July 12, 2012

خواہش


جب بلاگستاں قدم رنجا فرمائے تو نیواں نیواں ہو کہ آیا  وجہ اول تو یہ کہ ہر نئی جگہ جاتے بچپن سے ہی ہاتھ پائوں پھول   جاتے ، اور پھر دل میں کچھ اندیشے بھی تھےاول تو میری املا  ایسی کہ  جیسے عربی انسٹآل کر کے کسی نے اردو لکھنے کی کوشش کی ہو ۔املا میں 'ز' اور 'ض' میں عمر بھر کنفیوز رہا ،  یہی  کچھ 'س' اور 'ص' کا رہا ،
 " یہ راض آشکاروں کہ میری پہلی  صہیلی سائمہ بھی اصی وجہ صے ناراز ہوئی مجھ صے ۔ "
۔ چرواہے کو "چار وا ہا" اور  لکھنا تو کچھ بھی نہیں صاحب ، ایک روز استاد محترم نے اپنی جوتی کے ہاتھ مجھے بلانے کا پیغام بھجوایا ، استاد محترم بہت شفیق تھے کبھی خود نہ آتے جب بھی مجھے بلانا ہوتا اپنی جوتی اتار کر میری طرف اچھال دیتے اور پھر کہتے کہ یہ لے کر میرے پاس آ ، ایک بار جب  میں ان کے سامنے پہنچا تو میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے ، میرا دل موم ہو گیا ان کی بیٹی کا خیال آتے ہی ، میں نے کہا سر میں نے آپکو معاف کیا ، وہ بولے احمق تیرا کیا علاج ہے تو نے " ستارہ عمتیاز " بھی عین سے لکھا ہے ، ، میں نے کہا شریف خاندان کا چشم و چراغ ہو  ، محلے کی لڑکی ستارہ کے ساتھ اپنا نام لکھ کر اسکا  کردار  داغدار نہیں کر سکتا یہ اور بات کہ محلے میں زبانی کلامی ہر کسی کے سامنے اس کے نام کے ساتھ اپنا نام ہی لگاتا کرتا تھا ، لیکن دستاویزی ثبوت رکھنے کی غلطی کبھی نہیں کر سکتا تھا یہ اور بات کہ صرف زبانی پہ بھی کافی کچھ ہو گیا تھا میرا ساتھ ۔ 

زمانہ لاعلمی میں اقوام کی جمع اقوامیں ، زہن کی حمع ازھان   اور عوام کی جمع اعوائم اور تراکیب و محاورے 'اونچی   'دکان  کا چھوٹا دکان دار'  اور 'ہينگ لگے نہ پھٹکری  اور نائی کی شیو بھی خوب آئے'  مکمل کیے تو استاد محترم  نے مجھے بابائے اردو بےادب' کا خطاب دے دیا ، اور مجھے بڑے پیار سے بولے کہ تو انتائی' غیر متوقع اردو بولتا ہے ، اتنی میٹھی عزت جس کی سمجھ مجھے ابھی کچھ  دن پہلے یعنی دس سال بعد سمجھ آئی میری دور اندیشی کی عمدہ مثال ہے ۔ پھر پھٹکری آج تک سوائے نائی کے کسی کے پاس استعمال ہوتے نہ   دیکھی نہ سنی ، اور پھر محاورے بنانے والے تو  جہاں محاورہ  منہ لگے وہیں لکھ لیتے ہیں کہ دوبارہ ویسا نزول    ممکن نہیں ہوتا  تو ان میں خالی جگہ پر کرنے کے کیا معنی اور پھر خالی جگہ دیکھ    کر جو الفاظ میرے زہن میں  وقوع زیر ہوتے ہیں وہ استعمال کردوں اگر تو ایک بار تو امتحانی پرچہ بھی پھڑ پھڑا اٹھتا ۔ 


 ان حالات میں جب بلاگستان میں قدم رکھا تو زہن میں یہی  خیال تھا کہ یہاں  استاتزہ ملیں گے تو میری  ، بھی اردو سنور جائے گی یہاں  اخلاق ،صداقت اور حق جیسے بلاگر ہوں گے جو میری روحانی تربیت کریں گے ، شگفتہ اور شائستہ ایسے کہ میں بولوں گا تو زبان سے شیرینی  ٹپکے گی اور سامنے مکھیوں کا ڈھیر لگ جائے گا ،   بلاگر کوئی ایسا استاد ملے گا جو ابتدا سے اردو کے اسرار و رموز مجھ پہ آشکار کرے گا ، کوئی ایسا عالم دین  صفت  ہو گا کہ میریے اندر کی دنیا روشن کر دے گا، کوئی دانا مجھے حکایات سعدی  کے سبق  آموز قصے سنائے گا ،  کوئی پطرس جیسا لطیف مزاح کی روح میری طبیعت کا خاصہ بنا دے گا۔ عرض میں ایک ششماہی پروگرام  میں ایسا ہو جائوں گا، محلے والے میری  مثالیں دیا کریں گی ، عورتیں دعائوں میں  اپنے بیٹوں کو مجھ جیسا اور لڑکیاں اپنے خوابوں میں مجھ جیسا چاہا    کریں 


لیکن صاحب ایک سو گیارہ خواب آنکھوں میں سجا کر جب یہاں پہنچا  تو یہاں ادب آداب اور حسن سلوک    کی مثالیں تو ایک طرف ، ملے ہی ایسے کہ جن کا تعارف ہی بد تمیز تھا اور جن کا اوڑھنا بچھونا اور منہ کھولنا ہی بد تمیزی تھا ، سستے مزاق سے جان چھڑانا چاہتا تھا تو یہاں ملے ،ایسے  ڈفرانہ ڈرامے  کہ  ہر بات  چھ معنوی ہونے لگی اور خواہش  اور جو مولبی ملا تو ایسا کہ اس کے انگریزی اے بی سی اور اس کے ایبریویشنز ہی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے ، حکایات رومی و سعدی اور سعدی کی بکری کا زکر تو کیا ہوتا ، لالے کی بکری کے تزکرے ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتے ، اور اردو میری کیا خاک ٹھیک ہوتی کہ  جعفری    قاعدہ پڑھ کر جو تھوڑی بہت الف بے آتی تھی وہ بھی جاتی رہی۔ طبعت میں لطافت کیا آتی کہ یہاں تو ہر وقت چخ چخ چخ ۔ پہلے تو  زرا دھچکا لگا پھر خوشی سے پھولا نہ سمایا  اور  سب اپنا اپنا پایا تو نعرہ لگا موج ملنگاں دی۔۔