August 5, 2012

میرے متعلق

چونکہ فدوی  بچپن سے ہی کبھی مصائب الہامی  سے 'بےفکرمند'  نہیں ہوا اس لیے فدوی  'بےغم زدہ طبیعت' کا مالک بن گیا  ۔ اور ایسی مخمصے کی ہنس دکھ کیفیت پائی کہ کوئی جو خود ہنس رہا ہو مجھے دیکھے تو روتا ہوا سمجھے اور اگر خود  رو رہا   ہو تو مجھے  ہنستا ہوا سمجھے۔
اور یہ میرا دل  ،بلکہ کتے کی دم ، اس دل میں خواہشوں کے غول در غول  ہول اٹھتے  ہیں اس قدر کہ اگر عمرہ عیار کی  
زنبیل ، نیٹو سپلائی کے کنٹینرز اور مارکیٹ میں  سب سے بڑے والی ہارڈ ڈسک  میں بھی ان کو کوزوانا چاہوں تو جگہ کم پڑ جائے اور ہر خواہش آیسی مہنگی کہ  کسی ایک کو پورا کرنے لگو تو  فرعون کا خزانہ اور صدر صاحب کا بینک  اکائونٹ کم پڑ جائے۔ خیر کچھ ایسی بھی خواہشیں جو کہ نہ تو  بعید از قیاس ،نہ ہی   بعید ازرضامندی متعلقہ پارٹی اور نہ ہی فاصلے میں  بعید از دو تین فرلانگ  تھیں اور انکا شمار از من پسند خواہشات_ناجائزات تھا ۔لیکن ایک ازلی تھکاوٹ جو ہمیشہ سے میری گرویدہ رہی ہے ، اس قدر کہ صفحہ ہستی کو ایسا صفحہ سستی بنا  رکھا ہے جس میں ایک بھی سطر چستی نہیں۔ کوچہ جاناں پتہ نہیں کون جاتا ہو گا ۔ فرہاد کوئی زہنی مریض ہی ہو گا ورنہ ہم سے تو اس معاملے میں ککھ پن کر دو نہیں ہوئے کبھی ، سامنے والی کے لیے جتنی دیر میں ہم سیڑھیاں  چڑھ کر چھت تک جاتے ، اتنی دیر میں محلے کے کچھ جوانمرد اپنے خطوط بھی پہنچا چکے ہوتے  اور اگلی ملاقات کا متن اور جائے وقوعہ بھی کا بھی تعین کر چکے ہوتے۔ محلے کے میاں فصیحتوں نے بڑی نصیحتیں کیں کہ میاں چھوٹے موٹے کام سے کبھی کوئی نہیں مرا ، بھلے سے نہ بھی مرا ہو مگر رسک لینا کہاں کی دانشمندی ہے۔
پھر سفر چاہے انگریزی والا ہو یا اردو والا ہمارا واحد مشغلہ رہا ہے۔ سنا تھا کہ  سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے ، برسا ہا برس کے بعد ہمیں سفر سے پی ٹی اور کمر درد  ہی ملا ۔ البتہ پچھلے دنوں ظفر کی وسیلہ کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہوئے پکڑے جانے کی خبر اخبار میں پڑھی تو حقیقت کا پتہ لگا۔ سفر تو انتا کر چکا کہ کبھی سوچتا ہوں کہ زندگی سے سفر نکال دوں تو مجھ میں سے پیچھے ڈھائی سال کا  بغیر نیکر کے منہ میں چوسنی لیے بچہ ہی بچے گا۔




جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔