May 25, 2010

کمینہ

چاچا  نے جیسے ہی  ٹی-بیگ نکالنا چاہا ، تو چائے کے کچھھ قطرے میز پر ٹپک گئے ، میری نظر پہلے ہی اس کی طرف تھی ، میں اپنے چہرے پہ مصنوعی فرعونیت ، آنکھوں میں چنگیزیت  اور  لہجے  میں حیوانیت لا کر  اس پہ وحشیوں کی طرح دھاڑنے لگا، لیکن کچھھ الفاظ بمشکل منہ سے نکلے ہی ہوں گے ، کہ الفاظ حلق میں پھنس گئے ، سوچ اور ربط کا تعلق ٹوٹ گیا ، پچھلے کئی روز سے میرے ساتھ یہی ہو رہا ہے ، اس سے پہلے میرے لیے کسی بھی ماتحت کو بنا بات جھاڑ پلانا نہایت آسان تھا،ایسا کرتا بھی نہ تو کیا کرتا ،جی جناب دنیا میں جینے کا یہ ہی تو طریقہ ہے جو ذرا کمزور لگا اس پہ چڑھ دوڑو ، جو ماتحت ہے اس کو جھاڑتے رہو وقتاْ فو وقتاُ ، تاکہ وہ بھی نیچے لگا رہے ، باقی بھی زرا بھائومیں رہیں ، بھائی دنیا میں رہنے  یہی اصول ہیں ، جو نیچے لگا ہے اسے اور رگڑا لگائو ، جو ذرا دھیما لگے اس پہ ہاوی ہوتے جائو ، دوسرے کو موقع ہی نہ دو بلکل ، یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا اصول چلتا ہے ، جو پہلا بار دبانے میں کامیاب ہو گیا، بس وہ دبائے رہے گا ، جودب گیا  دبا  رہے گا،دوسرے کے حلق میں نہیں پھنسو گے تو وہ نگل جاہے گا تمھیں۔
، ہاں جہاں دوسرا ہاوی ہو جاہے ، غالب آ جاہے،گرگٹ بن جائو ، پینترا بدل لو ، کنی کترا لو ، نکلنے کی کوشش کرو، اگر وہ تو اونچے عہدے کا ہے تو خوشامد پر اتر آئو ، میٹھی مار دو ، کوئی  جگرے والا آدمی ہے تو دم دبا کر بھاگنے والی کرو،
برسوں سے میں اپنی اخلاقی تنزلی کے اس پہلو کو دنیاوی ہربہ کا نام دے کر ،اپنے  اس فلسفے  پہ کامیابی کے ساتھھ عمل پیرا تھا لیکن یہ پچھلے کچھھ ہفتوں میں  تیسرا موقع تھا کہ میں اپنی دہشت بٹھا نہیں پایا ،بلکہ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ کچھ ایسی باتیں نظرانداز بھی کر دیں ،جن باتوں کے ساتویں حصے کو بھی نہیں جانے دیتا تھا ،ایک بات زہن میں اٹکی ہوئی تھی ، کوشش کے باوجود اس سے پیچھا نہ چھڑا پایا ، شاید پڑھتا ہی نہ تو بہتر تھا لیکن جب حضرت علی رضی اللہ تعالی کا یہ قول نظر سے گزرا کہ "کمینہ کی تعریف ہے کہ جب   ایسے شخص سے نرمی و شرافت سے بات کی جاہے تو وہ ہاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے ، اور جب سختی سے بات کی جاہے تو وہ  دبک جاتا ہے "   تو  احساس ہوا کہ  میں تو ازل  سے اپنے اندر ایک کمینہ پال رہا۔

May 16, 2010

قصہ میری ڈاکٹری کا

مجھے بچپن ہی سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا ، بلکہ میرے پورے خانداں میں بدرجہ اتم موجود تھا ، پر نہیں تھا اگر کسی کو  تو   میرے استاد  کے - بی - مٰٰغل صاحب کو ، یعنی خدا بخش مغل  ، اگرچہ مغلوں کی سلطنت کے حصے بکھرے ہوہے بہت وقت گزر چکا تھا لیکن وہ اس حقیقت کو ماننے کو قطعآ تیار نہیِں تھے اور بہت شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہنے کی کوشش کرتے تھے لباس  اور وضع قطع  تو مغربی اختیار کی ہوئی تھی ، البتہ ان کی ساہیکل سلطنت عثمانی کی کوہئ نادر نشانی معلوم ہوتی تھی اور اس کی آواز گویا  کسی مغل بادشاہ کی آمد کا نکارہ ہوتا تھا ، ٹِِِِیییین تھڑْق ، تییییں ٹییییں ٹھڑق ، کی  پیڈل اور  چین گارڈ کے ٹکرانے کی  بارعب آواز سے رستے صاف ہو جاتے کہ گویا سلطنت عثمانی کے جانشین کا ہاتھی روند ڈیالے گا لیکن سڑک کا صاف ہونا ان کی ساہیکل کی برییک کا نہ ہونا ہوتا تھا اور اگر غلطی سے کوئی نہ ہٹ پاتا تو نان - سینس کی گرجدار آواز اس کو بھگانے کے لیے کافی ہوتی تھی۔ بات کہاں چلی گئی ، وہ اس وجہ سے میرے ڈاکٹر بننے کے خلاف نہیں تھے  کہ میری صلاحیتوں پہ شک تھا ان کو ، بلکہ انہوں نے گوہر شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے مجھ جیسے نادر ہیرے کو پہچان لیا تھا، وہ مجھے نیوٹن کے درجہ کا ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے یعنی سکول سے بھاگا ہوا ڈاکٹر ، لیکن مِیں ایک چھوٹا سا ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہی بننا چاہتا تھا بہرحال انہوں نے اپنے منصوبہ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا ، وہ آتے ہی ہر روز سب سے پہلے مجھے دو چار ڈنڈے رسید کرتے تھے ، اور اگر کبھی میں سکول نہ آتا تو ان کو تمام دن بےچینی رہتی جس کا اظہار وہ دوسرے طلباء کے اوپر ڈنڈوں کی صورت میں کرتے رہتے تھے ،اور اگر وہ نہ آتے تو پورا دن میرا بدن ٹوٹتا رہتا، بہرحال اب  جب یاد کرتا ہوں وہ زمانہ تو واحد یہی مشق تھی جو مجھھ پر بہت باقاعدگی سے ہوئی یا  یوں کہہ لیں  میں نے کِی۔ وہ بہت نفیس بھی تھے کسی کی ناک ذرا بھی بہہ رہی ہوتی تو اس کو کلاس کے باہر  کھڑا کر دیتے تھے ، ان کی اسی نفاست کی وجہ سے میں نے ابتدائی تعلیم جماعت کے باہر ٹھہر کر حاصل کی۔
ابندائی دور سے ہی مجھھ میں ڈاکٹری صلاحیتیں پائئ جاتی تھیں جیسے کیڑے  ڈاکٹر لوگ اپنے نسخے پر ڈالتے ہیں بعینہ ویسے ہی مکوڑے میں اپنی سلیٹ پر ڈالتا تھا ، اور ڈاکٹروں کے نسخے کی طرح کسی کو سمجھھ نہیں آتی تھی ،  یہاں ایک بیت ضروری غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹری نسخے کی سمجھھ فارما "سستوں" کو بھی نہیں آتی  وہ مریض کو اندازے پہ دوائی  دے دیتے ہیں ، اب ان کی دوائی نہیں بکے گی تو بے چارے بھوکے مر جاہیں گے سو اس راز کو راز ہی رہنے دیں ، ویسے بھی راز کی بات کسی کو نہیں بتانی چاہیے ،میں بھی اپنے  ۳۰-۴۰  انتئائِی قریبی دوستوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتا۔نہ صرف یہ بلکہ میں بڑے ڈاکٹروں کی طرح منہ دھونے اور کنگھی کرنے کے لوازمات میں نہِیں پڑتا تھا ، انسان کو قدرت کے قریب تر رہنا چاہیے ۔
میں بہت اعلی درجہ کا طالبعلم تھا ، اور مشکل سوالات حل کر لیا کرتا تھا ، لیکن امتحانات میں کیونکہ آسان ہوتے تھے اس لیے فیل ہو جاتا تھا, بہرحال کے-بی مغل صاحب کا میرے متعلق نظریہ  اتنا فروغ پایا کہ میرے  اساتزہ، سکول، بلکہ تعلیمی بورڈ   میں  والے بھی ان کے نظریاتی ساتھی بن گئے ، نتیجہ یہ ہوا کہ میں میٹرک میں لگاتار ۳ سال محنت کے باوجود بھی غیرامتیازی نمبروں سے پاس ہوا، لیکن اقبال کا یہ  شاہیں بھلا تند باد مخالف سے گبھرانے والا کہاں تھا ، میرے عزم اور حوصلے نے دکھائی مجھے نئی راہ ، ،میں نے گاما نائی کی شاگردی اختیار کر لی، نام سے دھوکہ مت کھاہیں آپ وہ ڈاکٹر گاما نائی تھے ،بہت "گفٹڈ" ڈاکٹر ہیں ، یعنی عطائی ڈاکٹر    پورے علاقے کے مانے ہوِہے ڈاکٹر ،آن کا ایک ہی اصول تھا مریض جس حالت میں آہے اس حالت میں واپس نہ جاہے اور بس یہ ہی ان کی کامیابی کا راز تھا۔ وہاں کی ڈاکٹری کے قصے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comming Soon...

May 9, 2010

۱-خودکلامی

زندگی بہت مشکل ہو گئ ہے ، ہر گزرتے لمحے کے ساتھ  اس کی الجھنوں میں اضافہ ہو رہا ہے 
بظاہر میں نے بہت کچھ  حاصل کر لیا ہے زندگی میں ، لیکن جب وقت،فرائض اور زمہ داریوں کی جمع تفریق کرتا ہوں تو جواب منفی میں آتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ جس مقصد کے لیے  ، سفر شروع کیا تھا وہ تو راہ کی خاک میں ہی کھو گیا اور میں راستے کو ہی اپنی منزل سمجھھ بیٹھا، ہم اکژ سنگ مپل کو ہی منزل سمجھھ کر تمام عمر وہاں گزار دیتے ہیں۔کبھی حقیقت بہت دیر بعد کھلتی ہے اور کبھی یہ راز جانے بغیر ہی  دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
بچہ زمیں پر کھیل ریا تھا ، قرہب ہی چارپائیِ پر ایک بزرگ نیم دراز حالت میں آرام کر رہے تھے ، بچہ مٹی پر بیٹھا ہوا اپنی    دھن مین مگن تھا ،بچے کے سامنے ایک پرانا  مرتبان رکھا ہوا تھا ، مرتبان پہلے گھریلو برتن کے طور پر استعمال ہوتا ہو گا لیکن اب اس کی ابتر حالت کی وجہ سے بچہ کھلونے کے طور پر استعمال کرتا تھا ، دیہات میں رہنے والے بچوں کو عام طور پر ایسے ہی کھلونے  میسر ہوتے ہیں ، بہرحال بچے کا دھیان مرتبان  کی طرف گیا ،بچے نے مرتبان اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو بھاری محسوس ہوا ، مرتبا ن پتھروں سے بھرا ہوا تھا ، اس میں چھوتے بڑے حجم کے پتھر تھے،بچے نے مرتبان الٹا تو سارے پتھر زمین پر  ُُپھیل گئے  اور وہ ان سے مختلف اشکال بنانے لگا کچھھ دہر بعد بچے نے وہ پتھر واپس مرتبان میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ابھی کچھھ ہی پتھر مرتبان میں ڈلے تھے کہ مرتبان بھر گیا اور  ، بچے نے دوبارہ مرتبان خالی کر کے بھرنے کی کوشش کی لیکن اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ، یہ سب معصوم زہن کے لیے کافی پریشان کن تھا ، بہت کوشش کے باوجود بھی جب بچے سے مرتبان بھر نہ پایا تو وہ حیرت اور پریشانی کے ملے جلے جزبات کے ساتھھ ادھر آدھر دیکھنے لگا ،بچے کی نگاہ جب بزرگ پر پڑی ،تو وہ پہلے سے ہی بچے کی معصوم خواہش کا مشاہدہ کر رہے تھے ، وہ مسکراہے اور چارپائِِی  سے اٹھے ، اپنی لاٹھی کا سہارہ لے کر اپنے کپڑوں کی پرواہ کیے  بغیر     مٹی پر ہی بیٹھھ گئے ، بچے کے سامنے سے مرتبان لے کر اپنے سامنے رکھھ لیا ،بچہ بہت دلچسبی سے یہ منظر دیکھنے لگا، پہلے  بزرگ نے بڑے حجم کے پتھر مرتبان میں ڈالے ، پھر چھوٹے حجم کے پتھر ڈالے اور مرتبان کو دونوں ہاتھوں سے بیضوی شکل میں حرکت دی تو چھوٹے پتھر خود اپنی جگہ ڈھونڈ کر مرتبان کی تہ میں بیٹھھ گئے ، بزرگ نے باقِی مانندہ پتھروں کو مرتباں میں ڈالا اور یہ مشق دورائی اور سارے پتھر مرتباں کے اندر اپنی اپنی جگہ پر چلے گئے۔اور  سارے پتھر نہایت آسانی کے ساتھھ مرتبان میں سمو گئے،
مجھے اپنی زندگی بھی ایک مرتباں سی  زیادہ کچھ نہیں لگتی  ، اور میں وہ بچہ ہوں کہ جس نے خواہشوں اور آساہشوں کے چھوٹے چھوٹے پتھروں سے اپنی زندگی کے مرتبان کوبھر لیا ہے ، اور اس زندگی کی بڑے پتھر،اس کی زندگی کے اصل مقاصد ، مرتبان سے باہر ہی پڑے ہیں ، بلکہ حقیقت میں میں نے بڑے پتھروں کو پہچانا ہی نہیں ، اپنی ترجیحات کا تعین ہی نہیں کیا پوری عمر ، بڑے پتھروں کو مرتبان میں جگہ ہی نہیں دی، اور چھوٹے پتھروں کو اتنا موقع ہی نہیں  دیا کہ وہ خود اپنی جگہ گھیر لیتے ، اگر میں فقط اتنا سمجھھ لیتا کہ
 بڑے پتھر پہلے"   تو زندگی بہت آسان ہوتی۔"