موت کی بھی عجیب حقیقت ہے ہر جاندارکو علم ہےکہ اس کو موت آنی ہے لیکن کسی کو نہیں معلوم کہ اس کو کب آنی ہے۔ ساعت موت کا علم اگر ہو جائے تو انسا ن سب کچھ بھول کر کنارہ کش ہو جائے لیکن یہ لاعلمی ہی کئی لوگوں کو اس گھمنڈ میں مبتلاکر دیتی ہے کہ شاید وہ ہمیشہ ہمیشہ جیئیں گے ۔
کل ایک کتاب پڑھتے ہوئے یہ خیال آیا کہ اگر مجھے یہ علم ہو جائے کہ میں چوبیس گھنٹے بعد مر جائوں گا تو میں کیسےجیئوں وہ جوبیس گھنٹے۔ اپنی زات کو جسےمیں نےزہنی اور نفسیاتی تجربہ گاہ بنا رکھا اس کو چوبیس گھنٹے کی موت کا عندیہ دیا لیکن خود کو یہ احساس دلانا بہت مشکل نظر آیا ۔ موت جو کہ اگلے ہی لمحے آ سکتی ہے میں خود کو یہ یقین نہ دلا سکا کہ میں چوبیس گھنٹے بعد مر جائوں گا اور یہ آخری چوبیس گھنٹے ہیں میری زندگی کے۔ خود کو احساس دلانے کی کوشش لگا تار کئی گھنٹے کرتا رہا لیکن وہ کیفیت اور احساس پیدا ہی نہ ہو سکا جانے کس چیز کا یہ دھوکا تھا کہ میں گماں کیے بیٹھے تھا کہ میں تو بہت جیئوں گا ابھی۔
ہار کر اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر اگر میں یہ سوچ لوں کہ میری پاس صرف چوبیس گھنٹے ہیں زندگی کے تومیرےلیے دنیا کیسے بدلے میرے گماں میں ، میں فرض کر لوں ۔ ہاں اگر میں یہ سوچ لوں ایسا۔
اگر میں ایسا سوچ لوں توکیا عجب تازگی کا احساس ہوکہ میری زندگی میں آنے والا کل نہ رہے اس کل سےجڑےاندیشے خوف اور سوال نہ رہیں۔ جو اپنے کل کو سنوارنے کے لیے میں اپنا آج گنوا رہا ہوں وہ نہ گنوائوں۔
پھر جو میں یہ سوچوں تو میں اپنے گزرے ہوئے کل سے پیچھا چھڑا لوں اس کی تلخیاں ، ستم اور محرومیاں بھلا دوں ، اپنی زات پہ لگے ماضی کے زخم ہی مٹا دوں کہ اتنا وقت ہی ہو کس کے پاس اس سب کے لیے، یہ تو بے کار لوگوں کا پیشہ سمجھوں۔
جو میں یہ سوچوں تو پھر دل سے حسد کینہ و نفرت کی ساری کالک مٹا دوں ، اس دل کو دھو کر آئینہ بنا دوں۔ سراپا محبت بن جائوں ، جن کو میں پوجتا رہا ہوں صدیوّ ں، اپنی انا کے ان بتوں کو نست و نابود کردوں انکا نام ہو نشان مٹآ دوں، روح سے پھوٹے وہ روشنی میری روح سے کہ ہر سمت اجالا ہو جائے۔ جہاں بھی جائوں محبت ہی محبت ہو جائے۔
جو میں یہ سوچوں تو دیکھوں اپنے ارد گرد تو سامنے اپنا والد نظر آئے ، سالوں کی محبت جس کو میں کبھی الفاظ نہ دے پایا ہمیشہ آنے والے وقت پہ ٹالتا رہا ، اس کے سامنے کروں یوں بیان کہ سماں میرے اوراسکے آنسوئوں سے جل تھل ہو جائے۔ منظر جو بدلےتو اپنی ماں دیکھوں وہ بار ملازمت جو میں نے اس کے پائوں میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے اٹھایا تھا ، جس نے فقط مجھے اس سے دور ہی کیا تھا ۔ اس بار کو پھینکوں اور ماں کے قدموں سر رکھ کر اپنی آخری نیند سو جائوں۔۔ پھر جو آٹھوں تو سامنے پائوں اپنے بہن بھائیوں کو اپنا ہستی تک سمیٹ کر ان کے حوالے کر دوں۔ ان کے غموں کے بدلے اپنی خوشیاں بیچوں، ، باہر جو نکلوں اپنے سارے یار ،انکے ساتھ مل کر میلہ سجا دوں ۔ وہ کھیل کھیلوں کہ جھوم اٹھیں فضائیں ، اپنے پیاروں کے قہقوں کو گھٹائوں کا ترانہ کر دوں
اک ایک ساعت جیئوں ، اک اک پل جیئوں ، ہر پل میں ہزار رنگ جیئوں بے فکر معاش و افلاس جیئوں۔ زمان و مکان سے آزاد جیئوں ، راحت و آسائش سے بے مراد جیئوں ۔ ایسے جیئوں کہ جینے کا حق ادا کردوں۔
اور پھر جب میں سوچوں کہ ہوں میری پاس فقط چند آخری گھڑیاں اس ڈھلتے دن کی ، تو میں اپنے رب کے حضور خود کو اس شدت جزبات و انکساری سے پیش کروں۔ پھر وہ بندگی ،حاضری و حضوری ہو اس خالق دو جہاں کے سامنے کہ فرزشتے بھی جان جائیں کیون آدم کو خلفہ بنا کر زمیں پہ بھیجا گیا ۔ جب پڑھوں نماز تو ایسی کہ معراج ہو جائے اور پھر جب رکھوں سر سجدے میں تو عرش کے فرش بھی کریں فخر اور اس سجدے میں ہی قیامت ہو جائے۔
پھر جو میں اگر سوچوں کہ زندگی کا ہر روز آج ہے تو زندگی کتنی سہل ہو جائے