July 18, 2011

بلا فلسفوف- کم بیک پوسٹ

بہت دن ہو گئے دماغ میں فلسفیاتی موجوں کی دھما چوکڑی مچتے سو آج سوچا کہ ان کو آج کسی طرح سر سے اتار پھینکوں۔ مگر کچھ سمجھ نی آ رہی کہ کروں کیا ۔ پہلے سوچا کہ نائی کے پاس جا کر سر پر استرا پھرا لوں کہ بالوں کے  وزن کی وجہ سے تو کہیں یہ آتش فشانی خیالات نہیں آتے رہتے لیکن فرق اس سے بھی نہیں پڑنا یہ تو کمپنی فالٹ لگتا ہے مجھے اور ویسے بھی مردے کے بال کترنے سے مردے کا تابوت کونسا ہلکا ہو جانا ہے۔ الٹا محلے کے بچوں کو ایک نئی تفریح مل جائے گی۔ ویسے کسی ست بھرائی کو بھی  چھیڑا جا سکتا ہے  لیکن اس میں فلسفے کے ساتھ ساتھ سر جانے کا بھی اندیشہ ہے ۔ ہاں یہ کہ میری جاگنگ آج کل زوروں پر ہے،ساون ہے اور فضا میں نمی بہت ہے سو بھاگتے ہوئے وہ حالت ہو جاتی ہے کہ ابھی گرا کہ ابھی گرا مگر ہمیشہ سے سپورٹس گرائونڈ میں جا کر ایک پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہوں جس کی آج تک سمجھ نی لگی ، عام حالات میں تو یکسر مختلف ہوتا ہوں، مگر اتنا پسینہ بہنے کے باوجود بھی دماغ کی شریانوں سے فلسوف نہیں بہتا ،اوہ کیا یاد آ گیا ۔ پچھلے تین مہینے سے جاگنگ کر رہا ہوں ہفتے میں دو یا تین بار  ہی جا پاتا ہوں۔ پچھلے دنوںوزن کرایا تو بہتر-72 کلو تھا   بڑا خوش ہوا کہ کافی کم ہو گیا ہے ، کل  ایک اور چاچے کی مشین پر ٹھہرا تو وہ بولا چھتر 76 ہے بس  سارا جوش جاتا رہا، حالانکہ تین ماہ سے پیپسی تک نی پی کسی کو پیتا دیکھتا ہوں قہ آنے لگتی ہے، کھانا کھاتے وقت ہر نوالہ سے پہلے سوچتا ہوں کہ اس سے کتنا وزن بڑھ جانا ہے ، اور پھر جب اپنی جاگنگ کی حالت یاد آتی تو نوالہ حلق سے نیچے ہی نہیں اترتا - ویسے جوش کو قائم رکھنے کے لیے مشورہ ہے کہ غلط مشین پر مستقل مزاجی سے وزن کرایا کریں اور مشین روز روز مت بدلیں  ۔
جاگنگ سے کچھ جملے پیش ہیں آپکی خدمت میں جو مجھے دوستوں بلخصوص اویس سے سننے پڑتے ہیں جب میں ان کو جاگنگ کی کارگزاری سناتا ہوں۔

.........
"تو ہمیشہ ذندگی کی آخری دوڑ سمجھ کر کیوں بھاگتا ہے"
"ترس ہی کھا لیا کر تھوڑا اپنی حالت پر "
"تو کسی دن ٹریک کے آس پاس کسی  شجرکاری مہم  کے کھدے میں پڑا ملے گا"
"ایدھی کی ایمبولینس کو فون کر کے جایا کر بھاگنے"
" چوتھا چکر تو تیرے تابوت کو لیکر تیرا بھائی لگوائے گا تیری آخری وصیت کی تکمیل  کے طور پر "
دو مزید جو بتاتے شرم آ رہی ہے:(
" اوئے تو کتے کی طرح  کیوں بھاگتا ہے"
"تو کتے کی موت مرے گا بھاگتے ہوئے کسی دن"


July 15, 2011

یقین

کسی شہر میں بارش نہ ہونے کے باعث بہت خشک سالی و قحط تھا  ،شدید گرمی بھوک  اور پیاس سے اموات ہونے لگیں شہر کے  لوگوں نے شہر سے باہر ایک کھلے میدان میں جمع ہونے کا  فیصلہ کیا  کہ جہاں مشترکہ عبادت کی جائے تاکہ خدا آن پر رحم کرے اور آسمان سے بارش برسائے، جس سے قحط سالی دور کرے اور شدید گرمی کا خاتمہ ہو۔شہر کا ہر فرد  امیرو  غریب ،مزہبی اور سیاسی رہنما  مقررہ وقت پر متعین شدہ جگہ کی طرف روانہ ہو گیا ، وہ خدا سے بارش مانگنے جا رہے تھے۔ شدید گرمی کی وجہ سے سبھی  ہلکا بھلکا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہن کر میدان کی طرف روانہ تھے جبکہ ایک نوجوان بارش کامکمل بندوبست کیئے ، برساتی  اوڑھے ، ہاتھ میں چھتری لیے ان کے ساتھ رواں تھا

July 11, 2011

سمت

وہ ترچھے زاویئے پر تعمیر کیے گئے ایک چھوٹے سے  کمرے میں رہائش پزیر تھا یہ کمرہ مستطیل یا مربع کے بجائے ایک پیرالالوگرام کی شکل آختیار کیئے ہوئے تھا۔کمرے کا کوئی بیرونی دروازہ نہ ہونے کے باعث کمرے میں رہتے ہوئے باہر کا نظآرہ کرنے کا واحد زریعہ ایک چھ بٹا چار کی کھڑکی تھی۔ وہ روزانہ  کمرے کی کھڑکی میں آ کر مشرق کی طرف سمت کر کے باہر کا نظارہ کرتا ، لیکن کمرے کے ترچھے زاویئے پر ہونے کی بناء پر وہ کمرے کے لحاظ سے سیدھا کھڑا ہوتا تو اس کو مشرق اور باہر کی دنیا ایک رخ پر نظر آتا  اور اگر وہ مشرق کی طرف سیدھا ٹھہرتا  تو اس کو آپنا وجود کمرے کے لحاظ سے ٹیڑھا نظر آتا۔وہ بیک وقت اپنی سمت دونوں لحاظ سے سیدھی کرنےکی کوشش کرتا رہا جو ممکن نہ تھا   ، وہ  بے سمعتی کا شکار ہو گیا  

July 6, 2011

جون کلوزنگ پارٹ-۱

اکتیس مئی آخری دن تھا  ، میز پر پڑی سبھی کمپنیوں کی بیلنس شیٹ میں آخری رقم صفر تھی ۔ ان میں ایسی کمپنیاں  "اے" گروپ بھی تھی جس کا بزنس اربوں میں ہوا  اور "وائے" گروپ بھی جس نے بمشکل چند لاکھ کا ہی کاروبار کیا مگر قدر مشترک دونوں کا اختتامی بیلنس صفر تھا ، یہی حال ساری  کمپینوں کی بیلنس شیٹس کا تھا۔اگرچہ ہر ایک کی ٹرانزیکشن ہسٹری بہت مخلتف تھی اور کسی نے کروڑوں کی منتقلی یومیہ ہوئی تو کوئی کئی کئی روز کوئی ٹرانزیکشن ہی نہیں کر پائی  مگر ڈیبٹ اور کریڈٹ دونوں کا متوازن انداز میں چلتا رہا۔ بڑی کمپنی کی کریڈٹ کی حد اگر بہت زیادہ تھی تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے بہت  زیادہ رہا   جبکہ چھوٹی کمپنیوں کا کریڈٹ کم نکلا  تو ڈیبٹ بھی اسی لحاظ سے کم  نکلا ۔ تو آخر میں جبکہ سب کا بیلنس صفر ہوا اور ان کی ڈیبٹ اور کریڈٹ ہندسوں کے گراف میں سب ہی کی لائینیں اپنی اپنی جگہ  بہت متوازن نظر آ ئیں ، کسی بھی لائن میں حیرت انگیز تغیر نہیں واضح ہوا، ہر لائن کی روانگی بحیثیت مجموعی چھوٹی موٹی  اونچ نیچ کے ساتھ متوازن ہی نظر آئی ، سب کچھ ایک میزان میں چلتا نظر آیا ، فرق محظ سلیب کا ظاہر ہوا نیٹ ایفیکٹ کچھ بھی نہ تھا۔

July 4, 2011

تین منٹ

دوسرا ٹیکنیکل فائول کرنے پر ایک کھلاڑی کو تین منٹ کے لیے باہر کر دیا گیا ۔  اب تین منٹ تک اس کے بغیر باقی چار کھلاڑیوں کو باسکٹ بال جیسے برق رفتار کھیل میں  خود کو کھیل میں  رکھنا تھا۔ جو بھی کھلاڑی باہر چلا جاتا ہے وہ محض تین منٹ کے لیے جاتا ہے اس کے بعد وہ خود یا اس کا متبادل مل جاتا ہے۔ اس لیے تین منٹ کا  کا پلان بنانا ہوتا ہے نہ کہ اگلی پوری گیم کا ۔ کیونکہ  پانچویں کھلاڑی نے واپس ضرور آنا ہوتا ہے۔  صرف تین منٹ کا مختصر عرصہ اس کے بغیر گزارنا ہوتا ہے۔ ان تین منٹ میں باقی مانندہ چار کھلاڑیوں کو پانچویں کھلاڑی  کی زمہ داری تقسیم کر کے اپنے کندھے پر لینی ہوتی ہے۔ لیکن اس انداز سے سر انجام دینی ہوتی ہے کہ وہ اس مختصر سے وقفے میں خود کو تھکا نہ دیں کہ باقی کی گیم ہی نہ کر سکیں  اور نہ ہی اتنے لا تعلق ہو جائیں پانچویں کھلاڑی کی زمہ داری سے کہ مخلاف ٹیم اس کا بھرپور فائدہ آٹھا لے۔ ایسے میں چار کھلاڑیوں کو موٹیویشن کی ضرورت ہے جس کے لیے ایک کھلاڑی کو اپنے قد سے اٹھ کر کھیلنا پڑتا ہے اور وہ گارڈ  کہلاتا ہے باسکت بال میں ۔ ایسے کڑے وقت میں جو بھی اپنی زات سے باہر نکل کر کھیلتا ہے گارڈ ہی کہلاتا ہے۔ وہ کھیل کی رفتار کو سست کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ باقی نہ تھکیں ۔ اپنی حکمت عملی تبدیل کرتا ہے ، اور باقی چار کو متحد رکھتا ہے کہ ایسے میں باقی چاروں میں  باہمی ہم اہنگی کا فقدان نظر آ سکتا ہے کہ ان کے درمیان کی ایک کڑی پانی جگہ سے ہل چکی ہوتی ہے ۔ اور جو ٹیم یہ تین منٹ کا وقفہ پانچویں کھلاڑی کے بغیر بطریق احسن انجام دے دیتی ہے وہ کبھی 
مقابلے کی دوڑ سے باہر نہیں ہوتی۔
  کھیل کا اہم اصول یہ ہے کہ جو بھی جاتا ہے محض تین منٹ کے لیے جاتا ہے اور اس کے بعد وہ یا  اسکا متبادل مل جاتا ہے ۔ایسے میں گارڈ کو  اپنے قد سے نکل کر کھیلنا ہوتا ہے اور باقیوں کو وقتی طور پر اضافی زمہ داری لینی  ہوتی ہے چاہے باسکٹ بال  سامنے ہو یا نہ ہو۔

July 3, 2011

پر

آجکل ساون کا موسم ہے ساون میں زمیں کے اندر سے عجیب عجیب مخلوقات نکل آتی ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کے پر نکل آئے ہیں ۔  آج میں  بال ترزشوانےحجام کے پاس گیا تو اس سیلوں میں کچھ پتنگے گھس آئے۔ حجام نے پہلے تو ہاتھوں سے ان کو دور کرنے کی کو شش کی ، کچھ تو سمجھ گئے باقی دوبارہ واپس آ کر تنگ  کرنے لگے ، دوسری بار جب حجام تنگ ہوا تو اس نے جو سامنے بیٹھتے تھے زرا بھر کو ان کے پروں پر پانی کے قطرے ٹپکا دیئے ان کے پر بھاری ہو گئے اور وہ قوت پرواز سے محروم ہو گئے لیکن جب پانی ان کے پروں میں سے رس گیا تو دوبارہ اڑنے لگے اب جب وہ حجام کے آس پاس منڈلانے لگے تو اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اور  جو پتنگا پل بھر کے لیے بیٹھتا حجام  کمال محارت سے کینچی سے اس کے پر کاٹ دیتا تین چار پتنگوں کے جب پر اس نے کاٹ دیئے تو حیرت انگیز طور پر اس کے بعد کوئی پتنگا وہاں نہیں منڈلایا۔
ختم  شد