August 23, 2010

فیضآنُ شاہ

لو جی میرا دوست جس کو میں نے انٹرویو کی تیاری کروائی تھی  فیضان
شاہ کے توسط وہ فیل ہو گیا ہے  میں نے آج تک جتنے لوگوں کو پڑھایا ہے،ان میں سے کوئی ایک بھی مائی کا لال یا مائی کی لالی ایسی نہیں کہ پاس ہوئے ہوں میرا نتیجہ ۱۰۰ فیصد رہا ہے اس معاملے میں,

August 19, 2010

کبھی دیر نہیں ہوتی

خلاف معمول ہم چار دوست  سنجیدہ تھے اور سنجیدگی میں پریشانی کا عنصر بھی نمایاں تھآ ، ہماری نشست پشاور کے مشہور ہوٹل خیبر چرسی تکہ پہ تھی جو کہ عین اسلامیہ کالج پشاور کی مخالف سمت میں ہے کھآنے کے انتظآر میں تھے عام حالات میں تو ہماری محفل قہقوں سے بھرپور ہوتی لیکن یہ مستقبل کے اندیشے تھے جو ہم پہ اس لمحہ غالب تھَےہم اسلامیہ کالج سے اپنی انٹرمیڈیت کی ٹرانسکرپٹ لینے آئے تھَے ، ،اسلامیہ کالج سابقہ سرحداور موجودہ خیبر پختونخواہ کی سب سے بڑی اور مشہور درسگاہ ہے ، یہ درسگاہ مختلف حوالوں سے بہت ممتاز حیثیت رکھتی ہے، چاہے اس کی وجہ اس کی دلکش عمارت ہو، خیبر پختون خواہ کی قدیم ترین درسگاہ ہو، یا اس کا اونچا میرٹ ، یا وہ سو روپے کا نوٹ جس پہ اس کی تصویر ہے یا قائداعظم کا اس سے تعلق کہ وہ اپنی وراثت کا ایک حصہ اس درسگاہ کو دے کر آئے تھے اس کے سبھی حوالے اس کی عظمت کا باعث تھے اور پھر اسی جداگانہ پن اور احساس فخر سے اس کے طلباء بھی سرشار رہتے تھے۔ یہ درسگاہ طلباء کو خواب دکھانا جانتی اور پھر ان کو اپنے خوابوں کے پیچھے دیوانہ وار بھگانا بھی۔اور شاید یہ اسی درسگاہ کی پرواز تھی کہ جس نے ہمارے پر جلا دیےتھےشاید کہیں اور ہوتے تو ہمیں اپنے نمبر بہت بہتر لگتے لیکن اپنے اونچے خوابوں کے سامنے ہمیں اپنےنمبر کہیں کم دکھآئی دیے ، سو ہمارے چہرے مایوس تھے اور ہم مستقبل کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے ہمارے برابر میں کچھ لوگ بیٹھَے تھَے ، ہمارے بلکل قریب ہونے کی وجہ سے ہماری باتیں سن رہے تھے ان میں سے ایک ہم سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ اپنے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں ، ہم سننا تو نہیں چاہتے تھے پر وہ اتنے پیار سے بولے کہ چاہتے ہوئے بھی اور عمر کا لحاظ کرتے ہوئے ہم ان کی بات سننے لگے اگے ان کی بات انہی کی زبانی سنیئے
   میں نے میٹرک دوسری ڈویژن میں کیا ، ایف اے میں تین سال لگائے،اور تین ہی سال میں بی-اے بھی تیسری  ڈویژن میں عام سے مظآمیں ہی  کر پایا، گھر والوں کو مجھ سے کچھ خآص امید نہ تھی سو انہوں نے مستقبل کے متعلق پوچھنا ہی نہیں کہ کیا کرنا چاہتے ہو، پہلے تو گھر پڑا رہا لیکن کچھ دن کے بعد اکتاہٹ ہونے لگی تو ایک دوست سے بات ہوئی اس کے نتیجے میں نے گھر آ کر بتایا کہ میں سی-اے کرنا چاہتا ہوں،پہلے تو بہت ہنسے اور یہی سمجھے کہ میں مزاق کر رہا ہوں لیکن جب میں نے ان کو یقین دلایا کہ میں سنجیدہ ہوں تو وہ مجھے پاگل سمجھنے لگے، کہنے لگے اب آخری عمر میں سی-اے کرو گے ، عرض والد سے لیکر بھائی بہن سبھی نے مجھے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ، جب گھر سے مایوسی ہوئی تو محلے میں دوستوں کو بتایا وہ بھی مزاق اڑانے لگے حتی کہ محلے کہ بزرگ آ آ کر مجھے سمجھانے لگے  ہر کوئی وقت اور عمر کے تعنے دیتا ،حد تو یہ ہو گئی کہ محلے کا ایک نشئی جس کوا پنا ہوش نہ تھا اور ہر وقت ایک درخت کے نیچے مدہوش پڑا رہتا تھآ وہ بھی مجھے سمجھآنے لگا نہ معلوم یہ کسی دوست کی شرارت تھی یہ اس کی ہمدردی۔۔۔ بحرہال مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں کوئی غلط کام کر بیٹھا ہوں سو اپنی تئین شرمندہ ہونے لگا اور معافی مانگنے کا سوچنے لگا لیکن تب احساس ہوا کہ میں چوری ڈکیٹی یا قتل تو نہیں کرنے جا رہا پھر اتنی مخالفت کیوں تو بس ٹھآن لی کہ اب کر کے دکھآنا ہے جب سی-اے میں داخلہ لیا تو نہ ٹھیک سے معمولی حساب کتاب آتا تھا اور نہ ہی انگریزی پڑھ سکتا تھآ کیونکہ بی-اے تو بوٹی کے زریعے کیا تھآ، لیکن آج میں ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہوں۔
  اس کے بعد وہ بولے کہ انسان کو کبھی دیر نہیں ہوتی وہ کبھی لیٹ نہیں ہوتا جس دن اور جس وقت وہ کسی کام کو کرنے کا اٹل ارادہ کر لیتا ہے وہی وقت اس کام کو کرنے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔اور  وقت کے ساتھ بھاگتے بھاگتے اکثر لوگ لڑکھرا جاتے ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو دوبارہ سے نئے حوصلے سے اپنی منزل کی طرف بڑھتے ہیں ۔ورنہ تو لوگ اپنے ضائع شدہ وقت کے احساس زیاں میں اپنی پوری عمریں بےکار گزار دیتے ہیںہم اکثر صرف یہ کہہ کر کہ اب بہت دیر ہو گئی اور اب کچھ نہیں ہو سکتا کہہ کر زندگی میں بہت کچھ کھودیتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح میری اس تمہید کی ایک وجہ ہے اور وہ ہے میرا دوست۔۔ ابھی دوبئی سے واپس آیا ہے ۔واپس آنے کی وجہ ، نوکری میں مسائل اور کچھ جدباتی غلطیاں  ہیں وہاں تین سال اس نے بینک میں سیلز کی نوکری کی اور یہاں سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری لیکر گیا تھآ  سو ادھا تیتر ، آدھا بٹیر بن کے لوٹآ ہے۔ اس سے جب بات ہوئی تو اس کو جب کہا کہ وہ واپس کمپیوٹر سائنس میں آئے تو اس نے بھی یہی بات کہی کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے تو یہ کہانی زہن میں گھوم گئی،پہلے اس کو پاکستان میں رہنے پر اور پھر واپس کمپیوٹڑ سائنس میں آنے پر آمادہ کیا ، ابھی اس کا ایک اچھی  جگہ انٹرویو کروایا ہے اور خّود تیاری بھی کروائی ہے، کل اسکا انٹڑویو ہے وہاں مجھے معلوم ہے کہ یہ اس کے لیے نہایت ایم ہے لیکن یہ میرے لیے بھی بہت اہم ہے کہ میں کم سے کم ایک ایسی مثآل دیکھنا چاہتا ہوں کہ جو باہر سے آکر واپس اپنے ملک میں ابتدائی سالوں میں ہی سیٹل ہوا ہو کیونکہ یہاں تو ہر کوئی یہاں سے بھآگ جانے کا ہی مشورہ دیتا ہے۔۔اور میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں بھآگ جانا اور چھوڑ کر چلے جانا کہاں کا اپشن ہے ، لڑنے کے لیے یہی جگہ ہے کہ یہاں حالات نامسائب ہیں اور بھآگ جانے کے لیے پوری دنیا پڑی ہے۔۔لو جی میں پھر جزباتی ہو گیا اور میرے بھآشن شروع ہونے والے اور میرے دوست ویسے بھی کہتے ہیں کہ میرے پاس ہر وقت کے لیے ایک کہانی اور ایک مثال تیار یوتی ہے اس لیے پہلے ہی بھآگ رہا۔۔ بہرحال میرے دوست کے لیے دعا کیجنَے گا۔۔

August 12, 2010

میں میں


روایات میں ملتا ہے کہ اللہ نے جتنے بھی نبی اور پیغمبر بھیجے ان میں سے اکثر نے نبوت سے پہلے یا نبوت کے ابتدائی دور میں بکریاں چرائیں ، علماء اس کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں کہ بکری وہ واحد پالتو جانور ہے جس کو سدھآرنا اور راہ پہ لانا بہت مشکل ہےگویا اس پیشے سے مْقصود ان کی تربیت کرنا تھی کہ وہ جب انسانوں کو ہدایت کا پیغام دیں تو برداشت اور صبر کا مادہ موجود ہو۔

بکری ایک خودسر جانور ہے، ہمیشہ ضد کرتی ہے، جس طرف اسکو ہانکا جائے اس کی الٹ سمت میں چلتی ہے کبھی بات نہیں مانتی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ بکری کی "میں" ہوتی ہے، اس کو مارا جائے یا ڈانٹآ جائے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور جتنا غصہ کیا جائے اس کی "میں میں" لمبی ہی ہوتی جاتی ہے ۔بکری ہمیشہ "میں" کرتی ہے کہ گویا "میں" ہی سب کچھ اور دوسرا کوئی کچھ بھی نہیں اور جو "میں" کر رہی وہی ٹھیک اور باقی جو کوئی مجھ سے کروانا چاہ رہا وہ غلط۔۔ اسی "میں" کی وجہ سے بکری میں آنا ہوتی ہے کہ اس کو جس طرف ہانکو اس کے الٹ طرف چلتی ہے۔۔

 اس کی دوسری وجہ بکری کے کان ہوتے ہیں بکری کے کان لمبے اور اور بے جان ہوتے ہیں اور وہ واپس گر کر بکری کے کان کوڈھآنپ لیتے ہیں اور کان کے اس حصے کے بلکل اوپر آ جاتے ہیں جس سے سنا جاتا ہے تو اس سے بکری کو کوئی آواز نہیں جاتی اور وہ کسی کی نہیں سنتی ۔ سو آپ اسکو سمجھآئیں یا اس پہ غصہ کریں ، برس پڑیں اس پہ کوئی اثر نہیں پڑتا کیوں کہ وہ کچھ سنتی ہی نہیں اور جب بھی آپ کا منہ ہلتا ہوا دیکھتی ہے تو "میں میں" شروع کر دیتی ہے اور آپ کا منہ جتنی شدت سے ہلتا ہے اس کی "میں میں" اتنی ہی لمبی ہوتی جاتی ہے

انسان اور بکری میں فرق بھی فقظ اس" میں" کا ہے اور جب انسان انسانیت بھول کر "میں" پر اتر آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ، وہ سمجھ رہا وہی ٹھیک ہے اور جو دوسرا کہہ رہا اس کی کوئی اہمیت نہیں ،ایسا انسان اپنا کان تو لمبا نہیں کر سکتا بکری کی طرح لیکن شاید اپنا دماغ نکان کر کان میں ضرور ٹھونس دیتا ہے کہ اس کو کسی کی آواز ہی نہیں اتی آپ اس کو لاکھ دلیلیں دیں ، حقائق اس کے سامنے لائیں، وہ اپکی بات نہیں سنے گا بلکہ اپنی ہی کہتا رہے گا اور بضد رہے گا کہ کوا سفید ہے۔ وہ اپنی آنا کے قدموں میں سر رکھ کر سویا رہتا ہے کہ کسی کی مان لینا اس کی ہار ہوتی ہے اور اگر اپ کسی طور اپنی بات اس کے کان میں ڈال بھی دیں گے تو وہ "میں میں" ہی کرتا رہے گا اور اپ جتنے زیادہ دلائل دیں گے اس کی میں مہہہہہہ لمبی ہی ہوتی جائے گی۔

سو ایک چھوٹا سا مشورہ ہے کہ بھلے سے آپ کے پاس ہزاروں معتبر اور جامع دلیلیں ہوں لیکن پہلے دیکھ لیں کہ  جس سے کہنے جا رہے وہ کہیں "میں میں" تو نہیں۔

اور اس "میں" میں خالق ملتا ہے نہ مخلوق کہ خالق کی بندگی شروع ہی "میں" کی نفی سے ہوتی ہے اور اسی "میں" کی ہٹ دھرمی میں ہم دوسروں کے احساسات اور جزبات کو کچل دیتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ متاثر ہوتے ہیں جو ہم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔اور ہماری "میں" انہیں ہم سے بہت دور کر دیتی ہے



August 4, 2010

گنجے سر سے نجات


آجکل گنجے پن سے نجات کے نام پر لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے، لوگ بال اگانے کے تو کیا بال اٹھانے پہ بھی لوگوں کو لوٹ رہے ہیں ، ابھی کل ہی کی بات ہے ، حجام نے نوازو اور شہبازو کی ٹنڈ کرنے کے ۲۰ ہزار لے لیے ، حالانکہ اس میں حجام کا استرا تک استعمال نہیں ہوا ، جو ۲ - ۴ بال تھے وہ اس نے ہاتھھ سے کھینچ کر نکال دیے تھے ، ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہمارے ڈاکٹر گاما نائی لوگوں کی فلاح کے لیے بہت سستا اور ۱۰۰ فیصد یقینی طریقہ علاج دریافت کر لیا ہے ،جس کی بدولت دنیا میں کوئی گنجا نہیں رہے گا نوازو بھی نہیں۔۔۔
آتے ہیں  اجزاء کی طرف،تین چیزیں اپ کو چاہیے 
،۱۔ پہلے تونشیلی انکھّوں والی  بھینس ، اگر نشیلی نہیں تو بھینگی بھی چلے گی ، اس کو ۴ دن بھوکا رکھیں ، پانی تک نہ پینے دیں ، گاس پھوس ہر طرح کی چیز اس سے دور رکھیں تاکہ کسی قسم کی بھی غزا اس تک نہ پہنچے ،
    ۲۔۔۔۔اک نائی کے پاس جائیں اور استرے سے اپنا سر بلکل صاف کروائیں ۔۔ یہ مشق تین چار بار دوہرائیں تاکہ سر اتنا صآف ہو جائے کا خربوزہ اس کو دیکھ کر رنگ پکڑنے لگ جائے اور اگر خربوزہ رنگ نہ پکڑے تو کم سے کم آپ کا سر خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑ لے۔ اور ٹنڈ اتنی صاف شفاف ہو کہ دوسرا اپ کے سر میں دیکھ کر اپنے بال سنوار سکے۔ٹنڈ کی جلد اتنی ملائم ہونی چاہیے کہ جو ایک بار ہاتھ پھیرے مدہوش ہو جائے۔
۳۔ تین پیکٹ  نمک لے لیں ، ایوڈین ملا نمک ہو تو بہتر ہے اگر وہ نہیںتو نمک میں تھوڑی سی ریت ملا لیں۔ تاکہ آیوڈین کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
اب آتے ہیں طریقہ علاج کی طرف۔
جی پہلے اپنی ٹنڈ اچھی طرح دھو لیں پھر اس پر تھوڑا تیل لگائیں ، تیل لگانے کے بعد نمک کے پیسٹ بنا کر اپنے سر پر اس طرح سے مل لیں کہ سر مکمل طور پر ڈھک جائے ، اپنے منہ اور باقی جسم پر گوبر مل لیں تاکہ بھینس آپ سے انسیت محسوس کرے۔ اب آپ بھینس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ جائیں ، بھینس کو اس وقت کھّول جائے گا۔وہ نشہ میں مدہوش آپ کی طرف بھاگے گی ، جیسے انڈیا کی فلموں میں ہیروِن ہیرو کی طرف بھاگتی ہے ، یہاں پشتو فلموں کی ہیروین کی مثال دینا زیادہ مناسب ہوتا لیکن کیونکہ میرا اپنا تعلق بھی "خیبر پختون خواۃ مخواہ" سے ہے اس یے احتیاطی تدابیر کی وجہ سے مماثلت انڈیا کی ہیروین سے دی گئی ہے۔ خیر بھینس کیٹ واک کرتی ہوئی اپ تک پہنچے گی اور آپ کے سر کو چاٹنا شروٰع کرے گی یہاں یہ یاد رکھآ جائے کہ سر پر نمک لگانے کا مقصد سر پہ فصل لگانا نہیں بلکہ بھینس کو کھینچنا ہے اور اگر آپ سر پر زیادہ لہلہاتی فصل کی امید میں سر پر کھآد لگا بیٹھے ہیں تو اس کے کھآنے سے بھینس مشتعل ہو سکتی اور  شدید قسم کے سائیڈ افیکٹس بھی ہو سکتے ہیں۔
اس سارے عمل کی سائینس اور آرٹس یہ کہ بھینس کی زبان کی ساخت  کھردری اور دانے دار اور اس کی رال میں  کیمیائی اجزاء ہوتے ہیں،  اور جہاں بھی بھینس اپنی زبان رکھتی ہے تو وہ پیوست ہو جاتی ہے ، ٹھیک اسی طرح جیسے پولیس والوں کا لتر اپ کے چمڑے پر پیوست ہوتا ہے اور   بھینس جب جگالی کرتے اور اپنے اندر سے سب کچھ ری-سائیکل کر کے اپ کے سر پر ملے گی اور پیار میں آ کر آپ کو چومے گی تو ۔۔۔ خیر بھینس کی زبان آپ کے سرکے جس جس حصے پر پڑے گی وہاں سے بالوں کو کھینچ کر باہر کر دے گی اور ان مساموں کو کھول دے گی جن کی بندش کی وجہ سے اپ کے بال نہیں اگ رہے۔
  تین سے چار بار کی مشق کے بعد اپ کے سر پر بال اگ آئیں گے ، ہاں اگر اپ  سرخ شرٹ پہن کر گئے  یا آپ  کی بھینس کے ساتھ زہنی ہم اہنگی نہیں ہو سکی تو شاید اپ کا سر ہی نہ باقی رہے لیکن   دونوں صورتوں میں اپ کو گنجے سر سے نجات مل جائے گی۔
یعنی سو فیصد یقینی کامیابی

گزشتہ سے پیوستہ

اپنے کالج میں چھپنے والے سالانہ شمارے میں ایک نظم چھپوائی تھی کل اس شمارے پہ نظر پڑی تو یہ بھی نظر آ گئی۔ دسویں کے امتحانات کے بعد فیض کو پڑھنا شروع کیا تھآ اور اس کے بعد فیض کے بڑے متاثرین میں شامل ہو گیا
اس کے عنوان اور مضمون سے یہی لگتا ہے کہ یہ فیض کی نظم "رقیب سے" پڑھنے کے بعد کوئی دورہ پڑا تھآ مجھے تو لکھی تھی غالبآ گیارویں جماعت میں لکھی تھی۔ اس میں فیض کے مختلف اشعار کے ٹوٹے ملائے گئے ہوں جیسے
آج پڑھ کر بے اختیار بہت دیر ہنستا رہا۔۔
"برائے مہربانی اس کو شاعری نہ سمجھا جائے"

عنوان:- "بنام فیض" ۔

واپسی کا سفر مشکل ہے

کٹھن ہے اپنے پاوں کے نشان پر چلنا

یاد آتے ہیںسفر ماضی کے عزاب

ملتے ہیں قدم قدم پہ مانوس چہرے

ہر زبان پہ ملتے ہیں سوال کئی

لیے ہوئے ہر سوال کئی تلخ حقیقتیں

ٹھوکر لگتی ہے پھر انہی پتھروں سے

جن کو کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

ملتا ہی پھر اسی کا نشاں

جس خون کو کبھی بہا کر گزرے تھے

آگے بڑھتے ہوئے چہروں پہ پھر وہی شرارت

جیسے ہم بھِی کبھی کسی پہ مسکرا کر گزرے تھے

اب چن رہے انہی خوابوں کی کرچیاں

جن کو غرور فتح یمیں کبھی ٹھکرا کر گزرے تھے

مگر احساس خوشبو ہے اب بھی پاس میرے

تیری حسین یاد ہے اب بھی ساتھ میرے

مگر یادوں کے سہارے گزاری نہیں جا سکتی

زندگی یاد جاناں سے سنواری نہیں جا سکتی

گو کہ ماضی کے حسین لمحے مرہم بنتے ہیں

مگر بےحال ، حال پہ ہنستے بھی تو ہیں

گو کہ اب بھی تیری یاد کو ترستی ہیں

انکھیںاب بھی تیرے لیے برستی ہیں

مگر یہ بھی سچ نہیں کہ تو ہی سبب غم ہے

تیرا زخم تازہ ہے مگر کم ہے

تیرے سوا بھی دیکھیں ہیں کئی قیامتیں

تیرے سوا بھی لگی ہیں کئی تہمتیں

تیرے ہجر سے بھی تلخ ہیں ستم افلاس کے

تیری انکھّوں سے بھی روشن ہیں غم روزگار کے



نوٹ:- اس شمارے میں ایک مضمون بھی آیا تھا میرا جس میں جاوید چویدری کا اثر نظڑ ا رہا ہے

اس وقت زیرو پوائینٹ ۳ تک آ گئی تھیں کتابیں یہ بھی ۲۰۰۲ کی بات ہے۔۔

وہ بھی لکھنا چاہوں گا جلد از جلد ۔۔