کھینچا تھا ـ پرانی گاڑیوں میں اگر چہ زیادہ پرانی ہو چکی ہے مگر پھر بھی اچھی گاڑی سمجھی جاتی ہے خاص طور پر پہاڑی راستے اور کچے کے لیے ـ سو ڈیلر کی بتائی ہوئی گاڑی دیکھنے پہنچ گیا بمع چار دوستوں کے ساتھ جو جہاں بھی گئے چھت اور دروازہ انگلیوں کے ساتھ بجا کر واپس آ گئے پتہ انکو ککھ کا نہیں لگتاـ پہلی نظر جو گاڑی پہ پڑی تو خیال آیا کہ ہر کسی کو میں ہی ملا ہوں بنانے کے لیے ، پوری دنیا کو چونا لگانے کی مشق کرنے کے لیے میں ہی ہاتھ آیا ہوں ـ یا میرے ماتھے پہ بدھو لکھا ہے یا میں شکل سے وہ لگتا ہوں خیر نظر ڈیلر پہ ڈالی تو وہ روایتی ڈھیٹ پنے سے مسکرا دیا تھا گاڑی کی چھت سے رنگ اڑا ہوا تھا اور درازے کی ہتھیاں بھی رنگ کھو چکی تھی ـ پوچھنے پہ بتایا جی اپنے رنگ میں ہے ـ تیل لینے جائے ایسا اپنا رنگـ چاروں دروازوں پہ چابی کی سکریچیں ہوں گویا ـ  ڈیلر بولا او یہ لیکاں لُوکاں 
کل  ہی کوئی بچہ مار گیا ہے آجکل کے بچے بھی نا بس  ـ بادل نخواستہ باقی گاڑی بھی دیکھنے لگا سلف مارا تو گاڑی کھانس کر خاموش ـ آواز آئی کہ لوکا جیا چھنڈا مارو جی ـ دل چاہا کہ ڈیلر کو آگے جونت کر چھنڈا مروائوں ـ بمشکل سٹارٹ ہوئی گاڑی تو واقعی کمپنی کنڈیشن میں تھی کہ نہ اس کے بعد کوئی چیز تبدیل ہوئی تھی ابھی تک نہ ٹھیک سے ریپیئر ـ ہر جگہ مکینک نے جگاڑ لگا رکھا تھا اور چلتے وقت ہر چگاڑ دھاڑ رہا تھا ـ

ڈیلر بھانپ گیا بولا جی بس ہلکی پھلکی ٹک پرچون لگے گی میرا دوست بولا سر جی یہ تو آپ تھوک پرچون لگا رہے ہیں ڈیلر سمجھ گیا کہ سائنس فیل ہو گئی ہےـ جی وہ چھوٹے نے دیکھی تو اس کو ابھی اتنی سمجھ نہیں میں نے میں نے کہآ کہ بڑے کو بھیجنا تھا ـ وہ ہنس کر بولا کہ میں مصروف تھا میں نے کہا کہ میں تمھاری نہیں بڑے کی بات کر رہا ہوں ـ اب وہ بات آگے پیچھے کرنے لگاـ چھوڑیں سر آپکو ایک اور گھر کی گاڑی دکھاتا ہوں اپنی نظر کی گاڑی ہے وہ تو ـ دوست بولا نی جی ہمیں تو یہی گاڑی پسند ہےـ ڈیلر زرا پریشان سا ہو گیاـ ہم نے کہا جو بھی ہو گاڑی تو مظبوط ہے پرانی گاڑی میں اتنا ہتھ پلا تو کرنا پڑتا ہے ـ اس نے پوچھا واقعی؟؟ ہماری تسلی کرانے پہ پھر سے اسکی کہانیاں سٹارٹ ہو گئیں ہم نے کہا بیانہ کر لیں ـ پھر ہم نے جو ریٹ لگایا تو وہ غصے میں آ گیا بولا یہ کونسا ریٹ لگا رہے ہیں کہا کہ اپنے جو قیمت بتائی تھی اس گاڑی کی تھی جو منہ سے بتائی تھی اور ہم نے اس گاڑی کی قیمت لگائی ہے جو سامنے ہے ـ اور یہ بھی بیس ہزار اوپر لگائے ہیں صرف آپکی وجہ سےـ پھر منگوائیں مٹھائی وہ دانت پیس کر رہ گیا بولا جائیں آپ ـ یہ کہہ کر تھوڑا چلے کہ دوست نےپہچھے مڑ کر دیکھا اور پوچھا ـ اور مالک نے اپنی بچی بھی اسی حالت میں رکھی ہوئی ہے کیا ۔۔۔۔۔ قہقے

October 9, 2012

میری کانی محبت

 شکور کی نگاہیں  گُلی پر مرکوز تھیں ،  سڑک کے  بیچ دو اینٹوں کے درمیاں گُلی  نہایت توازن کے ساتھ رکھی تھی اور شکور کے ہآتھوں میں ترشا ہوا ڈنڈا اور شکور  کی آنکھوں میں خون  اترا تھا ، پورا محلہ جانتا تھا کہ شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئی گُلی کا راستہ آج تک کوئی مائی کا لال نہ روک سکا ، جب شکور گلی میں ڈنڈا اٹھا کر آتا تو مائیں اپنے بچوں کو مرغی کہ ڈربے میں بند کر دیتیں کہ کہیں شکور کے ڈنڈے سے نکلی ہوئے گلی  سے خوف کھا  کر ان کے لال کی شلوار پیلی اور گیلی نہ ہو جائے
 شکور  کی دہشت  اس قدر تھی کہ جب  اسکا ڈنڈا  گُلی پہ بجتا تو اس کی آواز سے ہی محلے کے بلب فیوز  ہو جاتے  تھے، کھیل کے اصولوں کے مطابق کسی نے گلی سے بیس فٹ کے فاصلے پہ ٹھہرنا تھا سر پر کفن باندھ کر میں خود شکور کے سامنے آن کھڑا ہوا ۔۔ پیٹھ پیچھے چوٹ کھانا مرد کی شان نہیں سو پیٹھ شکور کی طرف کر کے تھوڑا سکڑ کر پیچھے ہاتھ رکھ لیے کہ گُلی پیٹھ پر نہ لگ جائے
 ،
   شکور کی نگاہیں گُلی پر مرکوز اور میری شکور پر ، کہ یکدم میری  نگاہ اٹھی اور ایسی اٹھی کہ اٹھی ہی اٹھی پھر پانج دن تک اپنی جگہ پر نہیں آ کر بیٹھ نہیں سکی ،کن اکھیوں سے شکور کی طرف دیکھا تو  وہ شکور کے پیچھے  سے چلتے ہوئے آ رہی تھی ، اس کی چال میں ٹڈی کا اچھال تھا ، ، اس کا رنگ ایسا ڈارک گوبری برائون کہ کرس  گیل  بھی اسکے سامنے  دھندلا جائے  ، ٹانگے جتنا قد  ، خوفصورت چہرہ ، بھیسن کی دم نما چٹیا، اس نے سابقہ سفید اور موجود  کالے رنک کے دوپٹے کو جو لہرایا تو اس کی گٹرانہ  خوشبو سے باد صبا  مدہوش اور پورا محلہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچا ، اس کی بھینگی انکھوں میں جمی پالک کی  مستانگی ،  اس کے بل کھاتی کمر  کہ جیسے نچلا دھڑ اوپر والے دھڑ سے گویا کھسک گیا ہو ، ہو بہ ہو نانا کے ٹی وی کی طرح  جو آخری آیام میں اپنی تصویر ٹیڑھی کر بیٹھتا تھا اور جوتے کھانے پہ ہی سدھی ہوتی تھی تصویر،  اس کے چاکلیٹ کیچڑی پائوں ،   وہ جو مسکرائے تو پیٹ میں مروڑ پڑ جائے ،  اور اس پہ اسکی بے ڈھنگی جوانی ۔ اس کو دیکھ کر میرے سارے حور پری کے تصور دھرے کے دھرے رہ گئے
اتنے میں آواز آئی بچ اوئے اس سے پہلے کہ میں کوئی حرکت کرتا گُلی سنسناتی ہوئی آئی اور سینے پہ کھاتے کھاتے میں ناک  کی ہڈی تڑوا بیٹھا انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا لیکن زہن پہ ابھی تک وہ حسینہ چھائی ہوئی تھی میری بے ہوشی کی خبر سن کر محلے والوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں ، شکور دہشت گرد سے ہیرو بن گیا ،   ہویش اتے ہی میں نے پہلا سوال اس کا کیا لیکن وہ جانے کس دیس سے آئی تھی اور کس دیس چلی گئی کسی کو خبر نی تھی کہ کہاں گئی ۔۔ 
   میں اس کے پیچھے گلیوں کی خاک چھانتا رہا ، کئی بھینسوں کے پیچھے اس کا گماں کر کے گیا لیکن بے سود ، ہر کھمبے کے نیچے ، ہر دوسرے چوک میں کسی نہ کسی سے پیار ہوا لیکن دل کو چین نہ آیا ، اس کی یاد میں شکور کے سامنے کھڑے ہو کر وہاں وہاں گُلیاں کھائیں کہ زبان پہ نہیں لا سکتا ، لیکن میری محبت نہیں ملی دوبارہ ، زمیں پہ دل نہ لگا تو مریخ پہ چلا گیا ، اڑن طشتریوں کے ٹائرں کے پنکچر لگاتا رہا ، خلائی مخلوق  نسوار بنا بنا کے دیتا، لیکن سب بے سود ، یادیں کہیں بھی پیچھا نی چھوڑتیں،ایک  کھسک رہ جاتی ہے زہن میں ، میں آج بھی جب گٹر کا پانی کسی گلی میں بہتا دیکھتا ہوں تو بہت یاد کرتا ہوں اس کو ۔۔ اپنے دل پہ اختیار ہی نہیں رہ رہتا  مجبورآ الٹی کرنی پڑ جاتی ہے،